تحقیق، فیصلے اور بلوچ قومی مفاد – واھگ بلوچ

341

تحقیق، فیصلے اور بلوچ قومی مفاد
یو بی اے، بی ایل ایف اور 6 رکنی کمیٹی کی میڈیا بیان کے تناظر میں

تحریر: واھگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ میری حسیات کا مرہونِ منت ہے کہ جنہوں نے مجھے مختلف زاویوں میں کائنات بشمول جاندار اور بے جان، انکو دیکھ کر، سن کر، سونگھ کر، چک کر، چھو کر، محسوس کر کے سوچنے اور سمجھنے کی کوششوں میں لگا دیا ہے، لیکن اس چیز کا اندازہ اب تک نہیں کہ یہ حسیات کس حد تک اپنا کام اچھے اور مؤثر طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں اور ان سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے یا مل جاتا ہے وہ کس حد تک مؤثر اور عملی ہے۔ نتیجہ مل بھی جاتا ہے یا نہیں؟ کیا کسی چیز کو سوچنےاور سمجھنےکیلیے اتنا کافی ہوتا ہے؟

اپنی کمزوریوں، خامیوں اور کوتاییوں کو لیکرآج پھر لکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں، اور مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ایسے اور بھی ہیں جو کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، شاید اب بھی ہم اپنی خود غرضی، مفاد پرستی جیسی چیزوں سے لڑ رہے ہوں؟ پتہ نہیں کب ان سے نکلے اور کچھ کرنے کا راستہ صاف دکھائی دے۔ آج کے حالات کودیکھ کر کوئی بھی بلوچ، بلوچ قومی مفاد کےلئے کچھ کرنے کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے، اس ضرورت کی شدت کس میں کتنی ہے؟ اس کا اندازہ مجھے نہیں؟ اور کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ بھی سوال پیچھا نہیں چھوڑتا، آ جاتا ہے تنگ کرنے، پر ہم اس سوال کا یا تو قتل کرتے ہیں، یا اس کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ پھر ایک اور سوال کے کون دکھائے راستہ، کون اور کیسے اس ضرورت کو سمجھائے؟ بلوچ و بلوچستان کے بارے میں کس نے کیا اور کتنا لکھا ہے؟ یہ مواد کہاں سے مل جائے گے؟ اور یہ کتنے اتھینٹک ہیں؟ اور کس سیاسی، یا مسلح بلوچ فرزند نے اپنے تجربات کس سے شیئر کیئے یا یوں کہیئے کہ انہوں کیا لکھاہے؟ لکھا بھی ہے یا نہیں؟

اور پھر ہمیں یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ابھی بلوچستان کے حالات خراب ہیں، سختی زیادہ ہے، ڈر ہر طرف، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ ہم کون سے حالات کا انتظار کر رہے ہیں؟ جتنا میرا علم ہے حالات کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتے ہیں، ماضی کے حالات کیا تھے؟ مستقبل میں کیا ہونا؟ اور سب سے زیادہ ضروری آج کے حالات اورانہی حالات میں آج کا مؤثر فیصلہ کیا ہونا چاہیئے؟

سوالوں کا تخلیقِ پذیر ہونا عام بات ہے، پر ان سوالوں پر تحقیق کتنا ہورہا؟ بلوچ و بلوچستان پر آج تک کیا تحقیق ہوئی ہے؟ کتنا ہو رہا ہے؟ تحقیق کا معیار کیا ہے؟ اور آج کن مسئلوں پر تحقیق سب سے زیادہ ہونا چاہیئے؟ تحقیق ہونا بھی چاہیئے یا نہیں؟ ان سب میں بلوچ قوم کا مفاد؟ اندرونی و بیرونی معاملات، حالات کو کس طرح بلوچ قوم اور بلوچستان کے مفاد میں موڑ سکتے ہیں؟ کیا تحقیق ہو رہی ہے؟ کیا ایسا ہونا چاہیئے؟ اگرایسا نہیں پھر کیا اور کیسے ہونا چاہیئے؟ یا پھر یوں ہی وقت پاسی کریں؟ پر کیوں؟

میں اتنا ہی لکھ پا رہا ہوں، میرے علم نے مجھے یہاں تک محدود کیا ہوا ہے۔ کیا اتنا کافی ہوتا ہے؟ شاید میں خوش فہمیوں میں مبتلا ہوں۔ بغیر تحقیق کے یہ خوش فہمیاں یوں ہی خوش فہمیاں ہی رہیں گی اور نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنا۔ کوئی ریاست یا تنظیم اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتا، جب تک تحقیق کو اس کا بنیاد نہیں بناتے۔ تحقیق کے بغیر انتظامی کام چلانا، یا کرنا وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں، (کوئی کرشمہ ہونا الگ بات ہے، جس کا وجود ہے یا نہیں،یہ پتہ نہیں)۔ کسی بھی تنظیم میں تحقیقی ادارہ اسکی مضبوطی کی طرف پہلی سیڑھی کی مانند ہوتا ہے۔ آج بلوچ و بلوچستان کے مفاد کےلئے جو تنظیمیں بنی ہیں سیاسی یا مسلح، ان میں تحقیقی ادارہ یا ہر ادارے میں تحقیقی شعبے کا وجود ہے؟ یا اس پر کام ہو رہا ہے؟ اور ان حالات میں کیسے ہونا چاہیئے؟

24 فروری 2019 کو دی بلوچستان پوسٹ پر یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے ترجمان مرید بلوچ کی طرف سے ایک بیان نظروں سے گذرا، جس کا ٹائیٹل کچھ یوں تھا:
“شہید جنرل اسلم بلوچ کی بنائی گئی کمیٹی نے بی ایل ایف، یو بی اے تنازع کا تصفیہ کر دیا۔”

یہ پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ یوبی اے اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے درمیان یہ تنازع چل رہا تھا، جس کو مختلف مسلح تنظیموں سے 6 رکنی کمیٹی نے حل کیا، اچھا ہے یہ مسئلہ حل ہو گیا، اتحاد اور یکجہتی کی طرف ایک مثبت اقدام۔ (اتنا ہی سمجھ پایا، جب بیان میڈیا میں پڑھا)۔ لیکن کچھ ہی گھنٹوں کے بعد اسی حوالے سے ایک اور بیان کمیٹی کی طرف سے جاری ہوتا ہے، جومیں نے دی بلوچستان پوسٹ پر پڑھ لیا جو یوں تھا:
” یو بی اے ترجمان نے مصالحتی کمیٹی کے فیصلوں کو توڑ مروڈ کر پیش کیا۔” اب اس پر مجھے حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ کمیٹی اور یو بی اے کے بیان میں اتنا فرق مجھے نظر نہیں آیا، سوائے کمیٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی کے (کمیٹی سے پہلے یو بی اے کا میڈیا پر جاری بیان)۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یو بی اے سے خلاف ورزی کے بارے میں کون پوچھے گا؟ کیا یو بی اے کے اندر کوئی ایسا ادارہ موجود ہے جو اس حوالے سے ترجمان سے پوچھ لے؟ یا صرف بیان کی حد تک ایک چھوٹی سی غلطی تصور کر کے اگنور کیا جائے گا؟ کیا یوبی اے اسکا جوابدہ نہیں؟ جوابدہ ہے تو کس کو جوابدہ ہوگا؟ خود اپنی تنظیم کو یا کمیٹی؟ یا اس پر ایک نئی کمیٹی بنائی جائے گی؟

کیا چیز کن حالات میں، کب اور کس حالت میں پبلک کرنا ہے، اس پر میں خود تذبذب کا شکار ہوں۔ اندرونی اور بیرونی حالات اور معاملات کو کیسے دیکھنا ہے کیا کرنا ہے، یا ایسی ایک غلطی، کوتاہی کن حالات کو جنم دیتا ہے؟ اور آخر کیونکر ایسا ہوا؟ (ایک الگ بحث ہے)۔

ان سب کے باوجود میں پھر بھی مطمئن ہوں کہ تنازع کمیٹی نے حل کروایا، اور پھر وہی بات کہ اسکا حل ہونا اتحاد اور یکجہتی کےلئے ایک مثبت قدم ہے۔ اور اسی میں بلوچ قوم کا مفاد ہے۔ اور بس خود کو تسلی دیتا رہا کہ باقی کمی اور خامیاں بھی ختم ہونگی جب مل کر کام کر لیا جائے۔ اندرونی مسئلے حل ہو رہے ہیں، جن کی ابھی اشد ضرورت ہے۔ ایک عام طالب علم کی حیثیت سے اس مثبت عمل پر پُرامید ہوں۔

ایک روایت چلی آرہی ہے کہ کبھی امید کا پلڑا بھاری تو کبھی نا امیدی۔ اور پھر اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اُمید اور حوصلوں سے منزل کی طرف محوِسفر ہونا۔ میں بھی انہی روایتوں کا ایک کمزور سا پاسدار۔ میری اس امید کی زندگی کچھ زیادہ نہ تھی، جب 25 فروری 2019 کو بی ایل ایف کا مذکورہ تنازع پر ایک بیان دی بلوچستان پوسٹ پر شائع ہوا، جس کا ٹائیٹل کچھ یوں تھا:
“مرید بلوچ کے بیان اور مصالحتی کمیٹی کے فیصلے کو مسترد کرتےہیں۔”
لیکن یہاں میں حیرانی کے بجائے ششدر رہ گیا۔ یو بی اے کا کمیٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی، اور اس کے بعد بی ایل ایف کا دونوں یو بی اے کا بیان اور کمیٹی کے فیصلے کو مسترد کرنا۔ اب سوال تو جنم لیتے ہیں۔ کمیٹی کی تحقیق اور فیصلہ؟ یو بی اے کی کمیٹی کی اصولوں کی خلاف ورزی؟ بی ایل ایف کا اس فیصلے کو “جیورس پروڈنس کے تمام اصول، قوانین و روایات، بلوچی رسم و رواج اور انقلابی نظم و ضبط کی تقاضوں کے بالکل برعکس اور تعجب خیز” قرار دے کر مسترد کرنا؟ اصل واقعہ، کمیٹی کا فیصلہ، بی ایل ایف کا میڈیا بیان؟ کیا کمیٹی کی تحقیق اور فیصلے اصولی نہیں یا پھر بی ایل ایف کا بیان صرف بیان ہے؟ دونوں فریق یوبی اے اور بی ایل ایف کے الگ اپنی اپنی تنظیمی فائنڈنگزاور کمیٹی کی فائنڈنگز، ان سب کا موازنہ اور آخر میں کمیٹی کا فیصلہ۔ کیا ایسا ہے؟ کیسا ہے اور کیا ہونا چائیے؟ (یہ ایک الگ بحث ہے)۔

سب سے اہم سوال کہ یہ میڈیا کی زینت کیسے بنی؟ کیا کمیٹی اپنے فیصلے میڈیا پر سناتی ہے؟ یا یو بی اے کا کمیٹی کی اصولوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے یہ میڈیا کی زینت بن گئی؟ کیا اب کوئی اور بیان میڈیا پر جاری ہوگا یوبی اے یا کمیٹی کی طرف سے؟ یہ سب ہونے کے بعد اب تنازع کی نوعیت کیا ہے؟ کیا ایک دوسری کمیٹی بنی گی یا اس پر وہی کمیٹی دوبارہ بیٹھےگی؟ کہاں کیا بحث ہو رہی؟ تنازع حل ہوا بھی کہ نہیں؟ اب آگے؟ تنازع حل ہوگا یا نہیں؟ کب ہونا ہے؟

ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟ ان کا جواب کیسے ملے گا؟ حالانکہ تحقیق کا بنیادی جز “سوال” ہے جن کا ہم قتل کرتے ہیں یا مسخ کرتے ہیں۔

آج پوری دنیا اس خطے بلوچستان، کشمیر، افغانستان، پاکستان، انڈیا، ایران، سعودی عرب، چائنا، امریکہ وغیرہ پر بحث کر رہے ہیں۔ اور ہم کس چیز پر بحث کر رہے ہیں، کس پر تحقیق کر رہے ہیں اور کن اصولوں پر؟ اب جب حالات بہت جلد کوئی بھی موڑ لے سکنے کی حالت میں ہیں۔ بلوچ قومی مفاد کیا ہیں؟ کیا اندرونی اور بیرونی معاملات میں قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر سائنسی بنیادوں پر تحقیق ہو رہا ہے؟ کتنا ہو رہا ہے؟ کل کیا ہونا چاہیئے؟ اور آج کا فیصلہ کیا ہے؟

بلوچ سیاسی یا مسلح تنظیموں کی اداروں کی تشکیل پر کیا کام ہو رہا ہے؟ کیسے ہو رہا ہے کتنا ہو رہا ہے؟ اگر ادارے ہیں تو کن اصولوں پر ہیں کتنے مضبوط ہیں؟ تحقیقی ادارے یا ہر ادارے کا الگ سے تحقیقی شعبہ ہونے سے تنظیم اپنی منزل کو کامیابی سے ہمکنار کر لیتا ہے، مشکلات کا آسانی سے سامنا کر پائیں گے۔ شرط مفاد پرستی، خود غرضی، بغض کو سمجھ کر ان سے نفرت کا ہے اور قومی مفاد اور انسانیت منزل ہو۔ اب یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ قومی مفاد کو مدِنظر رکھ کر تحقیق کون کرے؟ آج کون بلوچ قومی مفاد کی خاطر تحقیقی کام کر رہا ہے؟ آج کتنا لکھنے کی ضرورت ہے؟ کتنا بحث ہو رہا ہے؟ اور کیا کیا ہونا چاہیئے؟ آخر میں بس یہی کہوں گا کہ بلوچ فرزند، بلوچ و بلوچستان کے مسئلوں سے بری الذمہ نہیں ہیں خواہ وہ کوئی بھی بلوچ ہو۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔