مگر جنگ ہو – زرین بلوچ

152

مگر جنگ ہو

 زرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب سے پاکستان و ہندوستان کا تنازع جنگی حد تک آپہنچا ہے، تب سے گونگے بھی بول پڑے ہیں، ہر طرف “ جنگ سے انکار” کے ترانے گائے جا رہے ہیں، اور گانا بھی چاہیئے، کیوں جنگ ہوں؟ ہر کوئی زندہ رہنا چاہتا ہے اپنوں کو زندہ دیکھنا چاہتا ہے اپنے گھروں کو بموں سے کھنڈرات میں تبدیل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا، جنگی جہازوں کی خوفناک آوازیں نہیں سُننا چاہتا، مگر ان جنگ نہ چاہنے والوں کے بیچ ہم جیسے کچھ لوگ جنگ ہونے کی دعائیں بھی کر رہے ہیں، اور پھر سے لوگ ہمیں غدار، ہندوستان کا زر خور کہہ رہےہیں، ان حضرات کا علم اتنا کم ہے کہ جیسے آپ اپنی زندگی کے لیئے گڑ گڑا رہے ہو، ہندستانی بھی اُسی طرح مرنا نہیں چاہتے بلکہ ان میں آپ سے سو گُنا زیادہ انسانیت ہے، وہ آپکو بھی مارنے سے پہلے ایک بار دُکھی ہونگے ضرور، مگر ہم ایک بار بھی نہیں ہونگے، ہم چاہتے ہے کہ جنگ ہو، وہ درد ناک موت جو تُم ہمیں دیتے آئے ہو، تمیہں بھی اسکا ذائقہ چکھنا نصیب ہو۔ ہمارے جھونپڑیاں جلا کر تم راکھ کرتے ہو، تمہارے محلات بھی برستے بموں سے ملبوں میں تبدیل ہو جائیں، ہم چاہتے ہیں کہ جنگ ہو، ہماری مائیں جب رات رات جاگ گر اپنے لاپتہ بیٹوں کے واپس نہ آنے پر تھک کر سوجاتے ہیں، تُمہاری مائیں بھی تمہارے جنگ سے واپس نہ آنے پر تھک کر سو جائیں۔ ہمارے جو لاشیں مسخ کرکے تم ویرانوں میں پھینکتے ہو، جو گل سڑ جاتے ہے اورپہچانے نہیں جاتے ہیں، ہم چاہتے ہیں تُم بھی گل سڑ جاو نیپام بم اور فاسفورس بم تُمہاری زندہ جسموں کو اسے طرح گلا دیں جس طرح تم ہمارے لاشوں کو تیزاب سے مسخ کرتے ہوں۔

ہم چاہتے ہیں کہ جنگ ہو، جس طرح ہماری لاشوں کو کفن نصیب نہیں ہوتا، وہ اجتماعی قبروں میں تمہارے ہاتھوں دفن ہوتے ہیں، اسی طرح جنگ میں تمہاری لاشیں سڑکوں پہ پڑے ہوں اور انکی بدبوں سے تنگ آکر تم انہیں بغیر کفن کے چون چھڑک کر ایک کھڈے میں چھپا دو، ہم چاہتے ہیں جناب جنگ ہو۔

اور جب تمہارا کوئی سپاہی دشمن کے قبضے میں آجائے، تو اسے درجنوں مل کر ساتھ پیٹیں، پھر اس پر ایک ساتھ مل کر لا تعدادگولیاں برسائیں، ہم چاہتے کہ جنگ ہو، جس طرح تم ہمارے گھر میں گھستے ہو اور ہمیں غدار کہہ کر مارتے ہو، اسی طرح تمہارے دشمن کے سپاہی تمہارے ملک میں آزاد گھومیں اور تمہیں ہی دن دھاڑے، تمہارے اپنوں کے سامنے قتل کردیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جنگ ہو، جس طرح تم آدھی راتوں کو ہمارے گھروں میں گھستے ہو جب ہماری ماں بہنیں ننگے سر تمہارے سامنے آجاتی ہیں اور معصوم بچے حیرت سے آنکھیں ملتے ہیں، پھر تم گھر کا پرزہ پرزہ ہلا دیتے ہو، مردوں کو پکڑکر لے جاتے ہو اور گھر کو جلادیتے ہو، ہم چاہتے ہیں تمہارے بھی گھر والے اس خوف میں سو نہ پائیں کہ رات کو دشمن آۓ گا، گولیاں برسائے گا۔ ہمارے گھروں میں کبھی چولہا نہیں جلتا تو کبھی فاقوں سے سینکڑوں مر جاتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ جنگ ہو تاکہ تم بھی دانوں کے لیے ترسو، تمہارے گھر میں بھی چولہا نہ جلے، تمہارے بیمار بھی ہسپتال نہ پہنچیں، تمہارے لوگ بھی چُھپنے کے لیے پہاڑ ڈھونڈیں، تمہارے لوگوں کو بھی احساس ہو کہ جنگ میں ہر شخص کو باغی جنگ ہی بناتا ہے۔ تمہارے یا کسی اور ملک کے ٹکڑے نہیں، جب تمہارے گھر میں دشمن گھس جاتا ہے اسی دن جنگ شروع ہو جاتی۔

خوں کے لال رنگ سے ہم بھی ڈرتے تھے مگر اب نہیں، بارود سے جلے لاش کو ہم بھی دیدار نہیں کر سکتے تھے، مگر اب کر لیتے ہیں، ہماری اوپر گھومتی آگ برسانے والے جہازوں سے پہلے ہمیں بھی خوف آتا تھا مگر اب نہیں، کبھی ہم بھی آپکی غلامی کی زندگی کو موت کے سامنے چُنتے ہیں، مگر اب ہم موت کو چنتے ہوئے ہچکچاتے نہیں، ہمیں بھی بھائی بیٹوں، بیٹیوں کی لاشیں اُٹھانا بھاری لگتا تھا مگر اب نہیں، ہم خون میں تر، بغیر سر و انتھڑیوں کے لاشوں کو دفنانے سے بھی نہیں ڈرتے، ہمارے گھروں میں ماتم ہوتاہے، مگر سوگ نہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک ماتم کے لیئے دن کم ہوتے ہیں۔ ہمارے علاقوں، گلیوں، محلوں، گھروں، غرض ہر چیز پر تمہاری حکومت ہے۔ ہمارے سپاہیوں کو خراج عقیدت نہیں آپکی دی ہوئی غداری کا تحفہ ملتا ہے، ہم بھوک افلاس میں زندگی سے ڈرتے تھے تم نے ہمیں بھوک میں زندہ رہنا سکھا دیا، ہم اندھیروں سے ڈرتے تھے تم نے بس ہمیں اندھیرے ہی دیئے یقیناً یہ سب تمہارے فوج نے کیا ہم پر، مگر تمہارے عوام نے بھے ہمارے مرگ پر جشن منائے رکھا، ہم چاہتے ہیں جشن منانے والے بھی جنگ دیکھیں۔ ہم چاہتے ہیں جب کوئی بلوچ روئے تو آپکی مراعات خور عوام خوشیاں نہ منائے، انہیں پتہ چلے کہ جنگ آسان نہیں! انکے ناک کو بھی خون کی کچی بو اور کبھی گوشت کی جلتی ہوئی بو سونگھنے کو ملے، انکے کان بھی جہازوں کی خونی آواز کو محسوس کریں، انکے کندھوں کو بھی اپنوں کے لاشوں کا بوجھ نصیب ہو، انکی آنکھیں بھی رو رو کر تھک جائیں اور پھر کسی دن رونا بھول جائیں، انہیں بھی یاد آجائے کہ انسانیت لفظ وہ جو بولتے تھے کس طرح انکے سامنے دم توڑتی ہے، بلوچ نہیں چاہتا کہ جنگ ہو مگرتمہارے ظلم نے جو باغی بچے جنے ہیں، وہی چاہتے ہیں کہ جنگ ہو۔

آپکے عوام کی وہ ہنسی جو بلوچ کے ماتم پہ نکلتی تھی وہی چاہتی ہے کہ جنگ ہو، بلوچ آج بھی انسانیت کے تقاضے جانتا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ جنگ ہو مگر تمہارا ڈھایاہوا ہر ظلم ، برسایا ہوا ہر قہر، نازل کیا گیا ہر عذاب یہی “چاہتا ہے کہ جنگ ہو” بھلے انڈیا کے ہاتھوں ،ایران یا افغانستان یا پھر بلوچ کے ہاتھوں ، “مگر جنگ ہو۔”

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔