خیر بخش مری تھا وہ – شیرباز جمالدینی

689

خیر بخش مری تھا وہ
تحریر : شیرباز جمالدینی

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

میں کبھی کبھی نہیں بلکہ اکثر یہ سوچتا ہوں کہ قدرت نے بلوچ قوم کے ساتھ نرالا کھیل کھیلاہے۔ سب کچھ دیا، لیکن ستیاناس کرکے آبادی اور جغرافیہ کے تناسب کا اتنا بڑا فرق درمیان میں رکھدیا کہ اگر آبادی اڑھائی کروڑ کی، تو جغرافیہ کم از کم بیس کروڑ کی۔ اس دور میں رہبروں کی قوم پرستی سے شاطرانہ پسپائی، قوم کی اکثریت کی علمی بصیرت اور سیاسی بلوغت سمندر میں محض ایک قطرے کی مانند ہے، اور عین اسی وقت علم و زانت اور عاجزانہ وصال رکھنے والا انتہائی گہرا خیربخش مری بھی دیا۔

بقول وسعت اللہ خان، خیربخش مری کا تعلق اس قبیل کے لوگوں سے تھا جو گر کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ ہوچی منہ، منڈیلا یا کاسترو بن جاتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں خیربخش مری کہلاتےہیں۔ نواب خیر بخش مری ایک عجیب سحر انگیز شخصیت کا مالک تھا، لوگوں سے انتہائی محدود میل ملاپ، روزمرہ آسائیشوں، روزگار اور کسی انفرادی لالچ سے دور، لیکن بلوچ معاشرے کے تمام طبقوں میں یکساں پذیرائی اور عام عوام میں ہردلعزیز تھا۔

اپنی شخصیت میں عجیب خاصیت رکھنے والا یہ بلوچ سردار کوئی معمولی سردار نہیں تھا بلکہ مضبوط ترین قبیلے کا متفقہ و غیر متنازعہ سردار تھا، لیکن عاجزی ایسی کہ معصوم بچے بھی شرمندہ ہوں۔ مقناطیسی شخصیت کے حامل ہونے کا تو میں بذات خود گواہی دیتا ہوں۔

مجھ سمیت اکثر دوستوں کو نواب صاحب سے ملنے کا ایک تڑپ رہتا تھا، جیسے شدید گرمی میں پیاس کی حالت میں پانی کی شدید تڑپ۔ نواب صاحب کے ساتھ ملاقات اور پھر اس کی سچائی و پر اثر گفتگو کا یہ عالم تھا کہ جب بھی اسے سنا، تو وہ ظلم، ناانصافی، قومی غلامی اور عدم مساوات کے خلاف جدوجہد کے لئے انسان کو ابھارتا تھا۔

مجھ سمیت بہت سے قریبی دوست یہ تسلیم کرتے تھے کہ جب بھی ہم نواب صاحب سے ملے، جہالت زدہ، شاطر اور جذبابیت کو بطور سیاسی حربہ استعمال کرنے والے حادثاتی لیڈروں سے نفرت میں اضافہ ہوا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نواب صاحب خود میں ایک ادارہ، ایک رہنما، ایک مفکر ایک دوست اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم انسان تھے۔

25مئی 2013کو کراچی خیابان سحر میں ہماری نواب صاحب سے آخری ملاقات ہوئی، مجھے کسی حد تک اندازہ تھا کہ میں اپنے اس عظیم لیڈر سے دوبارہ نہ مل سکوں گا، اس لیئے وہ نشست معمول سے بالکل مختلف تھا اور کافی لمبا بھی۔ میں اس نشست میں پوری دنیا کو سمیٹنا چاہتا تھا۔

ایک ساتھ جدوجہد کرنے والے دوستوں کی آپس کی رنجشوں، درپیش مسائل کے باوجود کام کو جاری رکھنا، عالمی سیاسی منظرنامہ اور بہت کچھ ان سب پہ وہ بولتا رہا، وہ تمام باتیں ، شعور اور لاشعور میں اب بھی محفوظ ہیں اورانہیں یہاں پہ بیان نہ کرنے کا بنیادی وجہ یہی کہ شاید ان الفاظ کے ساتھ انصاف نہ کرسکوں۔

لیکن بطور کُل یہ ضرور کہوں گا کہ نواب صاحب نے خاموشی کی طاقت سکھائی، مستقل مزاجی، دوراندیشی اور حق پہ پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے کا گُر سکھایا، جدوجہد کو محدودیت سے وسعتوں تک لے جانے اور انسانی برابری کی بنیاد پر احترام سکھایا۔

ایک گلہ قدرت سے اپنے ہی من میں ہمیشہ کرتا رہتا ہوں کہ نواب مری کو بلوچ قوم میں وقت سے کافی پہلے جنم دیا، کیونکہ ہماری ذہنی ساخت اور کیفیت اور نواب صاحب کی فکر اور شخصیت سے بالکل میل نہیں کھاتے تھے۔
میں فرانسیسی لکھاری کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ
’’ نواب خیر بخش مری جو تمہاری ذہنی صلاحیتیں ہیں ، تم ان سے کم ازکم پانچ سو سال قبل ہی اس دنیا میں آچکے ہو ۔