شہید اکبر عرفِ زدگ جان – محراب بلوچ

405

شہید اکبر عرفِ زدگ جان
محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

زندگی کا فلسفہ ہے کہ حقیقی زندگی جینے کے لیئے مرنا پڑتا ہے، ایک غلام قوم کے فرزند کے لیئے مرنا ہی اصل زندگی ہے، اس دنیا میں وہی لوگ یاد کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جو آزادی کا درد لیئے اپنی زندگی اور شان و شوکت تک کو فنا کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ جسمانی طور پر تو ہمارے ساتھ نہیں رہتے لیکن وہ تاریخ میں ہمیشہ امر رہ جاتے ہیں اور تاریخ انہیں کبھی فراموش نہیں کرتی، کیونکہ ایسے لوگ زندگی جینے کے فن سے آشنا ہوتے ہیں، وہ زندگی گذارنے کے طریقے سیکھ لیتے ہیں اور اس فن کو حاصل کرنا، ہر کسی کے بس کی بات نہیں، بہت ہی کم لوگ اپنی زندگی میں ایسی مہارت حاصل کرلیتے ہیں۔

دورِ قدیم کی بات کریں یا دور جدید کی، جس دور میں بھی لوگوں نے موت سے ڈر کر بھاگنے کی کوشش کی تاریخ گواہ ہے وہ لوگ غلامی کی ذلت میں رہ کر جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے رہے اور ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہے کہ موت سے خود کو دور رکھیں لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ موت ہی دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے اور موت ہی انسان کو حقیقی زندگی گذارنے کا موقع دیتی ہے۔

آج میں اپنے اس کالم میں ایک ایسے شخصیت کا ذکر کروں گا، جس نے زندگی کی چاہت میں موت کو گلے لگا کر خود کو امر کردیا اور وہ انسان شہید اکبر عرف زدگ ہے، جو بلوچ لبریشن فرنٹ کے پلیٹ فارم سے قومی فرائض ادا کرتے ہوئے دشمن سے لڑائی میں شہید ہوئے۔

شہید اکبر عرفِ زدگ ایک وسیع ذہن کے مالک انسان تھے، آپ ایک پسماندہ سماج سے تعلق رکھنے کے باوجود ذہنی حوالے سے مکمل شعور یافتہ تھے، آپ نے اپنی ذات کی نفی کرکےانفرادی زندگی سے نکل کراجتماعیت کو ترجیح دی قومی مفادات پر خاندانی اور انفرای مفادات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی مفادات کے لیئے جدوجہد کو زندگی کا حصہ بنایا۔ انفرادیت قربان کرکے قومی ہمیت و آزاد کو مقدم ٹہرا کر اسکیلئے جدوجہد کرتے ہوئے، آپ فرد سے قوم بن گئے، قومیت کے جذبے سے سرشار رہ کر بلوچ قوم کی خاطر جدو جہد کی۔

اکبر عرف زدگ ایک ذمہ دار اور ایماندار سرمچار تھے، جن کے نزدیک قومی جدوجہد کا اپنا ایک مقام تھا، جو تنظیمی فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے لیئے ہمہ وقت تیار رہتے، ایک با صلاحیت اور نڈر انسان ہونے کی وجہ سے آپ ہر وقت محاذ پر موجود رہتے اور کئی محازوں پر دشمن فوج کو شدید نقصان سے دوچار کرکے، خود بحفاظت نکلنے میں کامیاب رہے آپ کمانڈر تونہیں تھے لیکن کسی بھی طرح کمانڈر سے کم حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ لوگ موت کے خوف سے زندگی کو وبال سمجھتے تھے لیکن ایسے جانبازوں کی وطن سے محبت اور پروانے کی طرح شمع کی چاہت میں جلنے والوں نے انسانوں کا حوصلہ بڑھایا اور ان میں ہمت پیدا کی، وہ ظالموں کا مقابلہ کرکے ہی زندگی کے سفر کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ 9 نومبر 2017 کو دشمن آرمی نے گھات لگا کر شہید زدگ و انکے ساتھیوں پر حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں اکبر عرف زدگ اور منور عرف ساکا نے جام شہادت نوش کرکے خود کو بلوچ قومی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر کردیا اور شہید اکبر کو مادر وطن کی آغوش میں دفن کردیا گیا۔ شہید نے جو قربانی دی اور اپنی قومی آجوئی کے لیئے جدوجہد کی ان کی جدوجہد ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔