میزان ۔ نادر بلوچ

349

“میزان”

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

ناپنے کیلئے انسانوں نے مختلف آلہ و اوزار بنائے تاکہ ناپ و تول سے مطلوبہ مقدار کے مطابق مطلوبہ مقاصد حاصل کی جاسکیں۔ اس عمل سے انسان نے جتنی بھی دنیاء میں قدرتی معدنیات، مایہ، گیس، اور ٹھوس دریافت کرچکی ہے، انکے لیئے ان اوزاروں پر سائنسی آزمائشوں اور تجربات کی روشنی میں مقدار متعین کی، تاکہ انسان انکو استعمال کر نے میں آسانی محسوس کریں۔ یوں عالمی سطح پر انکو استعمال کے یکساں قوانین مقرر ہوئے۔ سائنس خود اپنی دریافت کے بعد روزانہ کی بنیاد پر نئی نئی دریافت کررہی ہے، اسکی بنیادی اسباب ناپ تول کے اس میزانیہ کا مختلف انداز میں مختلف سائنسی فارمولوں کی مدد سے ایجادات کی ایک الگ دنیاء تشکیل دینے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔

برابری، متوازن، قانون قدرت کے مطابق عمل، انسانی فکر و خیالات میں روح پھونکتے ہیں، بشرطیہ کہ انسان اپنے روز مرہ کے عمل و خیالات میں اونچ نیچ، و نشونماء کے بارے میں پہچان اور سمجھ رکھتا ہو۔ تخیل میں اس اتار چڑھاؤ سے مکمل نمٹنے کا پیمائش موجود ہو۔ اگر ان فکری علم و عمل میں شعوری میزان کو برقرار رکھ پانے میں کامیابی ملتی ہے، تب ہی ایک عقاب آسمانوں میں اڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی میزانیہ کی بنیاد پر جہاز آسمانوں میں ہوا کو چیرتی ہوئی محو سفر ہوتی ہے۔ دنیا و کائنات میں جاری ان تمام کشمکش پر مبنی نظام پیمائش اور ناپ تول پر مبنی قانون قدرت کے میزانیہ کے مطابق چلتی جارہی ہے۔ اس سے انکار شاہد خود قدرت سے انکار و بغاوت ہو۔

انحراف، لاپروائی، کوتاہی، مقدار میں کمی و بیشی، کائنات میں جاری تباہی، زلزلہ، طوفان لانے کا موجب بنتی ہے اسی طرح سماج، معاشرے، میں اگر ان قوانین و پیمانوں کا خیال نہ رکھا جاۓ تو پھر انتشار، نفاق، توڑ پھوڑ ہی مقدر ٹہرتی ہے اور کامیابی کو ناکامیوں میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ان پیمائشوں میں تبدیلی کا عمل عین قوانین قدرت کے مطابق جاری و ساری رہتی ہیں، لہٰذاء ایک متحرک سوچ و مشین ہی ان میں جاری مثبت عمل و تبدیلیوں کو شعور کے سامنے اپنانے کے لیے لاتی ہے۔ فرد سے لیکر افراد کی ذہنی نشونماء و پرورش، ملکی قانون و قوانین، تنظیمی اصول و ڈہسپلن تمام اسی نظام کے تحت بنتے اور بگڑتے ہیں۔

فرد سے لیکر افراد، اداروں سے لیکر تنظیموں تک، زمین سے لیکر آسمان، سورج سے لیکر ستاروں تک سب ایک ساتھ تبدیلیوں کا سامنا کر رہی ہیں اور مشترکہ قوانین پر کاربند ہیں، یہ تبدیلوں کو قبول کرتی ہیں اور شعوری عمل و رد عمل کے ذریعے ایک میزان قائم رکھتی ہیں۔ اچھے برے، نفع و نقص، بہادری بزدلی، سب بے معنی ہوتی ہیں، جب یہ ترازو برقرار رہ نہیں پاتی۔

کسی جہد و تحریک میں بھی استادوں، دانشوروں، تنظیموں، اداروں کو ان تاریخی آزمائشوں پر پورا اترنے کیلیے میزانیہ کی ضرورت ہے، جو ایک سرخ اور سبز لکیر کی طرح کامیابی و ناکامی کے درمیان لائن بنی رہے۔ پیمائش گھڑی کی سوئی کی طرح ٹھمکتی رہے، ہر عمل پر جانچ ہو، نفع و نقصان پہنچانے والے رویوں کی پہچان ہو۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔