چینی قونصل خانہ پر گیم چینجنگ حملہ – برزکوہی

350

چینی قونصل خانہ پر گیم چینجنگ حملہ

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

بی ایل اے کے سربراہ اسلم بلوچ نے کچھ مہینے پہلے اپنے ایک وڈیو پیغام میں واضح طور پر کہا تھا کہ چین پاکستان کی گٹھ جوڑ سے بلوچستان میں سرمایہ کاری خاص طور پر گوادر میگاپروجیکٹس، سی پیک اور سیندک منصوبہ بندی سمیت دیگر منصوبوں میں کام کرنا ترک کردیں، ورنہ ان کے خلاف بلوچ سرمچار شدت کے ساتھ حملے کرتے رہینگے۔ اس کے بعد 11 اگست کو سیندک پروجیکٹ کے انجنیئروں پر بی ایل اے مجید برگیڈ کے جانثار فدائی استاد اسلم کے بڑے فرزند ریحان بلوچ کا فدائی حملہ اور اب گذشتہ دنوں بی ایل اے مجید برگیڈ کے تین جانثار ساتھیوں رازق بلوچ جسکا تعلق خاران، رئیس بلوچ جس کا تعلق پنجگور سے اور ازل خان مری جسکاتعلق بولان سے تھا، ان تینوں جانبازوں نے گذشتہ دنوں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کردیا۔ ایک ہی کامیاب حملے میں بی ایل اے نے کئی سوالات کے جوابات کو بلوچ قوم اور دنیا کے سامنے پیش کرکے بلوچ قوم اور پوری دنیا کو سوچنے و سمجھنے پرمجبور کردیا۔

سب سے اہم بات جو سب سے ذیادہ متاثرکن ہے کہ بی ایل اے کے تینوں سرباز کسی لیڈر و کمانڈر سے نہ ان کا خاندانی، ذاتی، قبائلی و علاقائی رشتہ ہے، نہ ہی وہ علم و شعور سے نابلد اور سادہ لوح بلوچ تھے بلکہ ایک خاران سے، ایک مکران سے تیسرا بولان سے تھا اور تینوں کا عظیم کارنامہ اور کارکردگی اور خاص کر آخری وڈیو پیغاموں سے صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ آور جانثار انتہائی باشعور، سیاسی بالغ اور سوچ و اپروچ کے حوالے سے پختہ لگ رہے تھے، جس انداز میں انہوں نے اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور جس انداز میں وہ اپنے قومی مقصد و ہدف اور سیاسی پروگرام کو مدلل انداز میں بلوچ قوم اور پوری دنیا کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہوئے، یہ انتہائی قابل ستائش اور اطمینان بخش ہے۔

مختلف اور بلوچستان کے دور دراذ علاقوں سے تعلق رکھنے والے سربازوں کی پہچان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج باشعور اور پختہ انقلابی نوجوان کس حد تک اپنے تنظیم اور مخلص قیادت کی مخلصی و ایمانداری پر سوفیصد اعتماد کرکے اپنی قیمتی جانوں کا بخوشی اور رضانہ کارانہ طور پر نذرانہ پیش کررہے ہیں اور انھیں مکمل یقین ہے کہ ہماری موجودہ قیادت کسی بھی صورت میں قومی مقصد اور قومی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کریگی بلکہ ہمارے خون کی لاج رکھ کر جہدوجہد کو آگے بڑھا کر منزل مقصود تک پہنچا دینگے۔ یہ اظہار خیال اور اس کی تصدیق عملاً تینوں فدائین اپنے عمل اور کردار سے واضح کرچکے ہیں۔

نہ جنت کی لالچ، نا دنیا کا لالچ پھر بھی رضاکارانہ طور بخوشی اپنی قیمتی جانوں کو قوم اور وطن پر قربان کرنا علم و شعور اور قومی فکر کی پختگی نہیں اور کیا ہوسکتا ہے؟

سب سے پہلے بلوچ قومی تحریک کا اس وقت سب سے بڑا حملہ اور کامیابی سے بلوچ قوم میں غیر معمولی حدتک انتہائی مثبت اثرات مرتب ہونگے، جو مستقبل میں قومی تحریک برائے قومی آزادی کی جنگ میں توانا ثابت ہونگے۔

دوسری طرف عالمی سطح پر عالمی قوتوں کی بلوچستان، خاص طور پر گوادر اور سی پیک کے حوالے سے جو رسی کشی اور گیم چل رہا ہے، اس حملے کے بعد اس پر ازسر نو تبدیلی رونما ہونے کی ممکنہ توقع ہوسکتا ہے۔ اب حالات آگے چل کر کونسا رخ اختیار کرینگے فی الحال کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔

مگر ایک بات یاد رکھنا چاہیئے، وحشی ریاست پاکستان اس حملے کے بعد مکمل حواس باختہ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ نفسیاتی حوالے سے کوئی بھی انسان ہو یا پھر کوئی بھی قوت ہو تو وہ ضرور آخری حدتک جاسکتا ہے، گوکہ اس کے فیصلے اور اقدام ہمیشہ اس کے خلاف جاتے ہیں، مگر وہ ضرور جائیگا کیونکہ یہ حواس باختگی اور بوکھلاہٹ کی نفسیات کا فطرت ہوتا ہے۔

اب پاکستان اور چین کے کٹر مخالف قوتوں کا کردار و عمل کیا ہوگا، یہ آنے والے وقت بتا دے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گی اور بیٹھنے کا موقع بھی یہی ہے اسی لیئے میں کہتا ہوں، یہ حملہ گیم چینجر حملہ ہے جو کہ بلوچ نوجوانوں نے تاریخی فیصلہ کرکے پورا گیم تبدیل کردیا۔

اب بلوچ قوم کے حقیقی قیادت پر یہ بات منحصر ہے، وہ بلوچ نوجوانوں کے تاریخی فیصلے اور تاریخی قربانی کو کس طرح بلوچ قومی بقاء اور قومی تحریک کی کامیابی کے لیے سود مند اور مددگار ثابت کرینگے؟

بلوچ قوم میں قومی تحریک کے حوالے سے اعتمادmobاور مثبت اثرات کو قومی شعور و فکر کی رخ میں موڑنے کے ساتھ بلوچ عوام کی حمایت کو قومی تحریک میں شمولیت خاص کر خارجی سطح پر پاکستان اور چین مخالف قوتوں کے ساتھ بہتر اور موثر رابطہ اور تعلقات مضبوطی کے ساتھ استوار کرنا بلوچ قوم کی خوشحال مستقبل اور قومی بقاء کا ضامن ہوسکتا ہے۔

آج قونصل خانہ حملے کے بعد پاکستانی مقتدرہ قوتیں خفیہ ادارے اپنے پے رول پر کام کرنے والے تخواہ خور ایجنٹوں، اینکروں، صحافیوں اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے مسلسل انتہائی تیزی کے ساتھ بلوچ قومی تحریک اور بی ایل اے کے سربراہ اسلم بلوچ کے خلاف مسلسل من گھڑت پروپگنڈے اور جھوٹ کا سہارہ لیکر غلط بیانی اس لیئے شروع کرچکے ہیں کہ ایک تو بلوچوں کے ہمدرد ملکوں پر دباو ڈالا جائے، دوسرا بلوچ قوم میں قومی تحریک کی نئے ابھار اور جذبے کو زائل کرنا اہم مقصد ہے۔

بلوچ جہدکار اپنے قومی جنگ کو آگے بڑھانے کے ساتھ دشمن کے منفی پروپگنڈوں کے خلاف صحیح معنوں میں حکمت عملی اور پالیسی مرتب کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ ایسے منفی پروپگنڈوں سے بلوچ قوم میں ایک حد تک منفی اثرات ضرور مرتب ہونگے گوکہ ان کے اثرات دیرپا نہیں بلکہ وقتی ہونگے، پھر بھی قومی نقصان ہوگا۔

تمام حقیقی آزادی پسند قیادت اور جہدکاروں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچ سربازوں کی تاریخی قربانی اور فیصلے کی قدر و احترام اور احساس کو لیکر خارجی سطح پر بلوچ ہمدرد قوتوں سے بہتر تعلق اور رابطہ کے ساتھ دشمن کے منفی پروپگنڈوں کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی کے ساتھ ایک مہم شروع کریں جو حقیقت اور مدلل انداذ میں ہو۔

قومی جنگ کی شدت اور حکمت کے ساتھ ساتھ مکالمہ باذی اور مدلل انداز میں اپنا قومی پروگرام اور قومی موقف کو ہر سطح پر صحیح اور واضح انداذ میں پیش کرنا، وقت کی اہم ضرورت ہے، خاص طور پر آپسی مخالفانہ، غیر سیاسی رویوں اور سوچوں سے اجتناب کرنا، سرباز بلوچوں کی خون اور روح سے مکمل انصاف ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔