اقوام متحدہ کی خاموشی بلوچستان کی خودمختار حیثیت کو متنازعہ بنانے کی باعث بن رہی ہے ۔ بی ایس او آزاد

154

دنیاکے دیگر تنازعات کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی مسئلہ بھی حل طلب ہے کیونکہ گزشتہ ستر سالوں سے جاری بلوچ نسل کش پالیسی میں ہزاروں بلوچ ماورائے عدالت قتل کیے گئے ہیں – بی ایس او آزاد

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی ترجمان نے دس دسمبر انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے تشکیل کے تین سال بعد دس دسمبر کو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ عالمی ادارہ اپنی قیام سے لے کر آج تک بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے روک تھام میں اپنی ذمہداریاں نبھانے میں ناکام ہو چکی ہے بلکہ ہمیشہ سے پاکستان اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو سامنے رکھ خاموشی کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ دنیاکے دیگر تنازعات کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی مسئلہ بھی حل طلب ہے کیونکہ گزشتہ ستر سالوں سے جاری بلوچ نسل کش پالیسی میں ہزاروں بلوچ ماورائے عدالت قتل کیے گئے ہیں، بچے یتیم ہو چکے ہیں،بلوچ خواتین کو اغواء کرکے ان کی عصمت دری کی جارہی ہے،لاکھوں خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔اپنے قومی آزادی کے مطالبے کے پاداش میں پاکستانی ریاست بلوچ قوم کو خاک و خون میں نہلا کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرکے عالمی انسانی قوانین کو پاؤں تلے روند رہی ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ریاست اپنی انتہاپسندانہ عزائم اور قبضہ گیریت کو توسیع دینے کیلئے عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کرکے آئے روز بلوچوں پر اپنی ظلم اور بربریت میں اضافہ کررہی ہے۔ریاست کے اس طرح کے گھناونے جارحیت جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔جب کہ بلوچ قوم کی جانب سے اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے بار بار اپیل اور توجہ دلانے کے باوجود اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظییں خاموشی کی پالیسی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں جو کسی بھی صورت خطے کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔

ترجمان نے آخر میں کہا کہ ریاست پاکستان کی جانب سے پہ در پہ اقوام متحدہ کی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے باوجود اقوام متحدہ، عالمی میڈیا اور بین الاقوامی نسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی ریاستی ظلم اور بربریت کو جواز فراہم کرتی آرہی ہے۔

ترجمان نے اقوام متحدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ بلوچستان کے حوالے اپنے خاموشی کی پالیسی کو توڑ کر اپنے بنانے ہوئے انسانی حقوق ڈیکلیریشن کی پاسداری کریں۔