ایک بلوچ بیٹی کی ادھوری کہانی – غنی بلوچ

1034

ایک بلوچ بیٹی کی ادھوری کہانی

 تحریر : غنی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پورے بلوچستان میں آگ لگی ہوئی ہے ، آوازیں ، خوشبوئیں ، بصارت، شوق ، احساس، ذہن ، دل ، دماغ ، جسم ، تصورات سب دھڑا دھڑ آگ میں جل رہے ہیں، نفرت ، محبت ، پیدائش ، بڑھاپا ، مایوسی، گریہ وزاری ، موت ، رنج والم ، دکھ سب اس آگ میں آلاؤ اور ایندھن کا کام کر رہے ہیں ۔ نہ جانے کتنوں کی خواہشات اور احساسات بھی جل کر بجھ گئی ہیں ۔ اسی طرح ماہ رنگ بلوچ بھی شوق اور خوشبوؤں کولے کر نہ جانے کتنے خواہشات دل میں لیئے ہوئے تھی لیکن اس آگ میں یہ سارے راکھ بن کر اُڑ گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ جنگ میں انسان نہیں رہتے، صرف نام رہ جاتے ہیں لیکن یہ لڑکی کہہ رہی تھی یہ سب مل کر مجھے اس لڑائی میں کیوں گھسیٹتے ہیں آخر میرا کیا قصور ہے۔ مجھے تو کسی کو نہیں مارنی ہے ۔ مجھے ان کی جان بہت پیاری ہے ان سب کی جان بچانی ہے مجھے کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ اپنوں کی جان جانے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔

ماہ رنگ بلوچ سے اس وقت لوگ واقف ہوگئے جب ان کے والد شہید غفار لانگو کو ریاستی خفیہ اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کیا اور اُس عمر کم سنی میں جب اس کے کھیلنے کودنے کے دن تھے باپ کے کندھوں پر بیٹھ کر دنیا کے سیر کرنے کے دن تھے لیکن ماہ رنگ یہ دن بھی روڈوں پر بیٹھ کر دنیا کی طرف دیکھ رہی تھی لیکن سیر کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنی باپ کے کندھوں کو ڈھونڈے کیلئے جس کے ذریعے انہیں دنیا کو دیکھنا تھا ۔والد مل سکا لیکن مسخ شدہ لاش کی صورت میں ۔ ابھی کندھے اس کم سن ، نحیف اور ناتواں لڑکی کے تھے جنہیں والد کی لاش کو کندھا دینا تھا اور پھر انہی کندھوں پر اپنے خاندان کا بھی بوجھ اٹھانا تھا۔ یہ لڑکی باپ کے مسخ شدہ لاش سمیت اس بے حس اور خود غرض دنیا کو بھی دفن کر چکی تھی اور فرسودہ روایات کو پاؤں تلے روند چکی تھی ۔ شاید وہ یہی سوچی ہو گی کہ میرے پس منظر میں خون ہے ۔ میری چاروں طرف خون ہے ۔ مجھے اتنے سارے خون کا کفارہ کس طرح ادا کرنا ہو گا۔ کیونکہ بلوچ قوم بسنے اور ارتقاء سے لے کر آج تک ان کی معرفت، ان کے فلسفہ سرزمین میں انسانوں کے خون (چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے کے خون ہو ) کا بڑا عمل دخل ہے۔ ان کی کوئی تاریخ بغیر خون کے نامکمل ہے۔

تیروں کی سنسناہٹ، ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی جھنکار، عورتوں اور بچوں کے رونے اور چیخنے کی صداؤں کی خوفناک بھنور میں اس کی اپنی آواز دب نہیں گئی بلکہ اور ابھر گئی۔

وقت گذرتا گیا، سامراجی جنگ کے زہریلے اثرات اور خطرناک پالیسیوں نے بہتوں کے دماغ اُلٹ دیئے تھے، بہت سے لوگ حاکم اور محکوم ، ظالم اور مظلوم کے جنگ میں مظلوموں کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ صلح جوئی اور موقع پرستی کا اثر اور جادو سیاسی تارکین وطن میں بھی پھیل گئی تھی، کچھ لوگ اپنی سیاسی گناہوں کیلئے توبہ کرکے ریاست کی پالیسیوں کی حمایت کرکے ظالموں کی خدمت کرنے لگے لیکن اسی دوران ایک دفعہ پھر ماہ رنگ بلوچ روڑوں پر نکل آئی کیونکہ اس کے بھائی کو لاپتہ کیا گیا تھا۔ اس جنگ میں موقع پرست جتنے نیچے گرتے گئے اتنی ہی زیادہ ماہ رنگ بے خوف ہوکر لوگوں کے سامنے آتی گئی، جس نے اس خونی ہنگامے میں ٹھوس اور سیدھا راستہ چن لیا تھا۔

بس پھر کیا تھا کہ یہ بلوچ لڑکی اپنے لوگوں کے جذبات کا مجسمہ بن گئی، انہوں نے بڑی بے باکی اور بے تکلفی سے مظلوموں کی وکالت کی۔ فرسودہ قبائلی روایات کو پاؤں تلے روند کر آگے چل رہی ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ ماہ رنگ نہ صرف بلوچوں میں بلکہ دیگر اقوام مثلاً پشتونوں میں بھی مظلوم طبقے کی ساتھی ہونے کی علامت بن گئی ہے ۔ ان کا ہر عمل بلوچ قوم کے کاز کی خدمت کرنے اور اس کی نیشنلزم کی راہ پر رہنمائی کرنے کے عظیم فریضے کو نبھا رہی ہے۔

انہوں نے ہمیشہ بلوچستان کو مقدم رکھا، جس میں مظلوم اقوام رہتے ہیں، وہ بلوچستان جس کے لیے ہر کسی کو جدوجہد کرنا ہے وہ بلوچستان جس کو پھر سے بنانے کی ہرکوئی آرزو رکھتا ہے ۔

بہت سی چیزیں اپنی جگہ، جن پر بات ہوسکتی ہے، لکھا جاسکتا ہے لیکن یاد رہے تاریخ انسانی میں ایسے شخصیات ہوتے ہیں جو کسی آنے والی تبدیلی کے ناگہانی طوفان کی پیداوار ہوتی ہیں اور اُس پورے دور پر نشان چھوڑ جاتے ہیں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ قوت ارادی کی حامل ایسی ہی ہستیوں میں سے ہیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔