سفر چلتا رہیگا – شہزاد بلوچ

318

سفر چلتا رہیگا

شہزاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ماضی اور حال سے جڑے چند واقعات کو جوڑ کر مستقبل سے منسلک چند خیالات کو ایک تحریر کی شکل دینا چاہتا ہوں، شائد تمام واقعات کو نہ گنوا سکوں اور یہ بھی ممکن ہے ہمارے سماج کو جن مظالم کا سامنا ہے انکی عکاسی ٹھیک طرح نہ ہو پائے کیونکہ ہم پر بیتے لمحات کو شائد لکھنے بیٹھوں تو اک عمر لگ جائے کیونکہ ہم سے جڑی ہر بات ہی دردناک و تلخ ہے، مگر اس سے نظریں پھیرنا اپنے آپ کو اس ترقی یافتہ دور میں دھوکہ دینا شائد اب مزید ممکن نہیں رہا۔ جذبات اچھے ہوں یا برے ان کو زیادہ دیر تک چھپائے رکھنا انسان کے بس میں نہ تو کل تھا اور نہ آج ہے۔

ہم ایک ایسے تیز رفتار دور سے گذر رہے ہیں کہ ایک طرف دنیا کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور دوسری جانب جب نظر اپنی سرزمین اور اس پر بسنے والے لوگوں پر پڑتی ہے تو ماسوائے حیرت، افسردگی اور چند لمبی سانسیں لینے کے کچھ اختیار میں نہیں ہوتا، بعض اوقات اپنے سوچ کے دائرے کو وسیع کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں کہ جن حالات کا سامنا ہمیں آج ہے کیا اس سے قبل ہم پر یا اور بھی کسی قوم کو یہ سب مصائب اور پریشانیوں کا سامنا رہا ہے؟

یقیناً ہم دنیا کی کوئی واحد قوم نہیں جن سے انکی سرزمین کو چھینا گیا ہو، ایسی سینکڑوں مثالیں جہاں میں موجود ہیں مگر میں اپنی تحریر میں روایاتی انداز میں دوسروں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ ہر قوم کے مسائل جُدا، قومیت جُدا اور جُدا جغرافیہ ہوتا ہے اور بعض اوقات ہم اپنی تحریروں میں یہاں وہاں کی مثالوں کا بیجا استعمال کرکے پڑھنے والوں کو مزید پریشانیوں میں مبتلا کردیتے ہیں، مگر خیر ایسا بھی نہیں کہ ہر انسان پر اسکا منفی اثر مرتب ہوتا ہو مگر فی زمانہ لوگوں کو سیدھی بات کرنے، سُننے اور سمجھنے کے مقابلے میں الجھنوں میں کودنے کا ایک عجیب شوق جنم لے چکا ہے جسکا میں ذاتی طور پر قائل نہیں۔

بات سیاست کی ہو، معیشت کی ، سماج کی ہو یا پھر مذہب کی جتنی سیدھی ہو اتنا سمجھنا لوگوں کے لئے آسان ہوتا ہے، اگر آپ کسی بلوچ مسلم کو عربی زبان میں قرآن لاکر دیں تو شائد اپنے استادوں کی نقل اتار کر پڑھ لیگا مگر اسکے مطلب سے تاحیات ناواقف ہی رہیگا، میرا مطلب یہاں مذہب کا پرچار کرنا ہرگز نہیں تھا جیسے کے میں نے پہلے کہا کہ بات سیدھی کی جائے اور میری سمجھ کے مطابق اس وقت اسی مثال کو پیش کرنا زیادہ مفید تھا۔

انسان کی نفسیات اسکو اکثر اپنی ذات تک الجھائے رکھنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے، سوچو تو اپنے لئے، کرو تو اپنے لئے، اگر دیکھنا بھی ہو تو چند لمحے آئینہ اٹھا کر اپنے آپ کی ہی سیر کرلو اور یہ رویہ انسان کو بہت جلد خود پرستی اور انا پرستی کی چوٹی پر سر کرلیتا ہے حالانکہ بظاہر اسے سب ٹھیک ہوتا اور چلتا دکھائی دیتا ہے درحقیقت وہ اپنے آپ سے بھی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے اسکو نہ تو معاشرے کی کسی برائی کی فکر ہوتی ہے، نہ اسکو کسی پر ہوتا ہوا ظُلم دکھائی دیتا ہے اور نہ وہ کسی کا وفادار ہوپاتا ہے۔ انسان وہی ہے کہ جو اپنے ذہن میں پیدا ہونے والی سوچ کو ایک آگاہی کا روپ دیکر اپنے ارد گرد کے لوگوں میں ایک موثر انداز سے پیش کرے۔ اس سوچ کا اثر لوگوں پر کس حد تک ہوتا ہے یا نہیں وہ آپکے سوچنے کی چیز نہیں یہاں میرا مطلب خود پرستی بلکل نہیں ہے مگر کم از کم آپکی فکر اور ایک روشن نظریہ اس طرح آپ تک محدود نہیں رہتا۔ کوئی انسان غلام نہیں ہوتا، کسی کو بزور شمشیر غلام بنایا جاتا ہے تو کوئی اپنے آپ کو خود غلام تسلیم کرکے اپنی غلامی کو ہی مستحکم کرنے کی بھاگ دوڑ میں لگا رہتا ہے اور یقیناً اسکے اثرات آہستہ آہستہ اس سے وابسطہ لوگوں پر بھی مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

اس بات کی مثال میں اسطرح دینا چاہونگا کہ ایک پارلیمانی لیڈر کبھی یہ نہیں چاہیگا کہ اسکے مقابلے میں کوئی آزادی پسند آکھڑا ہو کیونکہ آزادی کا فلسفہ روز اوّل سے ایک روشن چراغ کی طرح عیاں رہا ہے تو اسکی بھرپور کوشش ہوگی کے اسکے جدوجہد کے ہر طور و طریقے کی نفی کرکے اسے سماج میں غلط ثابت کر سکے۔ کیونکہ لفظ آزادی پر یقین رکھ کر ہی ہم اپنے آپ کو شخصیتوں اور ان سے منسلک تمام تر چیزوں سے خود کو الگ ثابت کرتے ہیں۔

ہماری سوچ فردی نہیں رہتی پھر وہ اجتماعی شکل اختیار کرلیتی ہے، اجتماعی سے مراد ہماری پوری قوم یعنی بلوچ۔ پارلیمنٹ ہمیں قابض کے ذریعے ہماری ہی زمین پر سڑک کے تحفے دیتی ہے اور آزادی اس دو فُٹ ڈامبر تلے اس پاک مٹی اور زمین پر اپنا اختیار چاہتی ہے، جسکے ہم ازل سے مالک رہے ہیں، وقتی طور پر جاری قبضہ اپنی جگہ مگر آنے والے دنوں پر اس پر اختیار پھر ہمارا ہی ہوگا اور میں سمجھتا ہوں، آج بھی تمام تر بندشوں کے باوجود ہمارےقوم کے دل آزادی کے سفر پر گامزن سرفروشوں کے لئے ہی دھڑکتے ہیں کیونکہ ہماری قوم اگر پاکستانی نام نہاد تعلیمی نظام سے دور رہی ہے تو کیا ہوا؟ لیکن بلوچ آج بھی اپنی تاریخ، جغرافیہ اہمیت، رسم و رواج، اپنی مادری زبان اور زمین کے ذرے ذرے سے اچھی طرح واقف ہے، وہ سمجھتی ہے کہ اس پر باہر سے آئے زورآور دشمن نے قبضہ کیا ہے اور وہ اپنی عقل، شعور اور پوری توانائی کو استعمال کرتے ہوئے خود کو اس غلامی کے چُنگل سے ہمیشہ کے لئے آزاد کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔

بلوچ کی فطرت میں ہی کبھی غلامی کو تسلیم کرنا نہیں تھا ہاں وقت و حالات کی نزاکت کو سمجھ کر اقدامات اٹھانا ہر زی شعور انسان کی ذمہ داری ہے۔

ہماری قوم کی ہمت اور بلند حوصلے کے سبب آج پاکستان جیسی بدمعاش اور طاقت ور ریاست کو بلوچ نے سوچ کے اس گہرے دلدل میں دھکیل دیا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگیا ہے اور آج وہ جس بے دردی سے بلوچ قوم کی نسل کشی پر اتر آیا ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ بلوچستان کہ بعد اسکو اپنا تاریک مستقبل صاف نظر آرہا ہے تو ایسے حالات میں ہم بلوچوں کو اپنے عزم کو مذید پختہ، بُردباری اور دوراندیشی سے اپنا آنے والا ہر قدم اٹھانا ہوگا۔ آج ہم دیکھتے ہیں بلوچستان سے ہزاروں نہتے بوڑھے، جوان، عورتوں اور بچوں کو اپنی پوری توانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست اٹھا کر انہیں غائب کررہی ہے یا پھر انکو طرح طرح کی اذیتیں پہنچا کر انکی لاشوں کو ویرانوں میں حیوانوں کے حوالے کررہی ہے مگر کیا اس سے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو پایا ہے؟ ہرگز نہیں اور نہ ہی کبھی ہوپائیگا، پہلے ایک شخص لاپتہ ہوتا تو ایک خوف کی فزا جنم لیتی تھی مگر ابھی پوری فزا کو ہی ریاست نے خود آلودہ کر چھوڑا ہے، آج لوگ لاپتہ ہونے سے نہیں ڈرتے کیونکہ آج بلوچستان میں کوئی ایسا گھر نہیں جسکا کوئی فرد لاپتہ نہ ہوا ہو یا پھر اسکا کوئی رشتہ دار یا تعلق دار کو شھید نہ کیا گیا ہو۔

بلوچ قوم نے روز اوّل سے شہادتوں کو اپنے سر کا تاج سمجھ کر اسے اپنایا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی جان سے زیادہ اس کے لئے کوئی چیز اہم نہیں مگر ایسے جینے کا کوئی فائدہ بھی نہیں کہ ان چلنے والی سانسوں تک پہ اپنا اختیار نہ رہا ہو۔ قابض نے بلوچوں کو اغوا کرکے آزما لیا، مسخ شدہ لاشیں گرانے کا شوق پورا کرلیا، معصوم لوگوں پر بمباری بھی کرلی، لوگوں کو انکے آبائی علاقوں سے نقل مکانی پر بھی مجبور کرلیا، اپنے زر خرید غنڈوں کے ہاتھوں ہر قسم کا نقصان بھی پہنچایا لیکن اس سے کیا بلوچ ختم ہوگئے؟ کیا بلوچ قومی تحریک جسکو شھیدوں نے اپنے مقدس خون سے پاک کرکے اپنی قوم کے حوالے کر رکھا ہے کیا وہ ختم ہوچکی؟ بالکل نہیں ہمارا یہ ایمان ہے کہ جب تک ایک بلوچ بھی زندہ ہے، وہ اسی طرح دشمن کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہیگا، اس ظُلم کے خلاف ایک نڈر باغی کی صورت کھڑا رہیگا۔ ایسا کوئی ظُلم یا جبر دنیا میں وجود نہیں رکھتا جس سے ہماری قوم نہ واقف ہو، اس سے زیادہ ظُلم اور کیا ہو سکتا ہے؟ مگر آج ہم نے اس غلامی کو تسلیم کرلیا تو ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم آنے والے دنوں میں اپنا وجود کھو بیٹھیں۔ آپسی رنجشوں کو ختم کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے یہ نہ ہو کہ ہم پھر سے ایک نئے محاز کی طرف اپنا رخ کرلیں۔ جس طرح ہمارے بہادر رہبروں نے، شھیدوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ اختلافات کا گلا گھوٹ کر جس خوبصورتی کے ساتھ آپسی اتحاد کو جنم دیا اب اسکی پرورش کرنا ہم سب کی زمہ داری بنتی ہے اگر اس فلسفے سے ہم نے ایک قدم بھی ہٹ کر سوچا تو یاد رکھیں ہم شائد زندہ تو رہیں مگر زندہ قوموں میں ہمارا کبھی بھی شمار نہ ہو اور نہ ہی آنے والی نسلیں ہم پر اس طرح فخر کرپائیں، جس طرح آج کے دور میں ہم تاریخی واقعات کا حوالہ دیکر اپنا سینہ چوڑا کرکے دنیا کے سامنے اپنی بات کو رکھتے یا پھر بیان کرتے ہیں۔

آج ہم دنیا کی قیمتی سرزمین کے مالک ہونے کے باوجود ہمارے وجود کو اس طرح خطرات لاحق ہیں کہ کہیں ہمیں پینے کا پانی میسر نہیں تو کہیں لگی ہوئی آگ کو بجھانے کا انتظام موجود نہیں، کہیں تاریکیوں میں ڈوبے وسیع گاؤں کا نظارہ کرنا پڑتا ہے تو کہیں نام نہاد شہروں میں روشنیوں میں بھی ہم گُم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کہیں ہماری قابل احترام بہن سیما سڑک پر آنسو بہاتی دیکھی جاتی ہے تو کہیں ہماری بہن نور ملک زندانوں میں چیختی ہوئی پائی جاتی ہے۔ یہ سب اسی قومی غلامی کے ثمرات ہیں جو مختلف شکل میں ہمیں گھیرے ہوئے ہے مگر ہمیں اس گُھٹن کے ماحول سے خود کو نکالنے کے لئے اپنے ہمسایہ اقوام کے ساتھ ملکر اس جدوجہد کو مذید دوام بخشنا ہوگا۔ وہ پختون ہوں، سندھی ہوں، مہاجر یا پھر کوئی دوسرا یا تیسرا ہو۔ ہمیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے تمام لوگوں کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تمام قوموں کا اس قبضہ گیر ریاست سے چھٹکارا قومی آزادی پر ہی انحصار کرتا ہے۔ آئیے یہ عہد کرتے ہیں کہ اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدوں کو گرا کر اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر خود کو متحد کرکے اور دوسری مظلوم اقوام سے ایک اتحاد کی صورت اپنا کر اس فرسودہ ریاست سے خود کو بلکہ پوری دنیا کو ہمیشہ کے لئے آزاد کراوائیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔