کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

166

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3732 دن مکمل ہوگئے۔ انسانی حقوق کے کارکن حمیدہ نور اور حوران بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقعے پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو صورتحال بلوچستان کی اب بنی ہوئی ہے اس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے کافی فاصلہ طے کرلیا ہے، بلوچ قومی پرامن جدوجہد کے لیے باقاعدہ جدوجہد کا آغاز کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حانی بلوچ جبری گمشدگی کیس، وفاقی و صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری

انہوں نے غلامی و محکومیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ذلت، اطاعت، عصبیت دماغ کو کند کرتی ہے اور اس کا شعلہ بجھا دیتی ہے کیونکہ غلامی، اطاعت و عصبیت کے مفقود ہونے کی دلیل ہے لوگوں نے دماغ سے عاجز آکر ہی ذلت کا طوق گردن میں ڈالا، استحصالی طبقے کے پورے وجود میں زہر بھرا ہوتا ہے، روح مردہ کرنے والی ظلم و جبر، استحصال و محکومیت کا شکار ستم کش، ستم رسیدہ طبقہ یہ محسوس کرلیتا ہے کہ اس کے سرپر سوار پاکستانی جابر ظالم استحصالی طبقہ کی موجودگی کا بوجھ کسی چٹان کی طرح انہیں دبائے ہوئے ہیں یہ چٹان ہر اس شخص کو پیس کر رکھ دے گی جو فقط یہ سوال کرنے کی جرات کر بیٹھے گا کہ اس قابض کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ آزاد ماؤں کے پیدا کیے گئے آزاد فرزندوں کو غلام بنالیں اور انہیں عمر بھر کے لیے اذیت، بھوک، افلاس، تنگی اور بدنصیبی کے حوالے کردیں۔

مزید پڑھیں: راشد حسین کی عدم بازیابی کیخلاف کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ کرینگے – لواحقین

ماما قدیر نے مزید کہا کہ نام نہاد قوم پرست لوگ اسلام آباد کے اتنے سجدے کرچکے ہیں کہ ان کے ماتھے پر نشان ان کی شخصیت کی پہچان بن چکی ہے لیکن یہ نام نہاد سجدے جن کے وژن غیر حقیقی ہے، قوم پرستی کے دعویدار اس پارلیمنٹ کی سیاست کرتے ہوئے انقلاب اور تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں، نعرے دیتے ہیں حالانکہ قبضہ گیریت کی جڑیں پارلیمنٹ کی مٹی میں پیوست ہیں پاکستان استحصالی پالیسیاں پارلیمنٹ کے ذریعے پورا کرنا چاہتی ہے پالیمانی طرف سیاست سے مراعات و خواہشات کی غلامی ان لوگوں کی ضمیر اس طرح جلاتی ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو جلاتی ہے۔