کامریڈ تاریخ آپ سے ناواقف ہے یا استاد بدنیت ؟ – امبربلوچ

320

کامریڈ تاریخ آپ سے ناواقف ہے یا استاد بدنیت ؟

تحریر: امبربلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وہ باتونی نہیں تھے، تب ہی تو باتوں میں وزن رکھتے تھے، وہ حب الوطن تھے تب ہی تو کڑتے رہتے تھے، وہ غریب پرور تھے تب ہی تو خاموش تھے، وہ انصاف پسند تھے تب ہی تو متوسط زندگی گزارتے تھے، وہ چیزوں کو پرکھتے تھے تب ہی تو ضدی تھے، وہ نفرت کو رد کرنے کیلے محبت سے ملتے تھے، اور محبت کا احساس دلانے کیلے ناراض بھی ہوتے تھے وہ سچ کے بندھن باندھتے تھے،جھوٹ کو دھتکارتے تھے، وہ کل اور آج کا واضح فرق تھے جس کے پاس بیٹھ کر آپ اجنبیت محسوس نہ کرتے تھے بوریت کا شائبہ نہ تھا بے چینی،بے ثباتی چھوکر نہ گذرتا تھا اور جو باتوں کو بھنگ میں محفوظ نشے کی طرح گھول گھول کر پلانے کا فن جانتے تھے جو لسانی ثقافتی،تاریخی،ادبی،سیاسی گفتگو پر مہارت رکھتے تھے،بحث مباحثہ سے اپنے علم میں اضافہ کرنے کا گر جانتے تھے۔وہ قومی ہیرو تھے انھوں نے نہ صرف بلوچستان کے نوجوانوں کو شعور بخشا بلکہ پاکستان کا ہر وہ طبقہ جو ظلم کی چکی میں پس رہاتھا اس کیلے آواز بلند کی۔ کامریڈ کے پرستاروں میں وطن کے نوجوان بلدادہ تھے۔وہ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے سیاسی رفیق اور دست راست تھے۔نواب خیر بخش مری کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔جبکہ سردار عطاء اللہ خان مینگل کے خاص دوستوں اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے بزرگ رہنما تھے۔

کامریڈعبدالحق ایک مدبر سیاستدان اور ایک قوم پرست لکھاری کے نام سے جانے جاتے ہیں۔انھوں نے سیاست کا آغاز گورنمنٹ پرائمری سکول مستونگ میں قومیت اور سوشلزم کے بارے میں مطالعہ سے کیا تھا۔1956ء میں جب وہ میٹرک کے طالب علم تھے تو انھیں چوہدری عطاء محمد نامی ٹیچر جو لٹ خانہ گروپ کے ہم خیال تھے،انھیں قومیت و حقوق کے متعلق سمجھایا کرتے تھے،پس یہیں سے کامریڈ عبدالحق محمدشہی نے سیاست کی ابتداء کی۔

کامریڈ 1936 فروری22 ء میں کلی محمد شہی مستونگ میں میر کریم داد محمد شہی کے گھر میں آنکھ کھولے ابتدائی تعلیم مستونگ سے حاصل کرنے دوران ہی والد صاحب کے ساءے سے محروم ہوگئے۔جبکہ والدہ مراد بی بی نے اپنے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر عبداللطیف سمیت دونوں بیٹوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دیکر انھیں اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے تگ ودو میں تھی کہ انکی زندگی نے بھی وفا نہ کی۔ گھر کا بوجھ بڑے بیٹے عبدالحق پر آن پڑ ی، اس نے اپنا تعلیم جاری رکھنے اور اپنے چھوٹے بھائی عبداللطیف کو ڈاکٹر بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تو وہ کوئٹہ ریلوے میں بابو بھرتی ہوئے،اور ساتھ ساتھ پڑھنے کا شوق بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا، کچھ وقت کے بعد ریلوے سے بابو کی نوکری چھوڑ کر کوئٹہ میں دکان کھول دی اورتجارت شروع کی مگر بابو کا نام ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے منصوب ہوگیا۔

1998میں دی بلوچستان نیوز کے ایک صحافی نے ”بلوچ ورنا پارٹی“ کی بنیاد رکھنے سمیت سیاست کے داو پیچ بارے ان سے پوچھا تو انھوں نے کہاکہ ”جب میں فسٹ ایئر کیلے گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ میں داخلہ لیا تو اسی دوران دوسرے طلباء سے مل کر ”بلوچ ورنا“ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ جس کے صدر عزت عزیز کرد جبکہ جنرل سیکٹری عبداللہ جان احمد زئی نامزد ہوئے۔ چند ماہ بعد خان آف قلات احمد یار خان نے پیغام بھیج کر ہمیں قلات بلایا انھوں نے ہمیں بتایا کہ ”صدر سکندر مرزا نے مجھے بتایا ہے کہ آپ تحریک بلوچستان کے حوالے سے کچھ چیخ پکار کریں تو میں بلوچستان کو آزاد کردوں گا“اور دبے الفاظ میں خان قلات نے کہا کہ میں نے اسی بناپر تحریک بلوچستان سے شروع کی ہے۔ لہذا آپ نوجوان میرا ساتھ دیں ہم نے ان سے چار سوالات کئے۔آپ (خان)اور نیپ کے اختلافات کیا ہیں؟ آپ آزاد بلوچستان یا اسٹیٹ چاہتے ہیں؟ بلوچستان کو آزاد کرنا چاہتے ہیں تو اس کا محل وقوع کیا ہوگا؟ کیا آپ اس کیلے عوام میں اسلح تقسیم کرنا پسند فرمائیں گے؟ان سوالات کے جواب دیئے بغیر خان قلات روپڑے اور مجلس سے اوجھل ہوگئے۔ اکتوبر 1958 ء میں سکندر مرزا نے ملک میں مارشلا نافذ کردیا اور تمام سیاسی پارٹیوں پر بین لگا دیا اور خان آف قلات احمد یار خان گرفتار ہوئے اس کے فوراََبعد میں بھی ساتھیوں سمیت گرفتار ہوگیا۔(گرفتاری بعد کامریڈ کے تعلیم کا سلسلہ رک گیا طویل عرصے بعد 1967ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ سے ایف اے،اور لاہور یونیورسٹی سے سیکنڈ ڈویژن میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔)بالآخر چند ماہ کے اندر کالج کے طلبہ کی ہڑتال اور پرنسپل کے مداخلت پر ہمیں رہا کیا گیا۔جبکہ دوسری جانب نواب نوروز خان اور دوسرے بلوچ رہنما وٗں نے خان قلات احمد یار خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاجاََ پہاڑوں میں روپوش ہوگئے ایک عرصہ تک یہ خونی لڑائی جاری رہی کئی بلوچ شہید اور بے گھر ہوگئے۔پھر نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو حکومت نے قرآن پا ک کا واسطہ دیکر مذاکرات کی دعوت دی۔جب وہ پہاڑوں سے اترے تو انھیں مذاکرات کے بجائے گرفتار کرکے نواب نوروز خان کو عمر قید اور اسکے دوسرے سات ساتھیوں کو پھانسی،سکھر اور حیدر آباد جیل میں دی گئی،اور انکی نعش میں اور دیگر دوساتھیوں نے حکومت سے لیکر بذریعہ سڑک قلات پہنچا دیئے۔

حکومت کی ظلم و جبر ہم پر جاری تھی کہ آغا سلطان ابراہیم خان احمد زئی اپنے صاحبزادے آغاظاہر اور حنیف بلوچ کے ساتھ افغانستان جلاوطن ہوگئے۔ جب وہ کابل پہنچے تو ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور وہ خود ھلاک جبکہ دوسرے ساتھی زخمی ہوئے تین روز بعد آغا عبدالظاہر کو گرفتار کرکے کلی کیمپ پہنچادیا گیا۔ جہاں انھوں نے بلوچستان کے چیدہ چیدہ لوگوں کے نام ڈر اور خوف کی وجہ سے دیئے۔ افغان بیلٹ سے ملک عبدالعلی کاکڑ،یوسف پیر علی زئی اچکزئی،ہاشم خان غلزئی اور ملا تارن جبکہ بلوچ بیلٹ سے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو،بدل خان زرکزئی،میر گہورکان زرکزئی سمیت مجھے بھی گرفتار کرلیا گیا۔ تمام ازیت کے حربے آزمانے بعد مایوس ہوکر ہمیں کلی کیمپ سے ہر ایک کو اپنے اپنے علاقائی جیلوں میں شفٹ کیا گیا، جہاں ضمانت پر ہمیں رہائی ملی۔

اس دوران صدر ایوب خان پاکستان کے حاکم تھے قصہ مختصر ایوب کے بعد جنرل یحیی ٰ خان نے اقتدار سنبھالا تو میر غوث بخش بزنجو اور عطاء اللہ خان مینگل،عبدالولی خان سے مل کر ہم نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا نیشنل عوامی پارٹی نے بلوچستان اور سرحد میں واضح اکثریت حاصل کرکے بلوچستان میں وزیر اعلی عطاء اللہ خان مینگل جبکہ گورنر میر غوث بخش بزنجو منتخب ہوئے۔سرحد میں نیپ اور جمیعت علماء اسلام کے مشترکہ فیصلے کے نتیجے میں مفتی محمود خان وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔بدقسمتی سے نواب اکبر خان بگٹی جو نیپ میں رہتے ہوئے باقاعدہ ممبر شپ نہیں لی تھی کے سبب گورنر بلوچستان منتخب نہ ہوسکے اور گورنر شپ کیلے ذوالفقار علی بھٹو سے ساز باز کرکے عراقی اسلحہ کا ڈرامہ رچایا اسی طرح نوماہ کی مدت میں نیپ گورنمنٹ کو ختم کیا گیا۔ اور سرحد میں مفتی محمود خان نے احتجاجاََاستعفیٰ دے دیا، جس کے بعد بگٹی گورنر بلوچستان منتخب ہوئے۔ انھوں نے حیدر آباد سازش کیس کی ابتداء کی جس کے نتیجے میں میر غوث بخش بزنجو،عطاء اللہ خان مینگل، خان ولی خان،نواب خیر بخش مری، گل خان نصیر،شیرو مری وغیرہ کو حیدر آباد جیل جبکہ مجھ سمیت دوسرے ساتھی رہنماوں کو کوئٹہ جیل میں رکھا گیا۔

انکے گرفتاری کے نتیجے میں لوگ ایک بار پھر پہاڑوں کی طرف نکل گئے نتیجتاََ کئی بلوچ نوجوان شہید کئے گئے۔ پھر ضیاء الحق نے
ہمارے رہنماوں کے ساتھ مذاکرات کرکے ہمیں رہا کردیا۔ اور تمام کیس بھی دفن کردیئے حقیقتاََ جومن گھڑت کیس بنائے گئے تھے۔رہائی بعد میر غوث بخش کے ساتھ مل کر ہم نے نیشنل پارٹی بنائی،جبکہ عطاء اللہ خان مینگل لندن اور خیر بخش مری اپنے قبائل کے ساتھ افغانستان جلاوطن ہوگئے۔جس کے بعد بلوچستان میں حق خود ارادیت کے بے معنی آواز بلند کرتے ہوئے تھک گئے“۔ انھوں نے کہاکہ ”جب نواب خیر بخش مری میرے ہاں آنے کی خواہش کی تو انھیں ویکم کیا جب پہنچے تو بات جہاں سے ختم ہوئی تھی وہاں سے شروع کی، جو کہ آف دی ریکارڈ ہیں اگر زندگی نے ساتھ دی تو آن دی ریکارڈ کی ضرورت پڑی ضرور اجازت دوں گا تاہم اتنا کہوں گا کہ چنگاری اب بھی بلوچ کے دل میں ہے۔“

کامریڈ عبدالحق کی دوسرے قومی خدمات اور ادبی خدمات پر کسی اور مضمون میں لکھنے کی کوشش کرونگی تاہم یہ انٹرویو پڑھنے بعد بھی بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر فاروق بلوچ جوکہ ہسٹری کے جانے مانے استاد کہے جاتے ہیں،کامریڈ کے تاریخ سے نابلد ہوکر کامریڈ کے بارے میں یہ بات کہا کہ وہ بیکار انسان ہی تھے،اسکے بچے بھی نکمے ہیں تو ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں بچتا، تاہم پروفیسر حضرات سے دردمندانہ اپیل ہے کہ مانا کہ ہم اور آپ صر ف مطالعہ پاکستان کے پیداوار ہیں ہمارے بزرگوں کے بارے میں ہمیں پڑھایا نہیں جاتا پھر بھی ہماری قومی ذمہ داری ہے اپنے بزرگوں کی ہسٹری بارے خود تحقیق کریں، پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں ساتھ ہی ساتھ کوئی جاننے والے مہربان نے ان کے بارے میں معلومات چاہا تو بجائے اس کے اسکی کردار کشی کریں صاف الفاظ میں کہیں کہ اس شخصیت بارے میں نے کچھ نہیں پڑھا ہے۔اس بات سے کم سے کم اس کے خاندان یا چاہنے والوں کی دل آزاری نہیں ہوگی۔

کامریڈ عبدالحق محمد شہی 12 اکتوبر 2002 کو ء دل کا دورہ پڑنے سے اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔