شہید کچکول مجھے معاف کر دینا – نوتاک بلوچ

488

شہید کچکول مجھے معاف کر دینا

تحریر: نوتاک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید کچکول بلوچ ایک عظیم سپاہی، نظریے سے لیس، پختہ اور وسیع سوچ کا مالک تھا۔ فکر و سوچ’ خواب’ آرزو اور ارادوں کی بنیاد پر ہی انسان آسمانوں کی بلندیوں پرپہنچ جاتا ہے، شہید کچکول ایک ایسا سپاہی تھا، جو وطن کے لیے دل میں ہزار درد رکھتا تھا۔ جو اس قوم کے اندر سوچ و فکر پیدا کرنے کے لیے ہر وقت جہد کرتا تھا۔ شہید کچکول نے کم عمری میں ہی بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے کام شروع کردیا، اور بہت ہی کم عرصے میں اس نے بہت سی چیزوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔

وہ ایک ایسے گاؤں میں پیدا ہوئے جہاں نظریے نے وقتی اور ذاتی مفادات کے لیئے جنم لیا، وقت کے ساتھ اور ریاست کی مظبوط حکمتِ عملی نے وہاں پر جذباتی نظریے کا گلا گھونٹ دیا، مگر نظریاتی سوچ اور جذبے کو ختم نہ کر سکا، شہید کے اندر وہ نظریاتی سوچ اور جذبہ ہی تھا جس نے وقت اور حالت کا مقابلہ کیا اور ایک عظیم مقصد کے لیے قربان ہو گیا۔

11 مئی 2019 ایک ایسا دن تھا، جب شہید کچکول اور ان کے ساتھیوں نے دنیا اور پاکستان کو یہ واضح پیغام دیا کہ بلوچ سرمچار اپنے ساحل اور وسائل کی حفاظت کے لیے ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں، ہر وہ دیوار توڑ سکتے ہیں جس پر ریاست کا قبضہ ہو۔ بلوچ، ریاستی ہر اس دعؤے کو ناکام بنا سکتا ہے جو وہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، گوادر جسے قابض ریاست نے اپنے لیئے ایک محفوظ شہر بنایا ہے۔ شہید کچکول اور اس کے ساتھیوں نے اندر داخل ہو کر ایک حساس جگہے کو قبضے میں لے کر ریاست کو جانی و مالی نقصان پہنچایا، دنیا میں اپنے آپ کو نمبر ون پیش کرنے والے اداروں کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔

ہر روز کی طرح اسی شام کو دوستوں کے ساتھ کسی ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی رہا تھا اور نیوز بار بار دیکھ رہا تھا، شک بھی تھا کہ ان میں سے ایک شہید کچکول ہوسکتا ہے، اسی کشمکش میں تھا کہ ان کی تصویریں منظر عام پر آ گئیں اور شہید ان میں شامل تھا، آنکھیں نم سی گئیں اور ماضی یاد آنے لگا، میرے اندر شرمندگی سی کیفیت بیدار ہونے لگا، بھلا ہم شرمندہ کیوں نہ ہوں جب وہ حال پوچھنے کے لیے میسج کرتا تو ہم اس کو بلاک کرتے تھے، ملنے کا بولتا تو ہم انکار کرتے تھے، مجھے آج بھی یاد ہے جب اس کے واٹس ایپ پروفائل پر کسی انڈین ایکٹریس کی تصویر تھی، میں نے مزاحیہ انداز میں اس سے پوچھا کیا ارادہ ہے ، تو مسکرا کر بولنے لگا ایسا کچھ نہیں بس جس بھی دوست سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو کوئی جواب نہیں دیتا بلاک کرتے ہیں، یہ تصویر اس لیے لگایا تاکہ ایک دو بات کر سکوں ان سے اور وہ مجھے پہچان نہ لیں یا ان کے اندر ڈر کم ہو جائے، کتنے خود غرض تھے ہم، اپنی جان پچانے کے لیے اس سے دور ہونے کی کوشش کرتے تھے، جب بھی اس سے بات ہوتا تو گلے شکوے سے یہ ظاہر ہو جاتا کہ وہ بہت دل برداشتہ تھا۔

یہ باتیں میں اس لیئے کر رہا ہوں کہ وہ ہمارے درمیان رہ کر اپنی منزل تک پہنچ گیا، اس نے قومی فرض ادا کرلیا، مادر وطن کی آزادی اور اپنے نئے آنے والے نسل کی خوش حالی کے لیے ان شہیدوں کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ جنہوں نے بلوچ قوم کو آزادی دلانے اور غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ناپاک آرمی کے ساتھ برسرپیکار رہے۔

شہید کچکول مجھے معاف کر دینا، ہم آج بھی وہی سوچ اپنائے ان چیزوں سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ ہمارا نظریہ دم توڑ رہا ہے، سوچ معذور ہوتا جارہا ہے، ریاست جس سوچ کو ہم پر مسلط کرنا چاہ رہا ہے ہم اسی سوچ کو اپنا کر آ گے چل رہے ہیں، آج ہم غیر ضروری چیزوں میں وقت ضائع کررہے ہیں۔ اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کی مظلومیت پر تحریر لکھ رہے ہیں، اپنے شہیدوں کے نام تک بھول رہے ہیں، ان ے کردار و عمل اور قومی فرض فراموش کرچکے ہیں، ماما کے کیمپ کے سامنے نہیں گذرتے اب، تنگ نظر ہوتے جارہے ہیں، غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ماننے لگے ہیں، بالاچ اور قمبر کی کتابیں لاپتہ ہوتی جارہی ہیں، ہم محفلوں میں بیٹھ کر حسن و چال پر بات کررہے ہیں، کشمیر، برما اور فلسطین کے مسلمانوں کے حال پر روتے ہیں، آج ہم ریولوشن کے بجائے الیکشن کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں، ذاتی مفادات کے لیے ریاستی لیڈروں کو اپنا لیڈر ماننے لگے ہیں۔ آج ہم ایک نئے بندے سے مل کر پہلے ذات، زبان، نمازی، ذکری یا گرل فرینڈ کا پوچھنے لگے ہیں۔

شہید کچکول مجھے معاف کر دینا اب آپ کے نظریے کو درمیانی نظریے میں تبدیل کرنے کے لیے چند ریاستی دانشور سامنے آ رہے ہیں، شہید مجھے معاف کر دینا، آپ جس نظریے کے تحت قومی جدوجہد میں شامل ہوگئے تھے، وہ نظریہ اب ہم میں نہیں رہا وہ جوش و جذبہ ہم سے بچھڑ گیا۔

شہید کچکول مجھے معاف کر دینا، ہم آپ کی لاش تک لینے گوادر نہیں گئے ۔ کتنے بزدل ہیں ہم ، ہمیں معاف کردینا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔