میں کچھ نہیں جانتا – برزکوہی

872

“میں کچھ نہیں جانتا”

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

علم حتمی نہیں ہوتا، علم کی کوئی سرحد ہی نہیں ہوتی ہے، علم سمندر ہے، علم گہرا اور وسیع و عریض سمندر ہے، میرے ذاتی تجربے اور مشاہدے کے مطابق انسان جب بے علم اور نابلد ہوتا ہے اور جب تک علم کی ابتدائی سیڑھیوں پر قدم نہیں رکھتا، اس وقت تک وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں سب کچھ سمجھتا ہوں، جب وہ پہلا قدم علم کی پہلی سیڑھی پر رکھتا ہے اور علم کی الف اور ب سے ہی واقف ہوجاتا ہے، تو وہ دل و جان سے یہ قبول کرتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا ہوں اور ابھی تک بہت کچھ جاننا اور سمجھنا باقی ہے۔ یہ لگن، یہ دلچسپی، یہ بے علمی کا احساس اور یہ ناجاننے کی علم، انسان کو جاننے کی طرف راغب کردیتی ہے۔ علم کے پیغبر سقراط کو یہ علم ہی علم کی جستجو اور علم حاصل کرنے کی لگن نے دنیا کی عظیم فلسفی اور عالم بنا دیا آپ نے صرف یہ جانا کہ میں کچھ نہیں جانتا ہوں۔

عظیم فلسفی سقراط کی ذکر سے سقراط سے وابسطہ ایک واقعہ پیش خدمت کرونگا۔ “ایک دفعہ ایک آدمی سقراط کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ مجھے کامیابی کا راز بتائیں۔ سقراط نے اس کو کہا کہ میرے ساتھ ندی کنارے چلو۔ دونوں جب ندی کے پاس پہنچے تو سقراط نے اسے بولا کہ میرے ساتھ اس ندی میں اتر جاؤ۔ وہ شخص تھوڑا ہچکچایا لیکن اس کے ساتھ ندی کے اندر چلتا گیا۔ جب وہ اتنا آگے بڑھ گئے کہ ندی کا پانی ان کی گردن تک پہنچنے لگا تو سقراط نے اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ وہ آدمی جیسے ہی رکا سقراط نے اسے جکڑ لیا اور پوری طاقت کے ساتھ اس کو پانی میں غوطا دیا۔ وہ آدمی خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔سقراط ایک بہت قوی انسان تھا اس نے تھوڑا سا زور اور لگایا اور وہ آدمی پانی میں ڈوبا رہا۔ جب تھوڑا وقت گزر گیا اور وہ آدمی نیلا پڑنے لگا تو سقراط نے اسے کھینچ کر پانی سے باہر نکال لیا۔ اس نے باہر نکلتے ہی بہت لمبی اور گہری سانس لی اور خود کو سنبھالنے لگا۔جب وہ قدرے سنبھل گیا تو سقراط نے اس سے پوچھا کہ جب تم پانی کے اندر تھے تو تمہیں سب سے زیادہ شدت سے کیا چیز چاہیئے تھی؟ وہ شخص بولا کہ ہوا۔ مجھے ہوا چاہیئے تھی۔ سقراط نے اسے بولا کہ تمہیں اتنی شدت سے ہوا درکار تھی تو تمہیں وہ مل گئی۔ کامیابی کا راز صرف یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو شدت سے چاہو۔ جب تمہیں کامیابی اتنی شدت سے درکار ہوگی، جتنی تمہیں ہوا چاہیے تھی تو کامیابی تمہارا مقدر بن جائے گی۔ انسان جب کسی بھی چیز کو اتنی لگن اور سچے دل سے مانگے کہ اس کے لیئے اسے آگ لگی ہوئی ہو تو وہ اپنا ہدف پا لیتا ہے۔”

جہالت کی گہرائی میں ڈوب کر یہ سمجھنا کہ میں جہالت میں ہوں، تو انسان کو انتہائی شدت سے علم درکار ہوتی ہے اور یہ شدت اور احساس انسان میں علم کی جستجو اور لگن پیدا کرتا ہے اگر انسان کے ذہن میں جب تک یہ بات اور تصور موجود ہو انتہائی محدود سطح تک کیوں نہ ہو کہ میں جانتا ہوں تو پھر اس میں جاننے و سمجھنے اور سیکھنے کی ساتھ علم حاصل کرنے کا احساس اور لگن مفلوج ہوگا اور انسان کے پاس بے وقوف اور احمق ہونے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔

بے وقوف انسانوں کے حوالے سے مولاناجلال الدین رومی صاحب کی اس مستند اور قابل آزمودہ رائے کا حوالہ دینا انتہائی لازم ہے مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ “کسی قوم یا معاشرے میں ایک ہی دن میں ایک ہزار عالم دانشور اور فلاسفر قتل ہوں، اس قوم اور معاشرے کو اتنا نقصان نہیں ہوگا لیکن جتنا ایک بے وقوف اور جاہل انسان کو صاحب اختیار بنانا سے نقصان ہوگا۔”

غلامانہ سماج کی کوکھ سے انقلابی تحریکیں جنم لیتے ہیں اور انقلابی تحریکیں ہی اپنی کوکھ سے مزید انقلابی جہدکار پیدا کرتے ہیں اور انقلابی جہدکاروں سے ہی انقلابی لیڈر تخلیق ہوتے ہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس وقت بلوچ غلامانہ سماج کی خود علمی، سیاسی خدوخال، شعور و علم کی سطح اور پیمانہ کیا ہے؟ اور کس مقام پر کھڑا ہے؟ کیسا تحریک؟ کس سوچ و مزاج اور رویوں کی بنیاد پر تحریک کا جنم ہوا؟ اس وقت بلوچ غلامانہ سماج میں سوچ مزاج اور رویے کس حد تک کس شکل میں دستیاب تھے، جب تحریک آذادی نے جنم پایا؟ بلوچ سماج پر اثرات کیا تھے، سیاسی، سائینسی، علمی، انقلابی یا روایتی فرسودہ قبائلی یا نیم قبائلی؟

اگر قومی تحریک کی بنیاد یا ابتداء روایتی سیاست، فرسودہ و اپاہچ قبائلی اور نیم قبائلی ماحول کے گول دائرے میں ہوتے ہوئے پیدا ہوا ہے، تو پھر کیا وہ اثرات آج تک قومی تحریک میں موجود اور حاوی نہیں ہیں؟ اگر جواب یہ ملتا ہے کہ نہیں ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیسے اور کس طرح ختم ہوگئے؟ کیسے تبدیل ہوگئے؟ تبدیلی اور ختم ہونے کا راز کیا ہے؟ کیا علم اور علم پر عمل کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی ایسی شے اور راذ موجود ہے جو کسی بھی سماجی تبدیلی کے باعث بن جائے؟ اگر نہیں ہے تو بلوچ قومی تحریک میں علم و شعور کی سطح اور رجحانات کیا ہیں؟ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تحریک خود لیڈر پیدا کرتا ہے ۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک ایسا ہی لیڈر پیدا کرتا ہے، جیسا تحریک کی خود کا خدوخال اور معیار ہے؟

باشعور، باعلم اور سائینسی تحریک ہی باصلاحیت، ہنرمند، دوراندیش، سیاسی بصریت سے لیس کرشماتی لیڈر پیدا کرتا ہے۔

رچرڈ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’جب سیاسی لیڈر بننے کی تمنا رکھنے والے نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ انہیں اس مقصد کے لئے خود کو کیسے تیار کرنا چاہئے تو میں کبھی انہیں سیاسیات پڑھنے کا مشورہ نہیں دیتا۔ اس کے بجائے میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ فلسفہ، تاریخ اور ادب پڑھیں، اپنے اذہان کو جس قدر ہو سکے وسعت دیں۔ سیاست ہو یا حکومت، اس کے قواعد و ضوابط اور طریق ہائے کار کا بہترین علم تجربے سے ہی حاصل ہوتا ہے لیکن مطالعہ کی عادت، منظم سوچ، گہرے تجزیئے کی تیکنیکس، اقدار کا بنیادی ڈھانچہ، فلسفیانہ اساس، یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں ایک لیڈر کو اپنے تعلیمی عمل کی ابتدا سے ہی اپنانا اور جذب کرنا چاہیئے اور ساری عمر جاری رکھنا چاہئے… جتنے عظیم لیڈروں سے میں واقف ہوں، تقریباً ان سب میں ایک مشترکہ خصوصیت نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ سب کے سب مطالعے کے عادی تھے… ٹی وی دیکھنا ایک مجہول اور جامد سرگرمی ہے لیکن مطالعہ ایک متحرک سرگرمی ہے۔‘‘

میرے خیال میں بہت کم ایسے بلوچ جہدکار اور ذمہ دار ہونگے، جو رچرڈ نکسن کی اس مشہور و معروف پرمغز اور ناقابل تردید خیال سے لاعلم ہوں۔ ہر ایک ضرور باعلم ہے۔ لیکن صرف باعلم ہونا کافی ہے؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں، پھر تو باعلم ہوکر بے عمل ثابت ہوگا اور علم بغیر عمل کی بدترین جہالت کے سوا اور کچھ نہیں بلکہ علم بغیر عمل کے بے وقوف اور لکھا پڑھا جاہل پیدا کرتا ہے۔

اگر تحریک سے لیڈر جنم لیتے ہیں، تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک سے کیسے لیڈر جنم لے رہے ہیں اور لے چکے ہیں؟ رچرڈ نکس کے خیالات کے مطابق کس حد تک بلوچ قومی تحریک میں مجموعی طور پر علمی رجحانات دستیاب ہیں؟ یا پھر روایتی طرز میں سب کچھ چلتا آرہا ہے؟ پھر نتائج کیا ہونگے؟ کامیابی کب تک اور کس حد تک ممکن ہوگا؟

اگر ہم بلوچستان کی مجموعی صور ت حال اور زمینی حقائق، چین اور پاکستان کی مشترکہ بلوچ دشمنی، مذہبی انتہاء پسندی کے رجحانات، یہاں کے مختلف عوامل اورعناصرکا صحیح معنوں میں تجزیہ کرتے ہیں، تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ بلوچستان کی اہمیت اور افادیت دنیا اور عالمی سیاست سے وابستہ رہا ہے۔ یہ ایک سادہ سیدھا عام بات ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ یہ اہم نہیں ہے بلکہ بڑی طاقتیں اوربڑی ممالک کیا چاہتے ہیں‘ یہ اہم ہے۔ ممکن ہے کہ بلوچ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی میں شامل ہونے کا خواہاں نہ ہولیکن دنیا کی سیاست اورمفادات آج اس طرح تشکیل پاچکے ہیں کہ انہوں نے بلوچ کی مرضی اور منشاء کے بغیر بلوچ کی زمین کو اپنی نظروں میں رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ بلوچ کی زمین فوجی سیاسی اور معاشی لحاظ سے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ بلوچ سرزمین خاص طور پر بحر بلوچ دنیا کے بہت سے خطوں کو آپس میں ملاتا ہے یا کہ اپنی وسیع سمندرکے ذریعے دنیا کے لئے عسکری اور تجارتی راستوں کو اتنا مختصر بناتا ہے کہ خطے کی بہت سے ممالک بلوچ سمندر کو بطور تجارتی گذر گاہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں اس بات کا خواہاں ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح بلوچستان کو اپنے زیر قبضہ رکھیں، تاکہ ان کی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیئے ان کے اخراجات کا بوجھ کم ہو سکے۔

اسی پیش نظر بلوچ قوم کی آبادی کو منتقل کرنا یا نقل مکانی پر مجبور کرنے کی خاطر بلوچ نسل کشی کرنا یا بلوچ قوم کو نوابادیاتی نظام کے تحت اقلیت میں تبدیل کرنا، وہ بھی انسانی سمندر چینیوں اور دیگر غیر اقوام کے ذریعے انتہائی تیزی کے ساتھ بلوچ قوم کو مکمل فنا کرنے کی منصوبہ بندی کرنا، اس سوچ اور سازش کے تحت صرف بلوچ سرزمین باقی رہے اور بلوچ قوم ہمیشہ کے لیے گم و گار اور فنا ہو۔

اگر بلوچ جہدکار آئینے کی طرح صاف و شفاف واضح چیلنجز کی پیش نظر، اب بھی روایتی طرز سوچ کے تحت روایتی جہدوجہد پر گامزن رہے اور تبدیلی و موثر منصوبہ بندی اور حکمت عملیوں سے خالی خولی رہے، تو اس تلخ حقیقت کو اپنے ذہن میں ہر وقت رکھنا کہ بلوچ قوم عنقریب تاریخ عالم میں ایک فنا شدہ قوم کے نام سے یاد ہوگا۔ پھر بلوچ قوم کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ، قربانیاں سب کے سب ملیامیٹ ہونگے، یہ ایک تلخ اور عبرناک حقیقت ہے۔اگر اس کا ہمیں ادراک نہیں ہے تو ہم بحثیت جہدکار شعور اور علم سے نابلد صرف اور صرف وقت پاسی کررہے ہیں جو ایک قومی المیہ ہے۔

بلوچ قومی لیجنڈ ریحان بلوچ کی چین سامراجی انجنیئروں پر فدائی حملہ اس انتہاء پر پہنچنا، اسی شعور اور علم کی ایک اہم کڑی ہے جب علم و شعور انتہاء پر ہوگا، تو اپنی قوم تاریخ اور سرزمین کی تحفظ کے لیئے انسان آخری حد تک جاسکتا ہے، یہ جان کر کہ جب قوم نہیں بچے گا، ہزاروں سالہ تاریخ نہیں بچے گی اور شہداء کی مقدس لہو رائیگاں ہوگا، تو میں انفرادی حوالے سے بچ بھی جاؤں تو اس زندگی کا کیا فائدہ اور محض تاریخ میں مجرم ٹہرایا جاوں کہ قوم اور تاریخ کو گنوا دینے والا یہ نسل تھا، یہ احساس علم اور شعور خود انسان کو اس حد تک پہنچا دیگا کہ قوم اور تاریخ کو فنا سے بچا کر خود اپنی ذات کو فنا کرنا۔ جب علم و شعور نہیں ہوگا، تو ہر جہدکار سے لیکر قیادت تک سب کی نظر صرف اپنی پیروں تک ہوگا۔

ہمیں قومی تحریک کو مکمل علم اور علم پر عمل سے لیس ہوکر جلد اور جلد مزید تمام چیلنجز کے مقابلے کے لیئے ایسے حکمت عملی ترتیب دینا ہوگا کہ دنیا اور بڑی سے بڑی طاقتوں کے درمیان ہمارے قومی مفاد اور قومی بقاء محفوظ ہو، ہم دنیا کے نقشے میں ایک آذاد اور خود مختار قوم ثابت ہوں۔

یہ سوچ، خیال، خواہش اور تصور قربانی کے بغیر ممکن نہیں، قربانی کا اصل راز علم و شعور میں پوشیدہ ہے۔ علم و عمل ہروقت آخری حدتک پھر کوئی طاقت، رکاوٹ، الجھن، مشکلات، تکلیف اور پریشانی کسی بھی جہدکار کو غلط سمت اور غلط رخ سفر کرنے سے روک نہیں سکتا۔