استاد اسلم یا جنرل اسلم؟ – برزکوہی

471

استاد اسلم یا جنرل اسلم؟

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ویسے تو آجکل لفظ استاد ایک عموعی لفظ بن چکا ہے، مگر باریک بینی اور گہرائی سے لفظ استاد کو جھنجھوڑ کر دیکھا جائے اور سمجھا جائے تو استاد لفظ کا حقیقی معنی و تشریح اور معیار ایک عام لفظ نہیں بلکہ ایک عظیم اور مقدس لفظ ہے۔ ایک استاد خود میں کئی لیڈر، سکالر، مفکر، دانشور، فلاسفر، کمانڈر، انقلابی انسان اور جنرل جنم دیتا ہے بشرطیکہ استاد خود میں ایک حقیقی استاد ہو، صرف نام کی حد تک اور لوگوں کی آراء کی حد تک نہیں ہو بلکہ مکمل معیار و مقام کی حد تک ہو۔ جس طرح سورج کی روشنی سے انکار نہیں ہوسکتا، اسی طرح اسلم بلوچ کے استاد ہونے سے بھی انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ ایک استاد تھا، لیڈر تھا، سیاسی مفکر تھا، سب سے بڑھ کر ایک دانشور تھا بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں وہ ایک ہمہ جہت شخصیت اور کردار کا مالک تھا۔

ان سب کے باوجود میں اسلم بلوچ پر ضرور ایک تنقید کرتا ہوں، یہ تنقید میں اس کی زندگی میں کرتا تھا، آج اس کے جانے کے بعد بھی کرتا ہوں اور آئندہ بھی جرت کا مظاہرہ کرکے کرتا رہوں گا۔

ضرور نا صرف میں خود بلکہ آپ بھی سوچیں گے کہ میری اوقات اور حثیت کیا ہے کہ میں آکر اسلم جیسے انسان پر تنقید کروں؟ میرا جواب صرف یہ ہے کہ اسلم کی تعلیمات، تربیت اور تجربات کے ساتھ میرے اپنا تجربہ میرے ساتھ ہیں تو میرے تعلیمات، تجربات اور تربیت اسلم کی وجہ سے دگنا ہوگئے، اس لیئے میں تنقید کا جرت کرسکتا ہوں۔

میرا تنقید اسلم پر ہمیشہ یہ تھا کہ اسلم آپ حد سے زیادہ بہادر ہو یعنی بہادری کی انتہاء پرہو، آپ اپنی بہادری کی وجہ سے شاید ہم سے جلد جسمانی حوالے جدا ہوجاؤگے، آپ کو ابھی جدا نہیں ہونا ہے۔ آپ کی ضرورت ہے قوم کو، نوجوانوں کو، تحریک اور دیگر مظلوم و محکوم قوموں کو۔ آپ نے بلوچ قوم، سندھی قوم، پشتون قوم اور خاص کر جہدکاروں سمیت معصوم بچوں کو جس طرح اور جس حد تک ایک مہربان اور شفیق باپ اور بھائی کی طرح مہر و محبت اور رہنمائی بشخا ہے، وہ آپکے یوں چلے جانے سے یتیم سا محسوس کریں گے۔ گوکہ آپ کا فکر و عمل، کردار، سوچ اور تعلیمات تا قیامت زندہ ہونگے جو قوم اور تحریک کے لیئے مشعل راہ ہے لیکن پھر بھی آپ کی ضرورت غلامی سے لیکر آزادی تک ہوگی۔

باوجود اسکے آپ اسلم کو لاپرواہ نہیں کہہ سکتے، اسلم کی بہادری، نڈرپن، خواری و تکالیف سے نا ڈرنا، ہمیشہ روایتی حدوں کوتوڑ کر نئی روایتیں بنانا ہی اسلم کو اسلم بناتے تھے، اسے ممتاز کرتے تھے۔ انہوں نے تحریک میں روزِ اول سے لیکر اپنی شہادت تک دبک کر بیٹھنے اور دشمن سے “دوستانہ جنگ” کے فلسفے کو رد کردیا، پہاڑوں میں دشمن پر دور سے چار گولیاں چلانے کا قائل نہیں تھا، اس لیئے دشمن کے مورچوں میں گھس کر مارنے کی روایات قائم کی اور سب سے آگے وہ خود ہوتا، اس پر تنقید ہوتی لیکن وہی وہ شخص تھا جو پھر خود کو ثابت کرکے دشمن کا اسلحہ اور جنگی قیدیاں اٹھا کر لے آتا۔

اسلم نے جنگ کے نبض پر ہاتھ رکھ کر اسکی طبیعت، تقاضات اور رفتار کو پہچان لیا تھا اور اسی رفتار سے جانا چاہتا تھا، اسی لیئے وہ ان حدوں کو جاتا جنہیں شجر ممنوعہ سمجھا گیا تھا۔ پہاڑوں میں جنگی نقشہ بدلنے سے لیکر فدائی حملوں تک “آرام پسند ذہنیتیں” اسکے ہر ایک عمل کو لاپرواہی، ذاتی غرض، لا ابالی اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ کرنشانہ تنقید بناتے رہے لیکن وہ رکا نہیں اور ثابت کردیا کہ جنگ کا اصل راہ یہی ہے جس پر وہ گامزن ہے۔ اس، بہادر، جرت و استقلال نے اسلم بلوچ کی تخلیق کی اور اسی جرت سے ہی وہ چلے گئے۔

ہم اسکے کمی کے احساس سے شاید کہہ سکتے ہیں کہ خوف بہتر ہوتا ہے کیونکہ آپ کو اپنے حفاظت پر مجبور کرتا ہے اور اس خوف کے آثار اسلم میں ہونے چاہیئے تھے تاکہ وہ آج بھی محفوظ ہمارے ساتھ ہوتا لیکن اگر اسلم ایک خوفزدہ انسان ہوتا وہ کبھی جنرل اسلم بلوچ نہیں بنتا۔

بس ایک تلخ حقیقت ہے کہ کاش انسان کی زندگی میں اس کا اتنا قدر ہوتا، جس طرح جسمانی موت کے بعد ہوتا ہے، تو اس وقت سارے انسان ترقی کے لحاظ سے آزادی اپنی جاگہ سب چاند پر پہنچ جاتے، مگر کیا کریں انسان کو خدا نے یا انسان کو دنیا یا ہماری سماج اور ماحول نے مردہ پرست پیدا کیا ہے اور ہمیشہ ماتم، افسوس، کاش اور رونا دھونا ہمارے حصے میں آیا ہے۔ علم ادراک اور مردم شناسی سے ہم نابلد ہیں، اگر نہیں ہوتے تو زندگی میں اسلم کی وہ قدر و اہمیت ہوتا جو باقی ترقی یافتہ باشعور قوموں میں ہوتا ہے۔

واقعی اسلم آپ کی بہادری، جنگی مہارت، حکمت عملی اور لڑنے کی تاریخ اور سبق نے دشمن کو بھی یہ سکھایا کہ اسلم دوبدو لڑائی، جیٹ طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور کرائے کی فوجیوں کے ذریعے مارا نہیں جاسکتا ہے، پھر کس طرح آخری حدتک آئی ایس آئی جاکر پاکستانی کی دہشتگرد فیکٹری سے خودکش تیار کرکے آپ پر روانہ کردیتا ہے کیونکہ ان کو پورا اس بات کا یقین تھا اسلم کو مارنا اتنا آسان نہیں، وہ پہلے بھی اپنی طاقت استعمال کرچکے تھے، لیکن ناکامی در ناکامی کے بعد دشمن نے یہ فیصلہ کیا۔

حالانکہ خود کش حملہ وہ کرتے ہیں، جو کمزور ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے، ایک طاقت اور قوت کے سامنے یہ مظلوموں اور محکوموں کا ایک ہتھیار ہوتا ہے، اسی طرح پاکستان اور چین اسلم کے سامنے بے بس اور مجبور ہوگئے۔

اس لیئے ہم کہتے اور سمجھتے ہیں کہ ریاست کے فوج اور جنرلوں سے طاقت، صلاحیت، حکمت اور بہادری کے لحاظ سے اسلم ایک عظیم جنرل تھا اور تاابد ایک جنرل رہیگا، اور اس بنیاد اور منطق کے لحاظ سے اسلم کی جنگی اور فوجی ہنر اور صلاحیتوں کے بنیاد پر اسلم کو فوجی اعزاز جنرل کے لقب سے نوازنا ایک بہترین فیصلہ ہے، اور بحثیت ایک استاد آپکی تمام تر روشنی بلوچستان کے گوشے گوشے میں آج بھی ہے اور کل بھی رہیگا۔

اسلم حقیقی معنوں میں ایک جنرل تھے، وہ جنگی تقاضات سمجھتے تھے، اسے اپنے جغرافیہ و سماج پر مکمل عبور تھا، انہیں معلوم تھا کہ اپنے دستوں کو کب آگے بڑھانا ہے اور کب روکنا، وہ جنگی و حالات کے ضروریات کو سمجھتے تھے کہ کب دشمن پر وار ضروری ہے، اس لیئے جب وقت آیا تو اپنے بیٹے کو بھی صحیح وقت پر قربان کردیا۔ ایک کمانڈر اور جنرل میں فرق ہی یہی ہوتا ہے کہ کمانڈر ایک دستے یا ایک کیمپ کے جنگی تقاضوں و حالات پر عبور رکھتا ہے اور ایک جنرل پورے جنگ پر وہی نظر رکھتا ہے، بلوچ جنگی تاریخ نے جنگی کمانڈر بہت پیدا کیئے لیکن شاید پہلا مکمل جنرل اسلم کو ہی پیدا کیا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔