جب ضمیر مرجائے تو سرفراز بنتے ہیں ۔ سمیر جیئند بلوچ

692

جب ضمیر مرجائے تو سرفراز بنتے ہیں

تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قدیم یونانی فلسفی، سائنسدان اور ہر عہد کا عظیم مفکر ارسطو، جس کا اصل نام ارسطاطالیس تھا نے فرمایا کہ’’عقل وہ جوہر ہے جو انسان کو فضیلت مآب بناتاہے، سلسلہ نسب کسی واسطے باعث فخر نہیں ہوسکتا نسبی فضیلت پر فخر کرنے والا احمق ہے‘‘۔ سکندر اعظم کے استاد کی صرف اس لفظ ’’نسبی‘‘کی تشریح کریں، تو مجموعی طورپر اگر کسی انسان میں معمولی شعور ہے وہ اور وہ اس بات پر فخر کرتا یا کرتی ہے تو نادم ہوگا۔ حالانکہ بات صرف خاندانی رشتے کی ہے، اگر یہ نِسبی کسی غیر اخلاقی، غیر مہذب، فاشسٹ، وحشی، جابر قوم پنجابی سے تعلق رکھتا ہوتو میرے خیال میں یہاں فلسفہ جھاڑنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور ہم اپنے مدعے کیساتھ، ہیرامنڈی لاہور پہنچ جائیں گے۔ یعنی جس کا نسب وہیں سے ہو تو چلو بھر پانی میں ڈوبنے کا مقام فوراً پہنچ جائے گا۔

جب سرفراز نام نہاد بگٹی یا کوئی اور بلوچ قومی غدار، یہ اعلانیہ فخر کرے اور ڈینگے مارے کہ میرا نسبی تعلق اسی پنجابی ہیرا منڈی اور اس کے فوج سے ہے تو کوئی ذی شعور اسے صرف عقل سے عاری ہی نہیں بلکہ مردہ ہی قرار دینے پر مجبور ہوگا۔ اگر ہم بات یا بحث کو کچھ مذید الفاظ کی جوڑتوڑ سے آگے بڑھاتے ہیں تو ہمیں اس مدعے کے ساتھ اتفاق کرنا ہوگا کہ کوئی شخص، ضمیر سے بیگانہ ہو، قومیت سے عاری، اخلاقی اقدار سے پیدل، ہوس اقتدار اوربوٹ پالش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ہو، پیسے کیلئے اتنا اندھا ہو کہ اپنے ماں، باپ، بہن، بھائیوں کو بیچتا تک ہو، کیا اس کے باوجود ہم اسے زندہ کہنے پر بضد ہونگے؟ نہیں تو ایسا ہی کردار جس کا منحوس نام پہلے آچکا ہے مردے کے نام سے جانا جائے گا۔ ویسے بلوچ سماج اور قبائل چاہے مینگل، زہری، ساسولی، محمد حسنی، ساجدی، مری، بگٹی، لانگو، لہڑی، جمالی، مگسی، چانڈیا، لغاری، زرداری ،رند، لاشاری، رخشانی وغیرہ ہوں، سب میں بہت سارے مردہ ضمیر ہاتھ آئیں گے، جو مادروطن بلوچستان کو مزید غلامی کے چکی میں پسنے کیلئے دن رات پنجابی کے سامنے نہ صرف خالی ناک رگڑتے ملیں گے بلکہ ڈائریکٹ یا انڈائریکٹ ،ان قومی سپوتوں کا راستہ روکنے کے مختلف ہیل حجت کرکے جس میں قتل اغواء بھی شامل ہے، اپنا منہ کالا کرتے ہوئے ملیں گے۔

یہ مردہ ضمیرلوگ تما م غداری کے کام کرنے کے بعد نہ کوئی شرم محسوس کریں گے، نا ڈوب مریں گے۔ بلکہ دھڑا دھڑ اپنے ماں، بہن، بھائیوں کے سامنے سینہ تان کر مردہ ضمیر کے ساتھ چل پھریں گے۔ جبکہ دشمن کے سامنے یہی نمک حرام بھیگی بلی بن کر ان کے اردگرد میاؤں میاؤں کرتے ہوئے التجائی انداز اپنا کر یہ مکروہ تجویزدینے کی کوشش کریں گے کہ اگر حضور کے کھانے کے بعد کوئی کھانے کی چیز باسی بچی ہو تو کم سے کم میاؤں میاؤں سے چھٹکارا پانے کی خاطران کے سامنے پھینکا جائے تو عنایت ہوگی۔ پیٹ بھر کر کھانے کے بعد بندہ قومی غدار، نہ صرف بلی سے کتا بن کر پوری زندگی مالک کے آگے پیچھے دم ہلاتا رہے گا بلکہ اس کے احکام نہ ماننے والوں کی مخبری بھی کرنے کیلئے تیار ہوگا۔ تاہم مخبری اور بک بک کرنے کیلئے پھر مالک کو یہ شرط پورا کرنا ہوگا کہ اسے محلے کے کچھ شرارتی بچوں (بلوچ سرمچار)سے محفوظ رکھنے کیلئے اس کی چوکیداری کرکے خیال داری کی جائے۔

یہاں چوکیدار کو اپنے مالک کے کتے کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اضافی فرائض بھی تفویض کیئے جانے ہونگے۔ یعنی اس کے علاوہ درندگی کے چارٹر میں آقا کو یہ بھی شامل کرنا ہوگا کہ وقتاً فوقتاً ان شرارتی بچوں کے خاندان سمیت ان پڑوسیوں کو بھی سبق سکھانے کا عہد کرنا ہوگا، تسلسل سے انکے بچے اٹھاکر زندانوں میں پھینکنے ہونگے، کبھی انکے لاوارث لاش بھی اس حالت میں پھینکی جائیں گی کہ انکے خاندان والے انہیں پہچاننے سے قاصر ہوں۔

اسی طرح، ان کے املاک، لوٹنے کے بعد انھیں آگ لگائی جائے گی اور مال مویشیوں کو ہانکا جائے گا۔ ان اقدامات سے جناب کے پانچوں انگلیاں گھی میں ہونگے کیونکہ غلام خوف کھاکر کچھ وقت کیلے سہم جائیں گے اور قبضہ مزید طول پکڑے گا۔ تاہم ہم آقا کے نمک حرام جب یہ دیکھیں گے کہ یہ بچے(دھرتی کے بیٹے سرمچار)آقاء کی ٹانگین اٹھاکر اسے زمین پر پٹخنے کی آخری حد پار کررہے ہیں تو جو ہمارے بس میں ہے یعنی بھونکنا وہ کرتے رہیں گے۔

جیساکہ حالیہ دنوں گوادر ہوٹل پر حملہ ہوا تو ہم فواراً اس واقعے کو زائل کرنے کیلئے انکے لیڈروں کے خلاف بھونکنا شروع کریں گے۔ اس کی واضح مثال مہا بے ضمیر سرفراز بگٹی کی ہے، جس نے ڈاکٹر اللہ نذر کو چیلنج دیتے ہوئے بھونکنا شروع کیا کہ میں آواران آوَں گا مجھے کیا کروگے؟ اسی کے نقش قدم پر چل کر ہم بھی آقا کے سرفراز بگٹی بن جائیں گے۔ تاکہ آزادی پسند اپنے اصل کامیابی کا شور چھوڑ کر ہمیں بھگانے لگیں گے اور اس طرف آقا اپنے مکروہ کام سرانجام دیں گے یعنی دھڑادھڑ اٹھاو،مارو، پھینکو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔