ناکو ہُدابکش ؛ تحریر :صدف مینگل

312
آج بہت دنوں کے بعد بچپن کی سہیلی نرگس کی طرف سے وٹسیپ پیغام ملا جو حال ہی میں مسقط عمان سے لوٹی تھی، کہہ رہی تھی اگر کچھ ٹائم نکال سکو تو جنت بازار تک جائیں میں نے کچھ شاپنگ کرنی ہے اور گوادر کی سیر بھی کرنی ہے ایک مدت سے باہر رہی ہوں تو گوادر دیکھنے کو من کررہا ہے اور کچھ ترقیاتی کاموں کا نظارہ بھی کرلیں گے جن کا ذکر ہم خلیجی ممالک میں ٹی وی چینلوں پر زور و شور سے سنتے آرہے ہیں۔
پیغام ملتے ہی مجھے انتہائی خوشی ہوئی کہ چلو اسی بہانے نرگس سے ملاقات بھی ہوگی اور کچھ شہر کا نظارہ بھی کرنے کو ملے گا۔ پروگرام طے کرنے کے بعد ہم دونوں گوادر شہر کو نکلے اور مختلف شاہراؤں پر گھومنے پھرنے کے بعد دونوں ساحل سمندر پر گئے۔ جہاں ہم دونوں نے کچھ دیر چہل قدمی کی اور پچپن کی ڈھیر ساری باتیں بھی دہرائیں اور ساتھ میں نئی بننے والی سڑکوں عمارتوں اور دوسری ترقیاتی کاموں پر نظر ڈالتے رہے اور من ہی من میں خوش بھی ہوئے کہ جلد ہی ہمارا شہر گوادر کا شمار دنیا کی ترقی یافتہ شہروں میں ہوگا جہاں ہم سر اٹھا کر گھومیں گے اور گوادر کی ترقی پر ناز کرینگے۔
انہیں خوش گپیوں مصروف تھے کہ نرگس کو جنت بازار کا خیال آیا کہ وہاں جاکر کچھ ضروری چیزیں خریدنی ہیں اور شام سے پہلے پہلے گھر لوٹنا ہے.اس لیے وہاں سے ہم جنت بازار کے لیے نکلے اور بازار کے قریب پہنچے تو نرگس نے کہا کہ پہلے پانی پی لیتے ہیں بہت پیاس لگی ہے اس کے بعد باقی چیزیں دیکھینگے۔ ہم نے جنت بازار کے ساتھ لگے ریڑھیوں سے پانی خریدنے کا فیصلہ کیا اور وہاں لگی ریڑھیوں سے پانی مانگنے لگے تو پانی کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں جوس خریدنا مناسب لگا۔اسی اثناء میں ایک مانوس سی آواز میرے کانوں میں گونجنے لگی جو ایک مدت کے بعد میں سْن رہی تھی۔ آس پاس غور سے دیکھنے کے بعد میری حیرت کی انتہاء نہ رہی اور مجھے وہی شخص ملا جس کا مجھے گمان ہورہا تھا جو ایک دوسرے ضعیف العمر بھکاری کے ساتھ بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا۔
یہ ناکو ہْدا بکش تھا جو ایک مدت تک اپنی دستی ریڑھی پر گوادر کے سمندر کا تازہ مچھلی لاکر ہماری گلیوں میں بیچا کرتا تھا اور ساتھ میں سیپیاں بھی لایا کرتا تھا جس کی وجہ سے ہم سب بچے ناکو کے آس پاس جمع ہوجاتے تھے اور سب حسرت سے دیکھا کرتے تھے کہ آج ناکو نجانے کس کو سیپی دینگے۔میں نہیں جانتی کہ قدرے خوشحال زندگی گزارنے والا ناکو ہْدابکش کیسے اور کیوں اس مقام تک آ پہنچا مگر اسکی یہ حالت قابلِ رحم تھی۔
ایک بوتل پانی اور دو جوس خریدنے کے بعد ہم دونوں ناکو ہْدابکش کے عقب میں کھڑے ہوکر پانی پینے لگے اور میں ناکو کو غور سے دیکھے جارہی تھی اور انکی باتیں سْن رہی تھی۔اسی دوران دوسرے بھکاری نے ناکو سے پوچھا کہ ہْدا بکش یہ جو بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بن رہی ہیں ان کا ہمیں کیا فائدہ ملے گا؟دھوپ میں بیٹھے ناکو ہدا بکش اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے بولنے لگا ’’چار شمبے آج ہم دھوپ میں بیٹھ کر بھیک مانگتے ہیں کل جب یہ عمارتیں تعمیر ہونگی تو ہم ان کے سایہ میں بیٹھ کر بھیک مانگ سکیں گے اور سائے میں ہمیں پسینہ آئیگا اور نہ ہی شدت سے پیاس لگے گی کہ ہم اپنی آدھی کمائی صرف پانی خریدنے پر خرچ کریں”
اسی دوران نرگس نے میرا ہاتھ پکڑا اور بازار کی طرف چلنے کو کہا.
تب میرا خیال اْس “آبلو” کی طرف گیا جو ناکو ہْدابکش نے مجھے بچپن میں یہ کہہ کر دی تھی کہ تْم صدف ہو مگر یہ آبلو ہے جو صدف سے کئی گنا قیمتی ہوتے ہیں اسے سنبھال کر رکھنا۔