طالبان ناکام کیوں ہوئے؟ ۔ توارش بلوچ‎

498

طالبان ناکام کیوں ہوئے؟

تحریر: توارش بلوچ‎

دی بلوچستان پوسٹ 

‎طالبان سالوں سے مذاکرات سے انکار کرتے آئے ہیں، طالبان رہنماؤں کا یہ خیال رہا ہے کہ 1996 کی طرح ایک مرتبہ پھر پاکستانی آئی ایس آئی اور ملٹری کی مدد سے پورے افغانستان پر فتحیاب ہونگے اور موجودہ افغانستان کی جمہوری حکومت کو گرا کر ایک انتہا پسندانہ حکومت قائم کریں گے لیکن اس مرتبہ طالبان کو بری طریقہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ افغانستان اب پہلے کی طرح کمزور نہیں ہے، جس طرح 1996 میں تھا جہاں پاکستان نے امریکہ کی مدد سے جو جنگ افغانستان میں لڑی تھی اس سے پورا سسٹم تباہ ہوا تھا۔ جس کے بعد نہ افغانستان میں مضبوط ادارے تھے اور نہ اچھی فوج تھی، لیکن اب وقت و حالات مختلف ہیں اب نا صرف افغانستان میں اچھے ادارے ہیں بلکہ 314000 کی ایک مضبوط فوج بھی ہے جس کی سپورٹ کیلئے 20000 سے زائد غیرملکی فوجیں بھی موجود ہیں۔

‎افغانستان میں طالبان ایک طاقت رکھتی ہے، اس سے کوئی انکاری نہیں ہو سکتا وہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں بڑے اور خطرناک حملہ کرنے کے قابل بھی ہیں لیکن وہ کسی بڑے صوبے کو کنٹرول یا قبضہ نہیں کر سکتے اور وہ ایک علاقہ میں زیادہ تیر تک ٹک نہیں سکتے، طالبان نے ایسی بہت سی کوششیں کی ہیں کہ بڑے صوبوں اور علاقوں پر حملہ کرتے ہوئے وہاں پر اپنا قبضہ جمائے جہاں سے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ افغانستان ہمارے قبضے میں ہے لیکن ابھی تک اُنہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور آج تک افغانستان کا ایک بھی بڑا علاقہ یا صوبہ مکمل طالبان کے کنٹرول میں نہیں ہے، ستمبر 2015 میں طالبان نے قندوز کے مختلف علاقوں پر کچھ وقتوں کیلئے کنٹرول حاصل کیا لیکن اُنہیں جلدی افغان و امریکی فوج سے شکست کا سامنا کرنا پڑا پچھلے سال اگست میں طالبان نے غزنی پر قبضے کی نیت سے مختلف حملے کئے لیکن یہاں بھی طالبان کو ہمیشہ کی طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا، آجتک افغانستان کے کسی بھی صوبائی دارالحکومت پر طالبان کا مکمل کنٹرول نہیں ہے اور جن 40 پرسنٹ علاقوں پر طالبان کا قبضہ کرنے کا دعویٰ ہے، یہ دور دراز و دیہاتی اور بہت کم آبادی والے علاقے ہیں، طالبان کی ناکامی کے بہت سے وجوہات ہیں اس لیئے اب وہ امن معاہدے کا حصہ بن رہے ہیں اور باقاعدہ سے جنگ بندی کی جانب جانے کیلئے تیار ہیں۔

‎افغانستان میں چار بڑے نسلی گروہ پشتون، تاجک، ازبک اور ہزارہ موجود ہیں طالبان سے جُڑے 80 فیصد پشتون ہیں جبکہ ازبک و تاجک کی بہت ہی کم سپورٹ حاصل ہے جبکہ ہزارہ کی جانب سے کوئی سپورٹ طالبان کو حاصل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہزارہ شیعہ مسلمان ہیں جبکہ طالبان ایک سنی مسلمان موؤمنٹ ہے، دلچسپ بات یہ ہے طالبان میں 80 فیصد پشتون ہونے کے باوجود طالبان کی انتہا پسندانہ جنگ سے سب سے زیادہ نقصان بھی پشتون قوم نے اٹھایا ہے۔ پشتونوں سے زیادہ طالبان کی نام نہاد جنگ سے کسی اور کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔ ہزاروں پشتون اس جنگ کے بھینٹ چڑھ چُکے ہیں جنگ زیادہ تر پشتون علاقوں میں ہوا ہے جس سے طالبان کی جانب سے پشتونوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے، یہاں کے اسکولوں کو تباہ کیا گیا ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں معصوم پشتونوں کو قتل کر دیا گیا ہے (پشتون تحفظ موومنٹ کا حالیہ کچھ ہی وقت میں پشتونوں میں اس طرح مقبول ہونا انہی جبر و ظلم اور ناانصافیوں کا ایک واضح مثال ہے) ایک طرف طالبان سے جُڑے لوگ زیادہ تر پشتون ہیں تو دوسری جانب افغان گورنمںٹ میں بھی اکثریت پشتونوں کی ہے، جبکہ بڑے عہدوں پر فائز پشتون ہیں افغانستان میں زیادہ تر قبائلی عمائدین اور دانشور طالبان کے بھرپور خلاف ہیں جو طالبان کی سب سے بڑی کمزوری اور ناکامی مانا جاتا ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں میں وہ غیر مقبول و مجرم مانے جاتے ہیں۔ طالبان کا انتہا پسندانہ نظریہ بھی طالبان کی ناکامی کا ایک بہت بڑا سبب ہے کیونکہ 2001 کے بعد کافی تعداد میں افغان تعلیم کی جانب گامزن رہے ہیں جبکہ تعلیم یافتہ طبقے کیلئے طالبان کا نظریہ اور طالبان کی کارکردگی دہشت گردی گردانتا جاتا ہے اور کوئی بھی تعلیم یافتہ شخص طالبان کا حامی نہیں ہو سکتا جبکہ دوسری جانب عورتوں کا کردار بھی اب افغانستان کی ترقی میں نمایاں ہے جو طالبان کے دور میں نہ ہونے کے برابر تھی۔

اب افغان پارلیمنٹ میں ایوان زیریں کے 248 سیٹوں میں 69 سیٹوں اور ایوان بالا میں 102 سے 27 سیٹوں پر عورتیں براجمان ہیں یہ ایک ترقی یافتہ افغانستان کی ایک بڑی نشانی ہے اس طرز حکومت سے افغان لوگ کافی مطئمن دیکھائی دیتے ہیں۔

‎17 سالہ جنگ میں طالبان کے ہزاروں جنگجو ہلاک ہوئے ہیں لیکن آج تک طالبان ایک بھی صوبے کے دارالحکومت پر مکمل قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پایا ہے، جو طالبان کی ناکامی اور افغان لوگوں کی کامیابی مانا جاتا ہے۔

‎طالبان(آپ آئی ایس آئی بھی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ طالبان کو گائیڈ کرنا اور ان کے باقی دیگر سارے حکمت عملیوں کا طے کرنے والا آئی ایس آئی رہا ہے) کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ ہماری جنگ نیٹو یعنی غیرملکی فوج سے ہے اور ہم افغانستان پر ان کے قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں، ہماری جنگ ایک آزاد افغانستان کیلئے لڑی جا رہی ہے لیکن جب 2014 میں تقریباً 100000 سے زیادہ غیرملکی فوج افغانستان سے چلے جاتے ہیں تو طالبان کا یہ جواز و دلیل بھی اپنے آپ کھوکھلا ہو جاتا ہے کہ ہماری جنگ غیرملکی فوج کو افغانستان سے باہر نکالنے کیلئے ہے جبکہ اگر ہم طالبان کے حملوں کا بغور جائزہ لیں تو زیادہ تر عام لوگ ہی ان حملوں کے زد میں رہے ہیں، اب پوری دنیا یہ جان چُکی ہے کہ طالبان کو کون اور کیون سپورٹ کر رہا ہے کیونکہ جو جواز و دلیل طالبان ہمیشہ سے پیش کرتا آ رہا تھا، وہ 2014 میں غیرملکی فوجیوں کی افغانستان سے واپسی کی صورت میں ختم ہو گئی تھی جبکہ اب ہر کوئی سمجھ چُکا ہے کہ طالبان بنا کسی وجہ کے کچھ مخصوص طاقتوں کیلئے لڑ رہے ہیں، جس کی وجہ سے افغان لوگوں کی نظر میں طالبان قاتل و وحشی ہیں۔ چونکہ پہلے جو طالبان بس آئی ایس آئی کے ہاتھ میں رہے ہیں اب ان پر مختلف طاقتوں کا اثر و رسوخ پایا جاتا ہے، جن میں روس ایران و چین شامل ہیں ان کا بھی اب طالبان پر اثر قائم ہو چُکا ہے۔

‎اگر ہم مزید طالبان کی افغانستان پر اثر و رسوخ پر بات کریں تو وہ علاقے جن میں ہلمند و قندہار سمیت جنوب و مغرب کے علاقے شامل ہیں ایک وقت طالبان کے قلع ہوا کرتے تھے، 2010 کے بعد یہاں طالبان کا اب کوئی بڑا اثر و رسوخ نہیں ہے، جو علاقے طالبان جنگجوؤں کی ظلم و ستم سے نقصان اٹھا چُکے ہیں، وہ نا صرف طالبان کو ناجائز سمجھتے ہیں بلکہ اپنے لوگوں کو طالبان جنگجوؤں کو کسی بھی طرح کا سپورٹ کرنے سے روکتے ہیں۔

‎ 1996 میں جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو اس کے بعد سارے میڈیا چینلز اور نیوز پیپرز کو بند کر دیا گیا تھا تاکہ لوگوں کو پتا نہ چلیں کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے لیکن جب 2001 میں طالبان۔ حکومت ختم کر دی گئی تھی تو اس کے بعد میڈیا نے کافی ترقی کی ہے اور اب افغانستان میں 83 پرائیوٹ ٹیلیویژن اسٹیشن 173 ریڈیو اسٹیشن اور سو سے زائد پرنٹ میڈیا کی اشاعت ہو رہی ہے اور میڈیا نے افغان لوگوں پر طالبان کی ظلم و جبر کا داستان اچھی طرح سے کوریج کیا ہے، جو نام نہاد جنگ امریکہ کے خلاف کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا اس میں سب سے زیادہ افغان لوگ شہید ہوئے جن میں بچے بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں ہزاروں کی تعداد میں بچے طالبان کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں جس کی وجہ سے عام عوام نے نام نہاد طالبان جنگجوؤں کو بائیکاٹ کیا۔

‎انہی ظلم و جبر اور عام عوام پر طاقت کے استعمال نے 2015 میں عام عوام کے دل میں طالبان کی نفرت کو ظاہر کیا جہاں ایک سروے کیا گیا تھا کہ کتنے لوگ طالبان کے حق میں ہیں یا طالبان کے نظرئے کو مانتے ہیں یا کتنے ایسے ہیں جو ان(طالبان) کے مخالف ہیں جن میں صرف چار فیصد لوگوں نے طالبان کے حق میں وؤٹ دیا جبکہ 92 فیصد افغان قوم نے طالبان کو ریجیکٹ کرتے ہوئے حکومت کے حق میں وؤٹ دیا۔ جہاں دنیا کے سامنے یہ آشکار ہوا کہ طالبان سے عام عوام محبت نہیں بلکہ نفرت کرتے ہیں جس کے بعد طالبان ایک ہاری ہوئی جنگ کچھ مخصوص طاقتوں کیلئے لڑ رہا ہے، جن کا نام اوپر میں نے مینشن کیا ہے اب چونکہ پاکستان امریکی دباؤ میں ہے اس لیے وہ امریکہ سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں ہے اور طالبان جو پہلے سے ہی آئی ایس آئی کے انڈر کام کرتے رہے ہیں ان کو امن معاہدہ میں شامل کرایا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔