سلال کے ساتھ ہزاروں طلباء لاپتہ ہوگئے

344

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے، روزانہ کی بنیاد پر مختلف علاقوں سے لوگوں کے لاپتہ ہونے کی خبریں رپورٹ ہوتی ہے۔

جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے نوشکی سے جبری طور پر لاپتہ کیے جانیوالے طالب علم سلال جمالدینی کو بازیاب کرنے کی اپیل کی ہے۔

سلال جمالدینی ولد منان جمالدینی کو دو روز قبل فورسز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار کلی جمالدینی میں قائم آزات جمالدینی لائبریری سے حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے گئے جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔

آزات جمالدینی لائبریری کا قیام حالیہ دنوں علاقے کے نوجوانوں کے کاوشوں سے عمل میں لائی گئی جس میں سلال جمالدینی نے متحرک کردار ادا کیا تھا جبکہ سلال جمالدینی لائبریری میں بچوں کو ان دنوں پڑھانے میں مصروف تھے۔

سلال جمالدینی کے حراست بعد گمشدگی کے بعد طلباء تنظیموں، سیاسی و سماجی جماعتوں سمیت سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی جانب سے رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔

پروگریسیو اسٹوڈنٹس کلیکٹیو کی جانب سے اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ ریاست برسوں سے طلباء کو اغوا کر رہی ہے۔ پاکستانی حکام نے سیکنڈ ایئر کے بلوچ طالب علم سلال جمالدینی کو نوشکی سے اغوا کرلیا ہے۔ وہ بچوں کو پڑھاتا تھا اور ذہین طالب علم کے طور پر جانا جاتا تھا۔

پروگریسیو اسٹوڈنٹس کلیکٹیو کی جانب سے مزید کہا گیا ہے ہم معصوم طلباء کو اغوا کرنے کی اس بربریت کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ہم ریاست کے اس گھناؤنے اقدام کے خلاف اپنے بلوچ بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور سلال بلوچ کے فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزشین آزاد کے مرکزی سیکرٹری جنرل شامیر بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر کہا کہ معاشرے کو مفلوج کرنے کے لئے بلوچ طلبا کا لاپتہ ہونا ریاست کی جاری پالیسی ہے۔ سلال بلوچ کو نوشکی میں ایک لائبریری سے غائب کردیا گیا، سلال کے ساتھ ہی ہزاروں دوسرے بلوچ طلباء لاپتہ ہوگئے۔

سوشل میڈیا پر متحرک پیردان بلوچ نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے لائبریری پہاڑوں سے زیادہ خطرناک ہیں، گذشتہ شب ریاستی فورسز کے ہاتھوں سلال جمالدینی کو آزات جمالدینی لائبریری نوشکی سے گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔ سلال کا جرم ایک تو بلوچ ہونا ہے دوسرا کتابوں سے محبت۔

متحدہ عرب امارات و پاکستان میں جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی بہن فریدہ بلوچ کا کہنا ہے کہ نہ تو یہاں تعلیم یافتہ محفوظ ہیں اور نہ ہی اساتذہ۔ آج ایک اور نوجوان سلال جمالدینی کو میرے بھائی راشد حسین کی طرح لاپتہ کردیا گیا، میں انسانی حقوق کی تمام تنظیموں اور پوری دنیا سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ ہمارے لوگوں کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سے اس وقت 45 ہزار کے قریب لوگ لاپتہ ہیں جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جبکہ خواتین و بچوں کے جبری گمشدگیوں کے واقعات بھی رپورٹ ہوچکی ہے۔

ایک سال کے عرصے میں سالوں سے لاپتہ کئی افراد رہا ہوچکے ہیں تاہم دوسری جانب اسی تیزی کے ساتھ جبری گمشدگیوں کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج تواتر کیساتھ جاری ہے۔