رزمی دقیقہ رسی – برزکوہی

388

رزمی دقیقہ رسی

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جب آپ جنگ، میدان اور اسکے تقاضوں کی کماحقہ پرکھ رکھنے میں کامیاب ہوئے تو آپ ایک ہاری ہوئی جنگ بھی جیت سکتے ہو اور آپ ایک جیتی ہوئی جنگ بھی ہار سکتے ہو، جب آپ جنگ کو جنگ نہیں سمجھیں، جنگی اصولوں اور تقاضوں سے منحرف ہوکر اپنے ذاتی مزاج و خواہشات اور فرمائشوں کے مطابق لڑیں۔

ہمیشہ انقلاب اور قومی آزادی کی جنگ میں آپ کا مدمقابل دشمن آپ سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ وہ آپ سے زیادہ معاشی و فوجی وسائل رکھتا ہے۔ جنگی سازوسامان، و افرادی قوت وغیرہ میں بھی اسے برتری حاصل ہوتی ہے۔ لیکن انقلابی و قومی آزادی کے سورماؤں کے پاس ایک فطری جذبہ، ایک کمٹمنٹ، ایک بہادری، ایک رضاکارانہ نظریہ و فکر ہوتا ہے۔ مگر مصنوعی اور غیر فطری طور پر یہ چیزیں دشمن بھی جھوٹ اور دھوکہ دہی کے ذریعے اپنے لوگوں کو بھی فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان نام نہاد دو قومی نظریئے یا اسلام کے نام پر بطور فریب و جھوٹ اپنے لوگوں کو لڑا رہا ہے حالانکہ اس اٹل سچائی میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان کی تخلیق و وجود اور فطرت میں خالص اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان اسلام ہے اور نہ ہی حقیقی اسلام پاکستان ہے۔ اسلام کو پاکستان کے وجود کو برقرار رکھنے کی خاطر ایک ڈھال کے طور پر پنجاپی شروع سے لیکر آج تک استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کیوں بنا؟ کس نے بنایا؟ کن کن مقاصد کی خاطر بنایا گیا، یہ ایک طویل اور الگ بحث ہے۔

جب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، تو پھر اس بات کو دہراتے ہیں، فطری جذبہ، بہادری، ہمت، نظریہ و فکر اور اہم مقصد اپنی جگہ بلکہ ایک انقلابی ان چیزوں کے بغیر یا کمی کی وجہ سے پھر انقلابی کہلائے جانے کا مستحق بھی نہیں رہتا۔ مگر ان خصوصیت کے ساتھ اگر انقلابی یا قومی آزادی کی جب آپ جنگ لڑتے ہو، آگے بڑھتے ہو، جب جنگی طریقہ کار سے آپ نابلد و بیگانہ ہو، تو آپ یہ ذہن میں ہمیشہ رکھیں، آپ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہے ہو، جس کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔

جنگ میں آپ طریقہ کار سے، حکمت عملی سے، اپنے ضبط سے فتح یاب ہوتے ہو۔ جنگ میدان میں بعد میں لڑی جاتی ہے۔ پہلے کرداروں اور اذہان کے بیچ لڑائی ہوتی ہے۔ فتح و شکست کا فیصلہ میدان میں اترنے سے پہلے ہی ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ سن زو کہتا ہے کہ فاتح جنگ جیتا ہے پھر میدان میں لڑنے کیلئے اترتا ہے، اور شکست خوردہ میدان میں اترتا ہے پھر جیتنے کیلئے لڑتا ہے۔ آج بلوچستان کے میدان جنگ میں جو بھی لڑائی دشمن سے آمنے سامنے ہوگی، اس سے بڑی لڑائی جو ہمارے فتح و شکست کا فیصلہ کریگا، وہ میدان سے باہر ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم کون ہیں؟ ہم بطور جہد کار کیا شخصیت رکھتے ہیں؟ ہماری سمجھ بوجھ جنگ کے بابت کتنی ہے؟ ہم دشمن کے حوالے کتنا تیار ہیں؟ ہم دشمن کو کتنا سمجھتے ہیں۔ ہمارا ضبط کیا ہے؟ اگر ہم میدان سے باہر کامیاب جہد کار ثابت ہوئے تو پھر میدان میں کامیابی ہماری ہوگی۔

لیکن بدقسمتی سے ہمارے صفوں میں میدان سے باہر جہد کاروں کا رویہ، ذمہ داری کا عالم، سوچ کی نوعیت، خواہشات کی نوعیت اور ترجیحات تقاضوں سے ہم آہنگ نظر نہیں آتے۔ پھر کہیں دشمن کا آسان نشانہ بننا زیادہ چونکا دینے والی خبر بھی نہیں بنتی۔

جنگ سکھاتی ہے، جنگ تجربہ و تربیت کی ماں ہے، جنگ فن ہے اور فن خود جنگ ہے، جنگ خود ہی لیبارٹری ہے، جنگ علم و شعور کا سمندر ہے، آپ کو سیکھنے اور حاصل کرنے کے لیے سب کچھ ملے گا، تب جب آپ عقل کے اندھے بہرے اور گونگے نہ ہوں۔

یہ اس وقت ممکن ہوگا، جب آپ جنگ کو دل و جان سے، شعوری، سچائی، ایمانداری، سنجیدگی اور مخلصی کے ساتھ قبول کرکے لڑرہے ہو۔ نہیں تو ان چیزوں کے بغیر صرف وابستگی کی حد تک آپ جنگ سے 50 سال وابستہ رہو، پھر جنگ سے ایک فیصد بھی نہیں سیکھو گے۔

جب ہم جنگی طریقہ کار کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں جاننا ہوگا کہ ہم خود کو اور اپنے دشمن کو کس حد تک سمجھتے اور جانتے ہیں؟ بقول عظیم جنگی فلاسفر و ماہر سن زو کے اپنے آپ کو پہچانو اور اپنے دشمن کو پہچانو آپ ایک جنگ نہیں ہزاروں جنگیں جیت سکتے ہو۔

دوسرا جنگ میں احتیاط و رازداری اور رسک کس حد اور کہاں تک؟ ان سرحدات اور دائرہ کار کی آخری حدود کیا ہیں اور کہاں تک ہیں؟ کہاں سے اور کدھر سے پھر خوف اور خوف سے بزدلی کی شروعات ہوگی؟ اگر ان بنیادی اور ضروری چیزوں سے آپ نالاں ہوگے، تو پھر آپ جنگ میں ہوتے ہوئے بھی جنگی طریقہ کار سے نابلد رہوگے۔ بہادری اور احمقانہ بہادری میں فرق کیا ہے؟ اس کو سیکھنے اور سمجھنے کا پیمانہ کیا ہے اور کس کے پاس ہے۔

ہم ایک طویل جنگ لڑرہے ہیں، یہ جنگ صرف ہمارے لیئے ہی طویل نہیں دشمن کیلئے بھی طویل، تھکا دینے والا ہے۔ بھلے اس پر حملے چھوٹے ہوں یا بڑے لیکن جب جنگ طوالت اختیار کرے تو اسکے رینکس میں بھی بے چینی، بے اضطرابی اور جھجھلاہٹ جنم لیتی ہے۔ ایسے طویل جنگوں میں شکست سے بچنا آپکے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن جیت جانا دشمن کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جو غلطی کریگا سامنے والے اس غلطی سے فائدہ اٹھا کر جیت جائے گا۔ اس جنگ کا فیصلہ اس امر میں پوشیدہ ہے کہ کس کی نظریں تھکاوٹ و اکتاہٹ کی وجہ سے جنگ اور میدان کے تقاضوں سے ہٹ جائیں اور دشمن اسکا فائدہ اٹھائے۔ گوریلہ جنگ کا بنیاد ہی دشمن کو تھکانا ہوتا ہے، اس سے غلطیاں سرزد کروانا ہوتا ہے۔ اب ذرا غور کریں، ہم غلطیاں کررہے ہیں یا دشمن؟ کہیں ہم بنیادی نکتہ ہی تو نہیں بھول رہے؟

بہرحال دشمن ہمیشہ سیکھتا ہے اور سمجھتا ہے، اس کی سمجھنے اور سیکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ آپ کی وہ جنگ ہوتی ہے جو آپ اس کے خلاف لڑتے ہو، پھر آپ دشمن کی جنگی چالبازیوں سے کہاں تک اور کس حد تک سیکھ رہے ہو۔ یہ قابل غور بات ہے، پاکستان آج آئے روز بلوچ کے خلاف اپنی جنگی حربے اور چالوں میں بدلاو لارہا ہے اور مزید لائیگا تو پھر بلوچ کی جنگی چالیں بھی تبدیل ہیں یا وہی کے وہی، چلتا ہے بس اللہ خیر کریگا؟

میں بارہا کہہ چکا ہوں پھر دہرا رہا ہوں، بلوچ جنگی دوست، جو جہاں بھی ہو، مخلتف ممالک میں بلوچ پناہ گزین یا مہاجرین ہوں۔ اگر وہ عام مخلوق کی طرح زندگی بسر کریںگے تو کامیابی صرف دشمن ہی کا ہوگا اور بلوچ ہر جگہ دشمن کے لیئے آسان نوالہ بن سکتے ہیں۔

پھر وہی بات آتی ہے، کہ جب دشمن کئی گنا آپ سے طاقتور ہو، پھر وہ کونسی چیز یا جادو ہوگا جو آپکو کامیابی دلائیگی اور دشمن کی شکست کا باعث بنیگی ؟ وہ چیز و جادو صرف اور صرف آپ کی بہترین طریقہ کارہی ہے۔ اگر آپ طریقے سے کافر و غافل ہونگے، پھر کامیابی کے سارے دعویں صرف دعویں ہی رہینگے۔

آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے، کمیونیکشن کے ذریعے فون، نیٹ، سوشل میڈیا وغیرہ سب کے سب تحریک کے لیے کمونیکشن کے بہترین سہولیات اور موثر ذریعے ہیں، مگر ان کا استعمال و طریقہ کار اگر غلط ہو، پھر آپ یہ جان لیں، یہ دشمن کے لیے بہترین آلہ کار اور جاسوس ہیں۔ جو ہر وقت آپ کے ساتھ ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے بارے میں کس حد تک جانتے ہیں؟ کہاں تک واقف ہیں؟ کیا دشمن کی جانب سے ایک پروپگنڈہ پیش ہو کہ فلاں فلاں چیز محفوظ ہے، فلاں غیر محفوظ ہے، پھر کیا ہم سنی سنائی باتوں پر عمل نہیں کرتے اور نقصان نہیں اٹھاتے ہیں؟

ہمارے خود کے جاننے اور سمجھنے کا معلوماتی ذریعہ کیا ہے؟ اگر اس پر عمل اور توجہ ہو تو سب سے بہتر ہے۔ وگرنہ ہم دشمن کے ہرچال کا جلد شکار ہونگے، حالانکہ دشمن کے ساتھ چال بازی کرنا، دشمن کو دھوکا دینا، تاریخ میں ان کی ضرورت زیادہ نظر آتی ہے، جو کمزور شکل میں طاقتور دشمن کے خلاف لڑتے ہیں، ہمارے پاس اس وقت ضرور دشمن کے خلاف چال چلنے کے بہت سے طریقے ہونگے، جب ہم اس پہلو پر غور کریں اور توجہ دیں۔

سب سے پہلے دشمن کو دکھانا کہ کرنا کیا چاہیئے، وہی دکھانا اور وہی کرنا، پھر آ بیل مجھے مار کے مترادف ہوگا۔

کوئی اگر کہے یا سوچے کہ تحریک و جنگ میں نقصان اور قربانی کے بغیر تحریک و جنگ کامیاب ہوسکتی ہے تو دنیا میں اس سے بڑا کوئی احمق نہیں لیکن نقصان کو کم کرنے اور ہر نقصان کے بعد اس کے ازالے کے ساتھ اس کے وجوہات کی جانج بین اور نتیجہ نکالنا، پھر اس کو دوبارہ کبھی نہیں دہرانہ، خاص جنگی طریقہ ہوتا ہے، جس سے تجربہ حاصل ہوکر جنگ کامیابی کی طرف گامزن ہوگا۔

میرے خیال میں یہ سب ضروری چیزیں ہیں، ان پر اکثر اوقات بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور سب جہدکار متفق بھی ہوتے ہیں اور تسلیم بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی سوال اٹھتا ہے کہ ان پر عمل ہوتا ہے تو کس حد تک؟ اگر نہیں ہوتا تو کیوں نہیں ہوتا ہے؟

پھر کیوں کے جواب میں یہ بات ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ضرور قومی آزادی کی ایک خالص جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ہم ابھی تک اس حد تک اپنے ذاتی مزاج، طبیعت، سوچ اور طرز کو تبدیل نہیں کرسکے ہیں، جس حد تک کرنا چاہیئے اور جب تک یہ تبدیل نہیں ہونگے، اس وقت جنگی و انقلابی طرز پر عملاً کاربند رہنا اور جنگی تقاضات کو پورا کرنا مشکل نہیں ناممکن ہوگا۔

اگر تبدیل کرے گا تو کون کریگا؟ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک، ہر جہدکار کو یہ دیکھنا ہوگا اور سمجھنا ہوگا کہ کون جنگی و انقلابی طرز کو اپنائے گا؟ جو نہیں اپنائے گا، یہ میرا سر درد نہیں لیکن مجھے عملاً اپنانا ہوگا اور اسی اپنانے سے ہی آہستہ آہستہ تبدیلی رونما ہوگا۔

خاص طور پر آج بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کامیابی اور کامرانی کے کن کن مواقعوں کے نزدیک کھڑا ہے؟ ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچ قوم اور قومی تحریک ایک انتہائی مشکل مقام سے بھی گذر رہا ہے۔

ایسی صورتحال میں تحریک کے تمام پہلوؤں پر صرف اور صرف لمبے چوڑے بحث و مباحثے اور تحریر نہیں بلکہ عملاً اور سنجیدگی سے کچھ فیصلے اٹھانا انتہائی ضروری ہے، بعد کی پشیمانی اور تاریخ میں ناکام و مجرم ٹہرنے سے بہتر ہے کہ آج بہتری کے لیئے ہمیں اپنی جنگی طرز اور حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر کسی بھی جہدکار کے ذاتی طبیعت و مزاج اور خواہشات قتل ہوتے ہیں، اس پر کچھ گراں گذر جائے، پھر بھی یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ ایک قوم، ایک قومی جنگ زندہ ہو اور کامیابی حاصل کرے سب سے اہم اور ضروری یہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔