جنگی حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت – تحریر: دارو بلوچ

663

جنگی حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت
تحریر: دارو بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب نیٹو نے نئے میلینم کے دوران طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو مذہبی رجعت پسندوں نے مختلف ملکوں اور دیہاتوں سے افغانستان کا رخ یہ کہہ کرکیا کہ وہاں کافر آئے ہوئے ہیں لہٰذا مسلمانوں پر جہاد فرض ہے۔ اسی طرح جیساکہ آپ کو معلوم ہے کہ قابض پاکستان نے جب نوے کے دہائی میں طالبان کے نام پرافغانستان پر قبضہ جمایا تو طالبان محض ایک اصطلاح تھی مگر مرکزی کردار پاکستان کے آرمی اور ایف سی کو حاصل تھا۔ جہاد کے نام پر انہوں نے وہاں قبضہ جمایا تھا۔ نیٹو کے حملے کا آغازہوا توجہاد کے نام پر پاکستان سے ہزاورں سطحی سوچ کے حامل افراد جوکہ پاکستان کے ٹکڑوں پر پلتے تھے نے افغانستان کا رخ کیا گویا وہاں حلواہ تقسیم ہورہاتھا۔ انہیں ادراک ہی نہ تھا کہ یہ ایک آگ ہے۔

ان میں سے ایک صوفی محمد کے نام سے بھی اپنے مدرسہ کے سینکڑوں طالبوں کے ساتھ شارٹ گن،ایئر گن، خنجر، ہنٹر اور کلہاڑیوں سمیت منی بسیں بھر بھرکر افغانستان پہنچا دیئے گئے اور ایک اسکول پر قبضہ کرکے برا جمان ہوئے۔ ایک دن خبر آئی کہ صوفی محمد کے جہادی اسکول پر نیٹونے بمباری کی ہے، اس بمباری میں اسکول کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی اور اسکول منہدم ہوا اور تقریباً جہادی جنت سدہار گئے، جو غازی ٹہرے صوفی محمد کے ساتھ واپس اپنے آقاء کے پاس پہنچے۔ یعنی جنت کا ٹکٹ واپس کینسل کرواکر پاکستان کے آرمی و ایف سی سمیت اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس ہولیئے۔ مگر وہاں جنگ اب بھی جاری ہے، یقیناً دوسرے طالبان ( بے شک ہمیں انکے نام نہاد جہاد سے سو اختلاف ہے اور ہوگا)نے اپنی جنگی حکمت عملی تبدیل کرلی جوکہ وہاں اب بھی بعض علاقوں میں براجمان ہیں اور نیٹو کو لوہے کے چنے چبوانے پر مجبور کر رہے ہیں۔

امریکہ اتحادیوں سمیت مجبورہے کہ اس بھنور سے کیسے جان چھڑائیں۔ ان تمام کامیابیوں میں انکی جنگی حکمت عملی اور اس کے حصہ کے طورپر پاکستانی بھگوڑے طالبان کو بھگانا شامل تھا، تبھی جنگ تبدیل ہوا۔ اس نظر سے آج ہم اگر اپنی جہد آزادی کی جنگ کو دیکھیں تو یہاں بھی بلوچ سرمچاروں میں صوفی محمد جیسے چند کردار داخل ہوئے تھے اور جنگ کا تاب نہ لاتے ہوئے سرینڈر ہوئے یا بلوالیئے گئے۔ ماناکہ ہر بلوچ کا حق ہے کہ اسے موقع دیا جائے کہ وہ اپنا قومی فریضہ نبھائے مگر؟ بلوچ مسلح تنظیموں نے گڈھ فیتھ میں یہ موقع فراہم کیا، جو اچھا عمل اور نیک شگون تھا۔ مگر آج کے حالات اور سرینڈر کرنے والوں کے مزاج کو ناپ تول کر نیا چینج لانا ہوگا؟ کیونکہ شروع کے ادوار کا جنگ دس سال تک تقریباً ون وے تھا اور آج ٹووے ہے۔ تو آج ٹووے کے حساب سے نئی جنگی حکمت عملی، جنگ، گوریلا مزاج سے تریب دینا ہوگا۔ گوریلا مزاج کے سختیوں کو گلے لگانا ہوگا۔ سنہرا موقع بھی آج سرمچاروں کو ہاتھ لگا ہے کیونکہ آج آپ کوپنجابی فوج سے نہیں اپنے خود کے ٹرینڈ شدہ بگھوڑوں سے پالا پڑ رہا ہے یا پڑے گا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مداری کے بندر کی طرح ڈنڈے پر آپ کے خلاف نچائے جائیں گے۔

مثلاً آج طالبان کے نام پر مختلف علاقوں کے جہادی دوسرے ملکوں میں جاکر کامیاب کاروائیاں کرتے ہیں ( یہاں انکے دوسرے ملکوں میں کاروائیوں کو دہشت گردی مانوں گا) کوئی نہیں جانتا کہ کون کہاں سے ہے اس کا بیک گرانڈ آگے پیچھے معلوم نہیں۔ اگر کوئی بھگوڑا نکلا یا حالات اور وقت کے ہاتھوں مار کھاکر دشمن کے ہاتھ بھی لگاتو بھی وہ اپنے تنظیم یا نیٹ ورک کے ساتھیوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا کیونکہ وہ سرے سے جانتا ہی نہیں کہ فلاں کون ہے، کس کا باپ، بھائی بیٹا، بیٹی، شوہر یا فلاں رشتہ دارہے۔

خصوصاً اس چیز کو مد نظر رکھ کر اب بلوچ جہدکار تنظیموں کو ایک نئی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگا، جس میں ماضی کے جنگی کمزور حکمت عملیوں سمیت دوسرے ویک پوائنٹز پر قابو پانا ہوگا۔ اس کے علاوہ سرمچاروں کو ایک علاقے سے دوسرے علاقہ میں (وہ سرمچار جو اپنے سطحی سوچ یا آزاد خیالی یا دشمن کی نشاندہی پر علاقے میں ظاہر ہوئے ہیں ) نہ صرف شفٹ کرنا ہوگا بلکہ اس پر اس کے علاقے میں داخلہ ممنوع قرار دینا ہوگا۔ سرمچار ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں شفٹ ہونگے تو پہلی بات یہ کہ ان سرمچاروں میں احساس ذمہ داری زیادہ پیدا ہوگی کیونکہ وہاں کا جغرافیہ اور اردگرد کے حالات اسے مجبور کریں گے کہ وہ اپنی مکمل ذمہ داریاں نبھائیں، اگر وہ وہاں کہیں موومنٹ کرتا ہے تو علاقائی سرکار کے مخبر یا جاسوس یہ نہیں جانتا کہ یہ کہاں سے ہے، اس کا ویک پوائنٹ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

دوسری جانب اس کا دماغ وسعت پائے گا کیونکہ پہلے وہ علاقے میں رہ کر اس کنوئیں کے مینڈک جیسا بناتھاکہ دنیا یہی ہے اور علاقہ پرستی کی سوچ پھر اسے گروہیت کی جانب دھکیل رہا تھا۔ ان تمام سطحی سوچوں سے نکل کر وہ اپنے عظیم مقصد پر دھیان دینے لگے گا۔ آج ہمیں دل پر پتھر رکھ کر شہیدوں کے خون کو حاضر و ناظر جان کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہماری سرگرمیاں شعوری یا لاشعوری طورپر زیر زمین کے بجائے منظر عام پر نہیں آچکے ہیں؟ جس کی وجہ سے دشمن کو کافی نقصان سمیت کچھ کامیابیاں مل نہیں رہی ہیں؟ تاہم ایک چیز طے ہے کہ دشمن کی معمولی کامیابی اسکی چالاکی کا حصہ نہیں بلکہ ہماری پرانی جنگی حکمت عملی کا سبب ہوسکتا ہے۔