جنوری معذرت کے ساتھ – شئے رحمت بلوچ

424

جنوری معذرت کے ساتھ

تحریر: شئے رحمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ دنیا بھی کیسی عجیب چیز ہے، یہ لوگ کیسے عجیب ہیں، اس دنیا میں کیا رکھا ہے، انسان کو دنیا کا سب سے خوبصورت شئے مانا جاتا ہے، انسان کو رب نے سب سے اعلیٰ ترین خصوصیات بخشی ہے، اُن کو احساس، دماغ، زہن، سمجھنا اور سمجھانا، زبان، دلیل، سب کچھ بخشا ہے ، اور سب سے زیادہ ان کو ایک دوسرے کا درد سمجھنے کی خاصیت دی ہے ، اب وہ کب کہاں کیسے کوئی استعمال کرے ، وہ ہر کسی کا الگ طرز ہوتا ہے۔

انسان کو درد سمجھنے کا خاصیت رب نے دیا تو تھا، لیکن کہاں یہ احساس مرگیا کوئی نہیں بتا سکتا ، اگر واقعی کوئی کسی کا درد سمجھ سکتا ہے تو میرے خیال میں اس دنیا میں کوئی بھی دکھی نہیں ملتا ، انسان کی حوصلہ افزائی اس وقت ہوتا ہے جب اس کے غم میں کوئی اس سے کندھا ملا کر کھڑا ہوجائے ۔ جب کسی انسان کو کوئی مہربان مل جاتا ہے تو وہ کبھی بھی دکھی نہیں ہوتا، وہ اپنا سارا غم بھلا کر ایک نئی طرز زندگی شروع کرتا ہے۔

جنوری ایک مہینے کا نام ہے، جو آتے ہی پورے سال کو بدل دیتا ہے، کچھ لوگ اس مہینے میں نئے سال کا جشن مناتے ہیں، بہت ہی زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ جنوری سال کو بدلتا ہے، لیکن بد قسمتی سے کچھ لوگ جنوری میں اپنے پیاروں کے جانے کے غم میں صرف اور صرف آنسو بہاتے، روتے، سسکتے نظر آتے ہیں، یہ مہینہ ایک ہی ہے سال تو سب کےلیے بدلتا ہے لیکن کچھ لوگون کےلیے اپنے ساتھ خوشیاں لاتا ہے اور کچھ لوگوں کےلیے غم لاتا ہے ، وہ مہینہ ایک ہے لیکن یہ مہینہ گذارنے والے لوگ دو قسم کے ہیں ۔ سال بدلتا تو ہے لیکن حال نہیں بدلتا ، کاش ہر سال کے بدلتے ہوئے حال بدلتا، تو کتنا اچھا ہوتا ، ہر کوئی اپنا حال بدل کر مستقبل کے روشنی کو اپناتا ۔ کاش ایسا بھی ہوتا۔

جنوری ہمارے لئے کیوں نہیں؟ جنوری ہمارےلئے اس لئے نہیں کہ جنوری نے ہم سے ہماری ہستیوں کو چھین لیا ہے، جنوری نے ہم کو ایسے نقصانات دیئے ہیں جن کے خلا صدیوں تک پُر نہیں کیے جاسکتے ۔ جنوری میں ہم خوشیاں کیسے منائیں ؟ ہم اس وقت جنوری میں خوشیاں منا سکتے ہیں کہ جب ہمارا ملک آزاد ہو ہر گھر میں خوشیوں کا سماں ہو ، ہر چہرے پر مسکراہٹ ہو ، ہر دل میں آزادی کی خوشی جس کو کوئی بھی نہ چھین سکے، ہر کوئی اپنے آبائی علاقوں میں آرام اور آزادی سے بیٹھ سکے ، اس وقت میں بھی جنوری میں خوشی کرونگا میرے غلام قوم کا ہر فرد خوشی منائےگا ۔

مجھے یاد ہے جنوری آیا ضرور کوئی نہ کوئی خراب احوال لیکر آیا ہے ، جنوری 2015 کا بات ہے کہ میں بہت ہی خوش تھا کہ نیا سال آگیا ہے ، میں اپنے پیارے دوست ضمیر کے ساتھ گیا ، میں اور ضمیر گھومے ، پہاڑوں کے نظارے ، پہاڑوں میں وہ بہتی ندیاں ، وہ سرد ہوائیں ، وہ اُڑتے پرندے ، پرندوں کی سرُیلی آوازیں ، ہر وہ خوبصورتی میرے وطن کا کہ میں پوری زندگی کی غم دو پل میں بھول جاؤں، لیکن یہ احساس مجھے ہر وقت رہا ہے کہ یہ سرزمین ظالموں کے قبضے میں ہے ، جس کو آزاد کرنا ہمارا فرض ہے، جو بھی ہو جیسا بھی چاہے جان سے جانا پڑے ، چاہے یہ خوبصورت وطن کا نظارہ دیکھ نہ سکوں ۔ لیکن اس زمین کو خون سے رنگنا ہوگا۔

لیکن جب ہم گھر واپس پہنچے تو شہید رحمت حاکُم وہاں موجود تھا، میں پہلے تو حیران ہوا ، وہ ایسے اچانک ادھر، میں وہاں رُک گیا ، تو اُس نے ہنس کر کہا کہ آؤ ، میں نے شہید سے ہاتھ ملایا اور وہاں اس کے ساتھ بیٹھ گیا ، باتیں کی ، اُس نے پوچھا کہاں کہاں گھومے ہو؟ میں نے کہا ، ہم صبح یہاں سے نکلے ہیں ، بہت سی جگہوں کی سیر کی ہے، میں نے کہا ایک منٹ میں آپ کو فوٹو دکھاتا ہوں ، میں نے فوٹو دکھائے ، وہ مسکرا کر بولا اتنا دور گئے ہو ، میں نے جگہوں کے نام بتائے۔ اس کے بعد میں نے پوچھا گھر میں سب خیریت ہے نا ؟ تو اس نے کہا ہاں خیریت ہے مگر حال احوال دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے دوستوں کے گھر میں چھاپہ ہوا ہے، سنیڑی کے مقام پر ، ہمارا دوست ، ستار ، لونگ ، جلال اور اپنے بہن اور ایک چھوٹی سی معصوم بچے شیریں کے ساتھ ، پاکستانی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے ہیں۔

مہینہ وہی جنوری تھا ، کہ ہمارے وہم اور گمان میں نہیں تھا کہ وطن دوست مظلوم قوم کی آواز معصوموں کے قصے میں افسوس کرنے والا رحمت شہید ہوجائے گا ، مہینہ وہی تھا ، کچھ دن بعد پاکستانی فوج کے مقابلے میں رحمت نے جام شہادت نوش کی ، وہ اصل میں ( کوہ سفید ) اسپیت گئے تھے اسُ کو احوال ملا تھا کہ ہمارے ساتھی فوج کے گھیرے میں ہیں ، تو وہ وہاں جاکر اپنے چھوٹے بھائی جیسے دوست شیہک جان کو اپنے ساتھ لیکر میدان جنگ میں اترتا ہے ۔ اور اپنے ساتھیوں کو بحفاظت گھیرے سے نکال کر ، خود مسلح دفاع کے کارندوں کے گولی سے شہید ہوجاتا ہے ، اس حملے میں فوج کے موٹر سائکلوں کو بھی چھین لیا جاتا ہے، اور فوج کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح جنوری نے ہم سے ڈاکٹر مناں جان جیسے عظیم کردار کو اور ساتھیوں کو بھی چھین لیا۔ اسی طرح گذرے ہوئے جنوریوں کی طرح اس دفعہ بھی جنوری نے ہم سے ، دودا جان ، ناجد جان ، شکیل جان ، میران جان اور باران جان کو چھین لیا ، لیکن ہم بلوچ قوم نے کس دن اور کس مہینے میں پیارے نہیں کھوئے اور ایسا کوئی دن نہیں جب کوئی بلوچ وطن کے دفاع میں خون سے ہولی نہ کھیلے ؟ غلام قوم ! مظلوم قوم ، بس ہم نے ایسے ہی ہر مہینے میں جنازے اٹھائے ہیں ! بس لاشیں اٹھائے ہیں اور ان لاشوں سے ایک قدم آگے بھی ایک منزل ہے آزاد وطن آزاد سماج۔

معاف کرنا جنوری میں محض سال بدلنے کا جشن نہیں منا سکتا البتہ آپ کا قرض دار رہونگا اور یہ قرض تب چکا دونگا جب ہمارا حال بدلے اور مستقبل روشن ہوجائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔