ایک عظیم ہستی – چاکر بلوچ

380

ایک عظیم ہستی

چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کافی دنوں سے اپنے قلم کو اٹھانے کی ہمت کررہا ہوں کہ شہید استاد جنرل اسلم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر پاوں لیکن ہاتھ لکھنے کو ساتھ نہیں دے رہے کہ کہیں جنرل اسلم کے تعریف میں کمی نا رہ جائے۔ استاد اسلم کا شمار ان بہادر لیڈروں میں ہوتا تھا جنہوں نے بلوچ قومی تحریک کو پھر سے بلند کیا، یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ نواب نوروز خان زرکزئی کے قربانیوں سے بالکل غافل ہوگئے تھے اور اپنے غلامی کی زندگی میں اتنے مبتلا ہو گئے تھے کہ کسی شخص کو یہ تاثر بھی نہیں ہورہا تھا کہ ہم غلام ہیں اور درد غلامی کیا ہے، یا فکر آجوئی کیا ہے، اسی دوران ان مادر وطن کے بہادر فرزندوں میں ایک نوجوان استاد اسلم کے شکل میں جنم لیتا ہے۔

کہاں کوہستان مری کہاں مستونگ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ بالاچ مری کے ساتھ مل کر بلوچ جہد آجوئی کو اور تحریک کو ایک بلند مقام پر پہنچا کر اپنا فرض ادا کرکے ہم سے رخصت ہو جائیں گے، استاد ایک بلند پایہ کردار کے مالک تھے۔

استاد اسلم، بالاچ مری کے قریبی اور بھروسے والے دوستوں میں شامل تھے اور بی ایل اے کے بانی رہنماوں میں سے تھے، بقول استاد جب وہ لوگ تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کا بنیاد رکھ رہے تھے تو لوگ گیار تھے اور اس وقت یہ انداذہ بھی نہیں تھا کہ اس تحریک میں نواب اکبر خان بگٹی اور ڈاکٹر اللہ نذر جیسے لوگ بھی شامل ہونگے ۔

غالباً یہ 2007 کی بات ہے جب استاد اسلم کا نام اخبار میں پڑھا، ریاست نے انہیں اشتہاری قرار دیا تھا اور اس کی سر پر لاکھوں کا انعام بھی رکھا تھا، مجھے اسی وقت اندازہ ہوا تھا کہ اس دھرتی کے لال نے دشمن کو سخت پریشان کر رکھا ہے، پھر وقت گذرتا گیا اور اپنے ہم خیال دوستوں سے استاد کی بہادری کی کہانیاں اکثر سنتا تھا بقول ایک دوست کے وہ بولان کے محاذ پر استاد کے ساتھ تھے۔ ایک جنگ میں استاد کے کمانڈ کے دروان چند دوست شہید ہوئے تھے اور کچھ نئے دوست پریشان بیٹھے ہوئے تھے تو اسی دوران استاد نے ان دوستوں کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں اور یہ شہید اور زخمی ہونا جنگ کا حصہ ہیں، خیر اس وقت انسان ان باتوں کا اندازہ نہیں لگا سکتا جب تک ان چیزوں کو عملی طور پر نہ دیکھے۔

آج شہید ریحان جان کی قربانی آپ سب لوگوں کے سامنے ہے، آج آپ گودی عائشہ اور لمہ یاسمین کے ہمت اور بہادری کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں، یہ سب استاد اسلم کے تربیت کا نتیجہ ہے اور اس بات سے یہ بھی انداذہ لگا سکتے ہیں کہ استاد تحریک کے ساتھ کتنے مخلص اور ایماندار تھے۔ 2014 کے آپریشن میں استاد اسلم بولان کے محاذ پر شدید زخمی ہوئے تھے اور ان کے کچھ قریبی ساتھی بھی شہید ہوئے، جن میں شہید امتیاز زہری اور شہید محی الدین کرد بھی شامل تھے اور استاد پھر بھی محاذ پر ثابت قدم تھے۔

اسی دروان استاد کی طبیعت بھی کافی خراب ہوئی تھی، سینئر سنگتوں کے کافی کوششوں کے بعد استاد اسلم اپنے علاج کے لیئے افغانستان جانے کو راضی ہوئے تھے اور افغانستان میں بھی بیٹھ کر دشمن کی نیندوں کو حرام کر رکھا تھا، استاد کے حکمت عملیوں نے ریاست کو اتنا بے چین کر رکھا تھا کہ دشمن اپنی پورے طاقت کو استعمال کرکے استاد تک پہنچنے میں ناکام ہورہا تھا۔

جب بزدل دشمن استاد کو شہید کرکے اس سوچ میں سکون کے نیند سو رہا ہے کہ استاد اسلم کو شہید کرکے تحریک ختم ہوگا لیکن یہ دشمن کی احمقانہ سوچ ہے، ریاست کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ استاد اسلم ایک فرد واحد کا نام نہیں استاد اسلم ایک سوچ ہیں اور ایک فکر کا نام ہے، استاد کی سوچ نے آج بولان سے جھالاون تا مکران تک ہزاروں نوجوانوں کو جنم دیا ہے، جو دشمن کو کل سے زیادہ پریشان اور شکست دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔