گیارہ اگست جذبہ آزادی کو زندہ رکھنے کا زریعہ ہے – بلوچ نیشنل لیگ

158

بلوچ نیشنل لیگ کے آرگنائزر ڈاکٹر علی اکبر بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ گیارہ اگست بلوچ سیاسی تاریخ میں اہمیت کا حامل اور ایک تاریخ ساز دن ہے یہ1839سے لے کر 1947تک ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے ،برٹش توسیع پسندوں کے انخلاء کے بعد11اگست 1947کو بلوچ ریاست کو دنیا کے نقشے میں ایک آزاد قومی ریاست کی شکل میں تسلیم کیا گیا۔

آرگنائزر نے کہا کہ تاج برطانیہ کے خلاف بلوچ قوم نے ایک انتھک، طویل سیاسی سفارتی اور مزاحمتی جدوجہد کی جو انگریزوں کی بلوچستان میں عملداری اور اثر و رسوخ کے لئے کافی مشکلات پیدا کی ایک طرف برصغیر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی تو دوسری طرف بلوچ قوم بھی اپنی آزادی اور وطن کی حفاظت کے لئے جدوجہد کا سلسلہ تیز کردیا ،مری علاقوں سمیت مکران جھالاوان اور بلوچستان بھر میں انگریزی قبضے  کے خلاف بلوچ برسرپیکار تھے اگرچہ برٹش توسیع پسندوں نے بلوچ جغرافیہ کو بے رحمی کے ساتھ تقسیم کرکے مشترکہ بلوچ آبادی کے درمیان خونی لکیریں کھینچ کر بلوچ قوم کو بیک وقت مختلف ممالک کے ساتھ جنگ میں دھکیلا دیا بلوچ قوم کی قوت کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن بلوچ قوم اپنی جدوجہد اورکوششوں سے بلوچستان کے ایک وسیع حصے کو انگریزوں سے آزاد کرایا گو کہ جنگ عظیم دوئم کے تباہ کاریوں نے انگریزوں کے کمر توڑدیئے تھے اور وہ اس خطے سے جانے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن انہوں نے جاتے جاتے بلوچستان کی آزادی و خودمختیارحیثیت کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیاکہ بلوچستان کی حیثیت برصغیر کے دیگر ریاستوں کی طرح نہیں بلکہ یہ ایک آزاد و خودمختار ملک ہے۔

لیکن 28 مارچ 1948 ریاست پاکستان نے نہ صرف بلوچ جمہوری ایوانوں کی فیصلوں کی خلاف ورزی کی بلکہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے طاقت کے زور پر بلوچستان کا قبضہ کرتے ہوئے ایک آزاد و پر امن قوم کو طویل غلامی میں دھکیل کر ان کی آزادی غصب کی ،اگرچہ ریاست پاکستان اس الحاق کو اس وقت کے بلوچ حکومت کے آئینی سربراہ احمد یار خان کے ساتھ جھوٹے معاہدوں کے ساتھ جوڑ کر کے اسے قانونی قرار دینے کے بارہا مضحکہ خیز کوششیں کرتی ہے لیکن بلوچ اکثریتی پارلیمان کا فیصلہ ریاست کے اس بے بنیاد موقف پر ایک زور طمانچہ ہے، احمد یار خان نے اپنے خودنوشت سوانحوں میں اس بات کا بارہا زکر کیا ہے کہ الحاق جبری تھا فوجی طاقت کے زریعہ بلوچ انتظامیہ کو ختم کیا گیا۔

ڈاکٹر علی اکبر نے کہا کہ جبری الحاق کروڑوں بلوچوں کی رائے اور منشاء کے خلاف ہے اسے کوئی قانونی و اخلاقی جواز حاصل نہیں برٹش توسیع پسندوں نے خطے میں جو تنازعات پیدا کئے بلوچ مسئلہ اس میں سب سے بڑا تنازعہ ہے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کو دہرا معیار ترک کرکے حل طلب بلوچ قومی مسئلہ کے حوالے سے اصولی بلوچ موقف کو غیر مشروط طور پر تسلیم کرتے ہوئے بلوچ وطن پر جبری تسلط اور ڈیورنڈ و گولڈ سمتھ لائن کی غیر فطری حیثیت کو سمجھتے ہوئے آزاد و متحدہ بلوچستان کے قیام میں بلوچ قوم کا ساتھ دیں اور بلوچ قوم کو اپنے آزادی کے حوالہ سے دنیا بھر میں آزادانہ سفارت کاری کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایک زندہ قوم کی حیثیت سے ہم آج گیارہ اگست کو بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے منا رہے ہیں۔