انسان کا بچہ – غلام دستگیر صابر

145

انسان کا بچہ

تحریر: پروفیسرغلام دستگیرصابر

دی بلوچستان پوسٹ

ہریش اور اسکے خاندان کو میں سالوں سے جانتاہوں۔ وہ میرے شہرنوشکی میں آباواجدا سے رہنے والا’کافر’ ہندوہے۔ اسکا والد ایک نہایت غریب انسان تھا۔شہرمیں پکوڑے اور سموسے بیچ کر خاندان کی کفالت کرتاتھا۔ غربت کی وجہ سے ہمیشہ قرضدار رہتا۔ ہریش اسکاسب سے بڑابیٹاتھا۔ ہریش کی بوڑھی والدہ اپنے شوہرکا ہاتھ بٹاتی تھی۔ وہ عظیم خاتون اور اس کے چھوٹے بچے سارا دن سموسے اور پکوڑے تیار کرتے اور اسکاشوہربازارمیں انھیں بیچ کراپنے 7 بچوں کاپیٹ پالتا اور انہی پیسوں سےکرائے کے مکان کا کرایہ بھی دیتا۔ ہریش اور اس کے بہن بھائیوں نے غربت، بھوک اور افلاس کوبہت قریب سے دیکھا تھا۔ والدکے اچانک انتقال کے بعد 7 بہن بھائیوں اور بوڑھی والدہ کی ذمہ داری ہریش کے کاندھوں پر پڑی۔ مگر باہمت والدہ نے اس کوخوب ہمت دلایا اور کہا بیٹازندگی بھرمحنت کرنا کسی کے سامنے ہاتھ مت پھیلانا، ہریش نے چھوٹی عمرمیں کرائے کا دوکان کھولا،اورخوب محنت کی۔ وہ اپنےچھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کے ساتھ انکی تعلیم پرتوجہ دیتا اور آج اسکاایک بھائی سنجے کمار ڈاکٹرہے۔20 سال دن رات محنت کایہ نتیجہ ہے کہ آج ہریش شہرکاایک چھوٹاموٹا کاروباری شخص ہے۔ ہریش کوئی کروڑ پتی نہیں، کوئی سیاستدان نہیں، کوئی سماجی اور قبائلی اور مذھبی رہنما نہیں۔ لیکن وہ ایک بہت بڑا انسان ہے۔

دنیابھرمیں موت اورخوف کی علامت کروناوائرس نے تباہی مچائی ہے۔غریبوں کے چولہے بجھ رہے ہیں۔دیہاڑی اور روزانہ کمائی کرنے والے مزدور، ریڑی بان، ہوٹل کے چھوٹو، سب پریشان۔ایسے ایسے سفیدپوش لوگ بھی ہیں جن کے گھرمیں کھانے کو کچھ نہیں۔شرم اورغیرت کی وجہ سے وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے۔ چند ایک کے سوا، شہر کے نام نہاد بڑی شخصیات، خیرخواہ، ہمدرد، فرزند، فخر، بابا، ماما، چاچااور سوشل میڈیا کے ممتاز سیاسی، سماجی اور قبائلی شخصیات نام نہاد این۔جی۔اوز۔نئے پرانے عوامی نمائندے ناظم شاظم چوکوں پر گرجنے برسنے والے سیاسی اور مذہبی مقررین سب روپوش ہیں۔ویسے غریبوں کا دکھ غریب ہی سمجھ سکتاہے۔

ہریش اور اس کے چھوٹے بھائی منیش جو جی۔این۔شاہ ٹریڈرز کوئٹہ سے منسلک ہیں۔ یہ دونوں کافر ہندواور ہمیشہ ہم جن کو،،بخال،،کہہ کر ان کا مذاق اڑانے والے۔ ہریش اور اس کے چھوٹے بھائی اور چند دیگر نوجوان ہندووں نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔انھوں نے مشورہ کیا کہ شہرکے غریب لوگ کوروناکے باعث بھوک کے شکارہیں۔ہم کچھ نہیں کرسکتے کم از کم 100 سے زیادہ گھرانوں کو اپنی جیب سے راشن دینگے۔ اور انھوں نے فوراً اس پرعمل بھی کیا۔ اور ان عظیم ہندووں نے زات پات نسل، مذہب سب کو بھلاکر 100 غریب مسلمان اورہندو گھرانوں کو راشن دیا۔

میرے ساتھ صحافی ظہور گل جمالدینی اوربرکت زیب نے اپنی آنکھوں سے یہ عظیم کام ہوتےدیکھا۔ہریش کہہ رہے تھے کہ ہم نے غربت دیکھی، ہم بہن بھائی راتوں کوبھوکا سوتے۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ بھوک کیاہوتی ہے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ ہندو ہے یامسلمان لہٰذا اب ہم کسی کو بھوکا نہیں دیکھناچاہتے۔ہریش نے شہرکے چند کروڑ پتی ہندو سیٹھوں کے بارے میں(موٹی گالی دیتے ہوئے) کہاان کے گودام بھرے ہوئے ہیں۔میرا مقصدان کے ضمیرکو جھنجھوڑناہے۔شہرمیں لوگوں کے معصوم بچے بھوکے ہیں اور یہ ۔۔۔۔۔۔

دوسری جانب میں دل ہی دل میں سخت شرمندہ ہورہاتھاکہ ہریش ہندو سرمایہ داروں کو جھنجھوڑ رہاہے اور ہمارے مسلمان ،،کروڑ پتی حاجی صاحب،،2400 والے آٹے کی تھیلی کو 3000 میں فروخت کررہاہے۔ ہریش ہندو ہوکر مسلمانوں کی مدد کررہاہے۔کیاہم نبی اکرم( ص) کی امتی ہونےکے دعویدار اس عظیم پیغمبر کی طرح اپنے ہندواورغیر مسلموں سے وہ سلوک کررہے ہیں جسکا حکم ہمیں دیاگیاہے؟ ہمارے کروڑ پتی حاجی صاحبان، میرصاحبان، کہاں مرگئے ہیں؟ خدا کی قسم اگر ہم صرف اپنی ذکوٰة کی رقم صحیح خرچ کریں تو ایک سال تک کوئی بھوکھانہیں رہے گا۔

شکریہ ہریش، منیش، ہندو برادری کے انسان دوست نوجوانوں، تم لوگ جس دھرم، جس گھر،جس خاندان سے تعلق رکھتے ہو۔خدا کی قسم تم لوگ بہت بڑے انسان ہو، بہت عظیم انسان ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔