بلوچستان یونیورسٹی انتظامیہ کی مزید پابندیاں تعلیم دشمن منصوبہ ہے – بی ایس او

116

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ حالیہ جامعہ بلوچستان کے شرمناک سکینڈل سے پورے یونیورسٹی کی ساکھ تباہ ہوئی ہے جس سے بلوچستان بھر کے باسیوں کے روح بھی مجروح ہوئے ہیں جبکہ قوم منتظر ہے کہ یونیورسٹی اپنا متنازعہ چہرہ صاف کرے اور مجرموں کو سزائیں دے مگر اس کے برعکس رجسٹرار آفس سے ایک اور متنازعہ نوٹیفکیشن جاری کرکے یونیورسٹی انتظامیہ نئی سخت گیر پالسیاں لاگو کرنے جارہی ہے جس کے تحت جامعہ کے طلبہ و طالبات کیلئے یونیفارم پہن کر کیمپس میں داخل ہونے کی پابندی لازمی قرار دے دی گئی ہے۔

مرکزی ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی میں پہلے سے انتہائی سخت گیر ڈسپلن ہی تھا جس نے جامعہ کے ایک عام ملازم سے لیکر منیجمنٹ لیول تک کے منتظمین کو اس قدر طاقتور کیا جس سے وہ طلبہ و طالبات کو ہراساں کرنے اور ان کا ناجائز فائدہ اٹھانے پر اتر آئے جبکہ یہ اضافی ان کیمپس ڈسپلن طلباء کو مزید دباؤ میں رکھ کر زیادہ گھمبیر نتائج کا موجب بنے گا۔ یونیورسٹی لیول کے سٹوڈنٹس کا یونیفارم پہن کر آنا آدھی جیل جیسی یونیورسٹی کو پورا جیل خانہ میں تبدیل کر دینے کے مترادف ہے۔

مرکزی ترجمان نے مزید کہا ہے کہ طلباء ان کیمپس آذاد سانس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور طلبہ نمائندگی کو بحال کرنے کیلئے سراپا احتجاج ہیں جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ مزید انتظامی ڈسپلن لاگو کر کہ بچے کچے سانسوں کو بھی بند کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے جوکہ ایک منصوبہ بند تعلیم دشمنی کی پالیسی کو عیاں کرتی ہے۔

بی ایس او کے ترجمان نے واضح کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ایسے کرتوتوں سے باز آجائے اور کیمپس میں پرامن و آزاد علمی ماحول کو پنپنے دے اور خصوصی طور پر کوشش کرے کہ حالیہ سکینڈل سے جو طلباء اور اساتذہ کے درمیان جو مقدس رشتہ داغدار ہوا ہے اس رشتے کو بحال کرنے میں جت جائیں۔ ایسی بے جا پابندیاں اور انتظامی بندشیں یونیورسٹی کو مزید تباہی کے طرف لے جائیں گی اور علم و آتشی کی فضاء مزید متاثر ہوگی اس لیئے بی ایس او ایسے مکروہ پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے بھرپور مزاحمت کرے گی اور جامعہ میں پرامن عملی فضاء کے قیام کے ساتھ طلباء نمائندگی کی بحالی تک جدوجہد جاری رکھے گی۔