پاکستان عالمی قوانین کو پامال کرکے بین الاقوامی اداروں کا مذاق اڑا رہا ہے – ماما قدیر

152

ہمیں واضح ثبوت ملے ہیں کہ کوئٹہ سے تیرہ میل کے فاصلے پر ایک قبرستان ہے جہاں پاکستان کے خفیہ اداروں کے اہلکار لاپتہ افراد کو دفن کرتے ہیں – ماما قدیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم کیمپ کو 3424 دن مکمل ہوگئے۔ آج بروز جمعرات بلوچ ہیومن رائٹس کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ، وائس چئرپرسن طیبہ بلوچ، انسانی حقوق کی سرگرم کارکن بانک حوران بلوچ، پی ٹی ایم کے کارکنان سمیت پشتونخواہ کے رہنما سلیمان، طلباء تنظیموں کے کارکنان کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جائزہ اجلاس میں امریکہ کی جانب سے بلوچستان میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی تشدد، سیاسی کارکنوں سمیت عام بلوچوں کو لاپتہ اور شہید کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور پاکستان کو کھڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا- امریکی مندوب کی جانب سے بلوچستان میں پاکستان کے ہاتھوں کشت و خون کو تنقید کا نشانہ بنانا ایک خوش آئند عمل ہے لیکن آج اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر انسانی حقوق کے علمبرداروں کی موجودگی اور ان کے خدشات کے باوجود بلوچستان میں پاکستانی ادارے عالمی قوانین کو پامال کرکے بین الاقوامی اداروں کا مزاق اڑارہے ہیں. جس کی واضع مثال روزانہ کی بنیاد پر بلوچوں کو لاپتہ کرنا اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کا پھینکنا یا اجتماعی قبروں میں دفن کرنا اور دوسرا واضع ثبوت جو ہمیں ملا ہے وہ کوئٹہ سے تیرہ میل کے فاصلے پر ایک قبرستان ہے جس میں لاپتہ افراد کو خفیہ ادارے والے دفن کرتے ہیں.

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ اب کسی بھی طرح پاکستان سے عالمی دنیا کو یہ توقع نہیں رکھنا چائیے کہ وہ صرف تنقید اور چند تجاویز کو مان کر ان پر عمل درآمد کریگا۔ عالمی سطح پر اٹھنے والی آوازوں کے بعد پاکستان نے اپنا جبر مزید تیز کردیا ہے۔ اب امریکہ کی جانب سے آواز اٹھائے جانے کے بعد بھی اسی طرح بلوچ نسل کُشی کے کاروائیوں کو مزید تیز کردیا گیا ہے۔ پاکستان چین سے امداد یا قرضہ لیکر محکوم عام بلوچوں کو دبانے اور اور ڈرانے کے لئے استعمال کررہا ہے جو عالمی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔