واقعہ توتک اور ماں ۔ برزکوہی

656

واقعہ توتک اور ماں

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

نپولین عظمت کیلئے فرانسیسیوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ” تم مجھے عظیم مائیں دو میں تمہیں ایک عظیم قوم دونگا” آج بحثیت قوم ہم بلوچ جس تاریخی عظمت کا دعویدار ہیں، وہ یقیناً عظیم بلوچ ماوں کی ہی دھان ہے۔

اس عظمت کے گواہ بلوچستان کے کوہ و صحرا ہیں، جو ان شیر زال ماؤں کی داستانیں اپنے سینے میں آنے والی نسلوں کو سنانے کیلئے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ آج سے پورے 8 سال قبل پیش آنے والے ایک حقیقی اور تاریخی واقعے اور کردار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ کاش! ہمارے دانشوروں کے پاس میکسم گورکی جیسی صلاحیت، ہمت اور وقت ہوتا تو پافل ولاسوف کی ماں کے کردار کی طرح اس ماں کے کردار کو بھی امر کردیتے۔ کاش! اس ماں کے کوہ گراں کردار کو الفاظ کے لڑیوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ پرویا جاتا کہ تاریخ اس کردار کا وزن اور ان لمحات کا الم اپنے پرنوں سے کبھی ماند پڑنے نا دیتا۔

یہ واقعہ روس، چین، فرانس، الجزائر، ویتنام، کیوبا وغیرہ میں پیش نہیں آیا اور نہ ہی یہ ماں کوئی روسی، فرانسیسی، کیوبن یا ویتنامی ماں ہے بلکہ یہ میری اور آپ کی اپنی دھرتی بلوچستان کے علاقے توتک کی ایک بلوچ ماں کی تاریخی و حقیقی کردار اور واقعہ ہے۔

جی ہاں! 8 سال قبل جب پاکستانی فورسز خضدار کے علاقے بلبل پشک اور مولی کے دامن توتک سرداری شہر پر صبح سویرے حملہ آور ہوئے تو پاکستانی فوج کے حملے کے خلاف اس شہر کے دونوجوان نعیم جان قلندرانی اور یحیٰ جان قلندرانی اپنے سرپر کفن باندھ کر اپنے نظریاتی دوستوں کو گھیرے سے نکالنے اور بچانے کے خاطر دیدہ دلیری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے اور درجنوں فوجی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو جہنم واصل کیا۔ فورسز نے ردعمل میں سیخ پا ہوکر نعیم جان کے 80 سالہ والد محترم و بزرگ حاجی رحیم خان قلندرانی، ان کے 40 سالہ بڑے بھائی ڈاکٹر طاہر قلندارانی، بھانجے عتیق قلندرانی، وسیم قلندرانی، خلیل قلندرانی اور باقی قریبی رشتہ دار آفتاب قلندرانی اور مقصود قلندرانی سمیت 25 نوجوانوں کو گرفتار کرلیا اور شہید نعیم کے گھر سمیت درجنوں مزید گھروں کے سازوسان لوٹ کر، گھروں کو آگ لگادی۔

دوران حراست چند مہینے بعد مقصود جان کو شہید کرکے اس کی تشدد زدہ لاش ویرانے میں پھینک دیا گیا اور کچھ رہا کردیئے گئے اور باقی لگ بھگ 18 بندے 80 سالہ حاجی رحیم خان قلندرانی سمیت آج تک لاپتہ ہیں، ان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے کہ وہ زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں۔

جب صبح 6 بجے سے سخت سردی اور موسلا دھار بارش میں آپریشن شروع ہوا اور شام 7 بجے جب فورسز واپس چلے گئے، تو وہ سرسبز و شاداب اور خوشیوں کے گہوارے توتک کو میدان الم میں تبدیل کرچکے تھے، ہر طرف آگ و دھواں اور چیخ و پکار ہی بچا ہوا تھا۔ ایسے عالم میں فوج کے چلے جانے کے بعد فوراً شہید نعیم جان کی ماں نے اپنے اس بیٹے کو فون کیا جو آپریشن کے دوران گھیراو سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اور اس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا “(کنا چنا ) میرے بچے! مجھے جلدی سے بتا دو کہ تمہارے ساتھی کیسے ہیں؟” بیٹے نے جواب دیا ” اماں جان دوست خیر خیریت سے ہیں” ماں نے انتہائی خوشی سے جواب دیا ” یا اللہ تیرا شکر ہے کہ ساتھی سلامت ہیں۔” وہ ماں جس کا جگر گوشہ، سب سے چھوٹا بیٹا چند گھنٹے پہلے انہی ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے کیلئے شہید کیا گیا، 80 سالہ شوہر کو ایک بیٹے سمیت فوج گرفتار کرکے لے گئی، جس کے کئی بھانجوں اور رشتہ داروں کو فوج گھسیٹتے ہوئے ہمیشہ کیلئے لے گئی اور اسکی آنکھوں کے سامنے تنکا تنکا کرکے اسکے بنائے گھر کو سامان سمیت آگ لگادی گئی، اسے کسی چیز کا پرواہ نہیں اور پھر بھی شکر بجا لارہی ہے، اور شکر کس لیئے بجا لارہی ہے کہ وہ ساتھی بچ گئے جن کے ساتھ اسکا کوئی رشتہ و تعلق نہیں تھا، نا وہ اسکے قبیلے کے فرد تھے نا خاندان کے رکن، اگر کوئی تعلق تھا تو وہ محض فکر و نظریئے کا رشتہ۔ اس مستند حقیقت سے کوئی باعلم اور ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کا سب سے عظیم، بڑا، اٹوٹ اور مقدس رشتہ، نظریاتی و فکری رشتہ ہے۔ اس کے علاوہ اور کسی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

بہادر لاڈلے اور چھوٹے بیٹے نعیم جان اور رشتے دار یححیٰ جان کے خون سے لت پت لاش کے قریب برپا چیخ و پکار اور سسکیوں کی طوفان میں اور اس کربناک ماحول اور حالت میں بھی خون میں لت پت جگر گوشے کے بجائے فکری سنگتوں کے غم میں غلطاں ہونا اور فون پر نظریاتی دوستوں کی خیر خیریت دریافت کرنا، اپنے دیگر زندہ نکلنے والے بیٹوں اور رشتہ داروں کا بھی نہیں پوچھنا یہ خود کیا ہے؟ کیا یہ بلوچ تحریک، بلوچ وطن، بلوچ قوم اور قومی آزادی کے ساتھ سچی کمٹمنٹ، ایمانداری، خلوص، سچائی اور وفاداری نہیں ہے؟ کیا یہ جرت و بہادری نہیں ہے؟ کیا موجودہ بلوچ تحریک میں بلوچ ماوں کی تاریخی اور عظیم کردار نہیں ہے؟

آج شہید نعیم کی عظیم ماں کے علاوہ ہزاروں ایسے بہادر نظریاتی مخلص اور عظیم مائیں بلوچ تحریک کے ساتھ عملاً وابستہ ہیں، ان کا آج بھی تحریک میں ایک متحرک اور فعال کردار موجود ہے، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اس تحریک کو کیا کوئی بھی طاقت، حالت اور قوت ختم کرسکتا ہے؟ کیا بلوچ قومی تحریک اب بانجھ ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں، جب مائیں اس طرح تحریک کے ساتھ ہوں اور جہدکاروں کے لیئے حوصلہ و ہمت ثابت ہوں تو جہدکاروں کے قدموں کی آہٹ اور حوصلوں کو کوئی مائی کا لال بے حوصلہ نہیں کرسکتا، انکے حوصلوں کو پست کرنے والا باطل وجود نہیں رکھتا، ایسی ماؤں کے لال ہی دھرتی ماں کے اصل وارث ثابت ہوتے ہیں، ایسی مائیں صرف بچے نہیں جنتے، وہ تاریخ جنتے ہیں۔ آج ہر ایک ایسی بلوچ ماں ایک تاریخ، ایک سبق اور عظمت کا درخشاں ستارہ ہے۔

اسی وجہ سے آج دشمن کی جبر و بربریت اور قہر کے علاوہ تحریک کی نشیب و فراز سے لیکر ہر تحریکی کیفیت میں بلوچ نوجوان مایوسی، الجھنوں، خوف اور خود غرضیوں سے بے نیاز ہوکر لڑرہے ہیں اور ان کا پورا پورا یقین، ایمان اور عقیدہ ہے کہ اس دفعہ بلوچ تحریک آزادی نہیں رکے گی، اور نہ ہی سرد مہری کا شکار ہوگا اور نہ ہی ختم ہوگا، یہی مضبوط سوچ، بلوچ قومی تحریک کی کامیابی و کامرانی کی امیدوں کو زندہ رکھتا ہے۔

بس ایسے بہادر بلوچ ماوں اور بہنوں کی تاریخی اور عظیم کرداروں کو اپنی قوم اور دنیا کے سامنے اجاگر کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ بلوچ قوم اور پوری دنیا کو یہ باور ہو کہ اس دفعہ بلوچ تحریک بلوچوں کے ہاتھوں میں ہے اور بلوچ قوم بغیر قومی آزادی کے کسی بھی چیز کے لیئے تیار نہیں ہونگے، جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوگا اور بلوچستان سے پاکستانی فوج کا مکمل انخلاء نہیں ہوگا۔

یہ سوچ، یہ احساس آج ثابت کرتا ہے کہ تحریک اپنی کامیابی کی طرف رواں دواں ہے، مزید بہتری کی گنجائش پہلے بھی تھا، آج بھی ہے۔ اس کی بھرپور انداز میں کوشش ہو بلکہ تحریک مکمل ادارتی بنیادوں پر استوار ہو، ادارہ سرگرم عمل ہو، پھر یہ نسل کشی، یہ گرفتاری، یہ شہادت، تکلیف اور کرب تحریک کے لیئے رکاوٹ اور خوف نہیں بلکہ باعث حوصلہ ہونگے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔