دو ٹکے کا بنگلادیش – جمیل خان

448

دو ٹکے کا بنگلادیش

تحریر: جمیل خان

دی بلوچستان پوسٹ

یہ بنگلہ دیش کا دو ٹکے کا سکہ ہے، ہمارے چار روپے کے برابر۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب ہماری ٹکے کی اوقات بھی نہیں رہی۔ یہ وہی خطہ ہے، جس کے لوگوں کا مذاق انہیں بھوکے بنگالی کا نام دے کر اڑایا جاتا تھا۔ پستہ قد، کالا، مچھلی کی باس والا اور نجانے کیا کیا نام دیے گئے۔ لیکن اسی خطے کی خواتین کے لمبی زلفوں اور چست بدنوں پر ہوس بھری نظریں ہمیشہ مرکوز رہیں۔

پھر ہمارے جرنیلوں نے ان کی نسل تبدیل کرنے کا بیڑہ اٹھایا، لاکھوں مردوں کے قتل اور لاکھوں خواتین کے ریپ کے الزامات آج تک ہمارا پیچھا کرتے ہیں۔

ان کے دانشوروں کو گولیاں مار کر بے دردی سے ہلاک کیا۔ لیکن ان کی دانش کو الباکستان کی وحشتیں ختم نہ کرسکیں۔

آج ریاست پاکستان ایسا اژدہا بن گئی ہے جو خود کو نگل رہا ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش علم و ہنر اور معیشت و معاشرت کے لحاظ سے ایک ابھرتا ہوا ملک بن گیا ہے۔

ان کی ترقی پسند سوچ ان کے اس سکے سے ہی ظاہر ہو رہی ہے، جس میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی کتاب پڑھ رہے ہیں۔

ہمارے دو روپے کے سکے پر ایک مسجد کی تصویر ہے، جسے ایک جابر، ظالم اور مطلق العنان بادشاہ نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ وہی بادشاہ تھا جس نے اپنے باپ اور بھائیوں کو بھیانک طریقے سے قتل کرکے بادشاہت پر قبضہ کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اپنے بھائی داراشکوہ سے دوستی کے جرم میں مجذوب شاعر سرمد کی کھال کھنچوا کر انہیں اذیت ناک موت سے دوچار کیا تھا۔

اس وحشی درندے نما حکمران کی ایک ایسی بے وقعت یادگار کو الباکستانی سکے کی زینت بنانا ہی اس ریاست کے کارپردازوں کی سوچ کو آشکار کر دیتا ہے۔

بے وقعت اس لیے کہ جب یہ وسیع و عریض اور نہایت شان و شوکت کی حامل مسجد تعمیر کی گئی تو کیا لاہور میں مسلمانوں کو واقعی نماز کی ادائیگی کے لیے ایسی وسیع گنجائش والی مسجد کی ضرورت تھی؟ شاید اس وقت لاہور میں مسلمانوں کی کل آبادی اس مسجد کے ہال کو بھی نہ بھر پاتی۔۔۔۔۔
اور اس وقت عام آدمی کا معیار زندگی کیا تھا؟ تاریخی شواہد سے تو معلوم ہوتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی نہایت کسمپرسی میں بسر ہوتی تھی، عمر کی اوسط شرح پینتالیس سال بتائی جاتی ہے، چنانچہ عالیشان عمارات کی تعمیر کا مقصد گھسٹ گھسٹ کر زندگی کے پل گزارنے والے افراد کے ذہنوں کو مرعوب کرکے ماؤف کر دینا تھا۔

بنگلہ دیش نے ایسے کسی درندے نما حکمرانوں کو اپنی قوم کا ہیرو قرار نہیں دیا، بلکہ مستقبل کے ان نونہالوں کو اپنا ہیرو بنایا جو تحصیل علم میں مگن ہیں۔

ہاں ایک ضروری اور اہم بات جو رہ گئی وہ یہ ہے کہ سکے پر کتاب پڑھتے ہوئے لڑکے کے ساتھ کتاب پڑھتی ہوئی لڑکی کی بھی تصویر ہے ، اور اس نے اسکارف بھی نہیں باندھا ہوا ہے۔

الباکستان میں تو بڑے بڑے نامور اسکولوں میں اسکارف لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ آج ہی ایک وڈیو دیکھی کہ خیبر پختونخوا کی پولیس حجام کی دکانوں سے ان نوجوانوں کو شیو بنوانے کے جرم میں پکڑ کر تھانے لے گئی۔

بنگلہ دیش ترقی کر رہا ہے، وہاں مذہبی غنڈوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے شہروں اور دیہاتوں میں لڑکیاں سائیکل چلاتی ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں سیاہ عبایا میں لپٹی ہوئی بچیوں کا ریپ کرکے مار دیا جاتا ہے۔ غنڈے ہمارے چھوٹے چھوٹے معصوم لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرتے اور انہیں قتل کر دیتے ہیں۔

ہمارے خون میں حرامزدگی اور بے غیرتی کا کوئی ایسا موذی جراثیم گردش کر رہا ہے کہ جب ہم اپنے اس ملک کی سماجی ابتری کا نوحہ پڑھنے بیٹھیں تو یہ اعدادوشمار کا پلندہ سنبھالے کود پھاند شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں فلاں ملکوں میں دیکھو کیا ہو رہا ہے۔

ہم ایسے یوتھیوں، جماعت اسلامی کے شاہین بچوں اور عقابی نگاہ رکھنے والے تاڑو بزرگوں سے یہی عرض کرنا چاہیں گے کہ کسی کا گوبر کھانا ہمارے لیے اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ ہماری ریاست گوبر کھا رہی ہے اور الباکستانی اکثریت کو بھی گوبر کھلا رہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔