میڈیکل کالج سے پریس کلب تک کا سفر – سلطان فرید شاہوانی

88

میڈیکل کالج سے پریس کلب تک کا سفر

تحریر: سلطان فرید شاہوانی

دی بلوچستان پوسٹ

یہ سفر اتنا طویل تو نہیں ہے، چند دنوں کی بات ہے کہ جب بلوچستان کے نوجوان ایک نئے مستقبل اور زندگی کی سب سے اہم مرحلے کے آغاز کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے اور وہ پھولے سما نہیں رہے تھے کہ اب وہ میڈیکل کی کتاب اور سفید کوٹ پہن کر اور ہاتھ میں Stethoscope لے کر اس کلاس میں اپنا پہلا قدم رکھیں گے، جہاں انسانیت کی خدمت کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے. جہاں مسیحا بننے کی تعلیم دی جاتی ہے. جنہیں ہم عرفِ عام میں “ڈاکٹر” کا نام دیتے ہیں.

لیکن جب آنکھ کھلی تو میڈیکل کالج کے بجائے روڈ پر تھے. میڈیکل کتاب اور Stethoscope کے بجائے ان کے ہاتھوں میں بینرز تھے.

لکھوں تو کیا لکھوں اس خواب کے بارے میں جس کے لیئے یہ الفاظ ہی کم پڑ جاتے ہیں. یہ کوئی عام ساخواب نہیں بلکہ یہ ان نوجوانوں کے مستقبل کا خواب ہے. جو وہ بچپن سے دیکھتے آ رہے ہیں. جس خواب کے لیئے ان نوجوانوں نے اپنی راتوں کی نیندیں قربان کر دیئے تھے. جس خواب کے لیئے انہیں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں. جس خواب کے لیئے وہ صبح سویرے قطاروں میں کھڑے رہتے تھے. جس خواب نے انہیں بلوچستان کے دوردراز شہروں سے کوئٹہ آنے پر مجبور کیا.

ہر صبح اسی امید سے وہ اٹھ جاتے کہ شاید آج انہیں وہ خبر مل جائے جس کے لیئے ان کی آنکھیں، کان بچپن سے بے تاب ہیں لیکن افسوس کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ناامیدی میں اضافہ ہوتا گیا اور بالآخر انہیں واپس اسی پریس کلب جانا پڑتا ہے، جو ان کے خواب کا حصہ تھا ہی نہیں.

وہ یہ کبھی سوچتے ہی نہیں تھے کہ انہیں میڈیکل کالج کے بجائے پریس کلب جانا پڑےگا اور Stethoscope کے بجائے بینرز اٹھانے پڑیں گے، اب تو ہر روز میرے دماغ میں یہ سوالات گردش کرتے رہتے ہیں کہ کیا اب بلوچستان کے طالب علموں کو خواب دیکھنا چھوڑ دینا چاہیئے؟ کیا اب والدیں اپنے لخت جگروں سے یہ امیدیں وابستہ نہ کریں کہ ان کے بچے علم حاصل کرکے اچھے اور کامیاب انسان بن جائیں گے؟ کیونکہ اب تو یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ حکمران نہیں چاہتے ہیں کہ ہم علم حاصل کریں.

پریس کلبوں پر جانا اور احتجاج کرنا اب تو ہمارے لیئے روز کا معمول بن چکا ہے. پہلے تو ان نوجوانوں کو ان میڈیکل کالجوں کے قیام اور آغاز کے لیے اپنے کئی مہینے برباد کرنے پڑے. پھر ان کے ٹیسٹ کے لیئے. اب ان کی کلاسز کے آغاز کے لیے انہیں واپس انہی روڈوں پر آنا پڑا. کل ان کالجوں میں سہولیات کے لیے انہیں روڈوں پر آنا پڑے گا. اب ایسا لگتا ہے ان پریس کلبوں اور بینرز کو ہم سے پیار ہوگیا ہے جو ہمیں چھوڑنے کا نام تک نہیں لیتے یا یہ اب ہمارے مستقبل کا لازمی حصہ ہیں.

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس ایک ٹویٹ پر اسمبلی کے فلور پر 5 گھنٹے فضول بحث کرنے کا ٹائم ہے لیکں اس قوم کا مستقبل سنوارنے والوں کے بارے میں بات کرنے کے لیے 5 منٹ تک نہیں.

ٹھیک ہی کہا تھا ایک دوست نے، “بلوچستان وہ خوش قسمت صوبہ ہے جہاں ہر چیز روڈ پر مل جاتی ہے.”

خدارا! ان مستقبل کے معماروں کا خواب ٹوٹنے نہ دیں، بلوچستان کے نئے میڈیکل کالجوں (جھالاوان ،مکران، لورالائی) کی ایڈمیشن لسٹ جلد آویزاں کر کے ان کا مستقبل بچائیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔