طالب علموں کا عالمی دن، بلوچ طلباء کو ریاستی جبر کا سامنا ہے – بی ایس او آزاد

136

ریاست نے بلوچ طلبا ء کو اپنے حقوق کے جدوجہد سے دستبردار کرانے کے لیے اغواہ نما گرفتاریوں کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے زوروں سے جاری ہے، انہیں ٹارچر سیلوں میں بند کرکے انسانیت سوز اذیتیں دے کر بعد میں ان کی لاشیں پھینک دی جاتی ہے اور کئی بلوچ طالب علموں کو ٹارگٹ کلنگ میں مارا جا چکا ہے – بی ایس او آزاد

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ہر سال 17 نومبر کو دنیا بھر میں طالب علموں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں جب نازی فوج نے چیکو سلواکیہ پر حملہ کیا اور آمریت کا نفاذ کردیا تو وہاں کی طلباء تنظیموں نے اپنی آزادی اور جمہوریت کیلئے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف احتجاج کیے۔ جس پر فوج نے حملہ کرکے متعدد طلباء کو گرفتار کرکے 9 طلباء کو پھانسی دے دی ۔ ہر سال 17 نومبر ان طلباء کے یاد میں منائی جاتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بی ایس او آزاد ایک طلباء تنظیم کی حیثیت سے شروع دن سے بلوچ طلباء اور قومی حقوق کیلئے جدوجہد کرتی چلی آ رہی ہے جس کے سبب بی ایس او آزاد کو ریاست کی جانب سے سخت حالات کا سامنا ہے۔ ریاست نے بلوچ طلبا ء کو اپنے حقوق کے جدوجہد سے دستبردار کرانے کے لیے اغواہ نما گرفتاریوں کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے زوروں سے جاری ہے، انہیں ٹارچر سیلوں میں بند کرکے انسانیت سوز اذیتیں دے کر بعد میں ان کی لاشیں پھینک دی جاتی ہے اور کئی بلوچ طالب علموں کو ٹارگٹ کلنگ میں مارا جا چکا ہے۔ جس میں ہماری تنظیم کے مرکزی سیکرٹری جنرل رضا جہانگیر بھی شامل ہیں اور کئی طالب علم رہنماء کو جس میں تنظیم کے وائس چیئرمین زاکر مجید سے لے کر سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ تک کئی سالوں سے ریاستی خفیہ زندانوں میں قید ہیں۔اور دوسری جانب جو بلوچ طالب علم تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کو ریاست کی جانب سے زہنی تشدد کا سامنا ہے کیونکہ بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے فوجی چھاونیوں میں تبدیل کیے گئے ہیں اور وہاں ہاسٹلوں میں ہائے روز چیکنگ کے نام پر سیکیورٹی اداروں کی طرف سے چھاپے لگا کر طلباء کو زہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں ریاستی اداروں کی جانب سے ایک منصوبے کے تحت تعلیمی اداروں میں خوف کا ماحول پیدا کرکے بلوچ طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھنے اور ان کیلئے تعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ تعلیمی اداروں میں تنظیم کے ممبران کی گھیرا تنگ کرکے انہیں تعلیمی اداروں کو چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے لیکن ہم نے ان سخت حالات میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھا ہوا ہے۔

ترجمان نے آخر میں بلوچ نوجوانوں اور طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان قوم کے معمار اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔کسی بھی قوم، معاشرے میں نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بحیثیت بلوچ طالب علم آپ لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے قوم کے اندر آگاہی، شعور اور علم بانٹتے رہے اور بلوچ قوم کو غلامی کا احساس دلائیں تاکہ وہ اس ظلم وجبر اور قومی غلامی کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں۔