بی ایس او آزاد کے عظیم ساتھی شہید فرہاد رحمت – شئے رحمت بلوچ

318

بی ایس او آزاد کے عظیم ساتھی شہید فرہاد رحمت

تحریر: شئے رحمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر ہم دنیا میں قوموں کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو ہمیں انکی ترقی و کامرانی میں نوجوان کا متحرک کردار ملے گا، کیونکہ نوجوانوں میں توانائی اور جزبّہ زیادہ ہوتا ہے۔ ہر محاذ پر نوجوانوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جس طرح دنیا بھر میں نوجوانوں نے اپنے اپنے قوموں کی آزادی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کیا ہے، تو وہیں بلوچوں نے بھی اپنا کردار ادا کرکے قوم کے مستقبل کیلئے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اگر بھگت سنگھ نے انڈیا کی آزادی کیلئے جان قربان کی ہے،اگر چے گویرا نے انسانیت کیلئے جان قربان کردیا، تو اسی طرح بلوچستان میں بھی فرہادوں نے اپنے وطن کی آزادی کیلئے جان قربان کی ہے۔

شہید فرہاد مشکے کے علاقے گجر کرکی میں شہید ماسٹر رحمت جان کے گھر 18 جولائی 1995 کو پیدا ہوئے۔ اپنے تعلیم کا سلسلہ چھوٹے ہی عمر میں کرکی سے شروع کی۔ بعد میں گجر گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لے کر تعلیم جاری رکھی، جب وہ پڑھ رہے تھے تو پاکستانی فوج کی ظلم اور بربریت کے خلاف مشکے کے جلسوں اور ریلیّوں میں شرکت کرتے رہے اور انتہائی چھوٹی عمر میں بی ایس او آزاد میں شمولیت اختیار کی اور ڈاکٹر اللہ نظر کی گرفتاری کے خلاف جلسوں میں شرکت کرتے رہے۔

بلوچ قوم میں انتہائی زیادہ نوجوانوں نے قربانی دی ہے، ان سب کی عزت کرتا ہوں اور یقین کرتا ہوں کہ ان سب کا خون رنگ لائےگا اور ان ہی کی قربانیاں اس قوم کی آزادی کو ممکن بنائے گی۔

شہید فرہاد جان نے اپنی پوری زندگی اس قوم کیلئے قربان کردی۔ شہید فرہاد سمیت ہزاروں بلوچوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں، ان کی جدوجہد ان کی قربانیوں کو بیان کرنا اتنا آسان نہیں۔ بلوچ قوم کی تاریخ میں دیکھیں تو انتہائی زیادہ جنگجو ملینگے شروع سے ہی بلوچ قوم میں تعلیم یافتہ کم رہے ہیں۔ یہی ہماری کمزوری ہے کہ بلوچستاں کی تاریخ نہیں لکھی گئی۔ اگر کسی نے لکھا ہے تو ہر کسی نے اپنے ہی خیالوں کی مطابق لکھا ہے۔ اگر یہ کتابیں پڑھیں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تاریخ نہیں لکھی گئی اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ بلوچ قوم تعلیم، سیاست، شعور و آگہی سے دور رہے۔ ابھی تک بھی دیکھیں جنگجو بہت ہیں لیکن سیاسی لوگوں کی تعداد کم ہے۔

اسی لیئے ہماری قوم میں ان لوگوں کی جدوجہد بے مثال ہے، جنہوں نے آگاہی و شعور پھیلایا ہے۔ شہید فرہاد نے بھی آگاہی پھیلانے کیلئے اپنی پوری زندگی جدوجہد کی۔ وہ اسی کو ترجیح دیتے تھے کہ بلوچ قوم کو پتہ چلے کہ دنیا نے بہت ترقی کرلی ہے، ہم بہت ہی امیر ملک میں رہ رہے ہیں، جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ ایک طرف ہمارے وسائل کو لوٹا جارہا ہے اور دوسری طرف ہماری نسل کُشی ہورہی ہے اور ہم سے سچ چھپایا جارہا ہے، ہم سے سوچنے اور سمھجنے کی صلاحیت کو چھینا جارہا ہے اور ہم کو ایک بڑی تباہی کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ وہ تباہی جہالت ہے، ہم کو مذہبی شدّت پسندی کی طرف لے جایا جارہا ہے، جس سے ہم بلوچ اپنے قوم کی نسل کشی کرنے کیلئے تیار ہونگے اور ہم کو مذہب کے نام پر دھوکہ دیا جارہا ہے۔

شہید فرہاد کا بلوچستان کے کئی علاقوں اور اور لوگوں سے واقفیت رہی ہے کیونکہ شہید بلوچستان کے کئی علاقوں کا رخ کرکے وہاں وقت گذار چکا ہے ۔ شہید فرہاد جان اکثر اپنے والد شہید رحمت کے ساتھ ہر سفر میں ہمگام اور ہمراہ رہے اور شہید رحمت ایک بلوچ قومی خدمت گار اور تجزیہ کار تھے۔ اسی لیئے ان کو سب علاقوں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ حالت کی خرابی کی وجہ سے وہ کچھ علاقے نہ جا سکے اور شہید فرہاد جان تنظیم کے پلیٹ فارم کے پابند رہ کر کئی علاقوں میں کام کرچکے تھے، شہید نے دن رات بلوچ قوم کی نمائندگی میں گذاری۔

اگر ہم دیکھیں آج کے دور میں ایسے بلوچوں کی کمی نہیں ہے، جو قوم کو آگاہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہید فرہاد نے کہا کہ اگر ہم اپنی قوم کو اپنے مقصد کیلئے آمادہ اور آگاہ نہیں کرسکے، تو ہمارا خواب صرف ایک خواب ہی بن کر رہ جائیگی اور ہم اپنے مقصد کو پورا نہیں کرسکیں گے۔ جتنا زیادہ عوام ہمارے ساتھ ہوگا، پھر دنیا کو پتہ چل جائے گا کہ ہمارا جنگ ایک دہشتگردی کی جنگ نہیں بلکہ ہماری جنگ اپنے حق کی جنگ ہے۔

شہید فرہاد کا والد ماسٹر رحمت 21 جنوری 2015 کو شہید ہوگئے۔ اس کے بعد 19 مئی 2015 کو اس کے چھوٹے بھائی معراج جان کو شہید کیا گیا، لیکن شہید فرہاد اس بات پر فخر کرتے تھے کہ میرے والد اور میرے چھوٹے بھائی نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اس کے بعد بھی وہ ہمت نہ ہارے اور جدوجہد کرتے رہے۔ لیکن 30 جون 2015 کو شہید فرہاد نے جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ کیلئے ہم سے جدا ہوگئے۔

جب شہید فرہاد کو شہید کیا گیا، وہ بی ایس او آزاد کے سینئر وائس پریزیڈینٹ کے عہدے پر فائض تھے۔ مشکے میں ایک بڑے پیمانےکے زمینی اور فضائی آپریشن کے دوران فرہاد سمیت بارہ لوگ شہید ہوگئے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ چراوہے تھے۔ اُن بے گناہ لوگوں کو پاکستانی فورسز نے بے دردی سے شہید کیا اور ان کی لاشیں گاڑی کے پھیچے باندھ کر گھسیٹتے ہوئے جیبری کیمپ منتقل کیا گیا۔ اسی لئے شہید فرہاد اور ساتھیوں کی شناخت نہ ہوسکی اور نہ ہی ان کی لاشیں ان کی فیملیوں کو دیا گیا۔

شہید فرہاد کی امّی بی بی عابدہ یہی کہتی ہے کہ مجھے ان کی شہادت پر فخر ہے اور میں اپنے باقی بیٹوں کو بھی قربان کرنے کیلئے تیار ہوں۔ وہ ہر طرح کی قربانی کیلئے تیار ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے معلوم تھا کہ وہ اس راہ کے مسافر ہیں، وہ شہید ہونگے لیکن میں نے ان کو کبھی بھی نہیں کہا کہ وہ اس رستے کا مسافر نہ بنیں۔