آؤ براس کے سائے تلے متحد ہو جائیں – زہیر بلوچ

333

آؤ براس کے سائے تلے متحد ہو جائیں

زہیر بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

اتحاد و اخوت جہاں بھی ہو وہاں کامیابی ہی ہوگی، ہم بچپن میں تیسری کلاس میں ایک سبق ہمیشہ پڑھتے تھے کہ ایک بوڑھا شخص تھا جس کے چار بیٹے تھے، جو ہمیشہ لڑتے جگھڑتے تھے، جن کے درمیان اتحاد و یگانگت نہیں بلکہ نفرت تھا، بوڑھے شخص نے ایک دن کچھ سوجھ بوجھنے کے بعد چاروں کو ایک ساتھ بٹھایا اور کہنے لگا کہ سب ایک ایک لکڑی توڑ لو، جس کے بعد بوڑھے شخص کے سارے بیٹوں نے باآسانی ایک ایک لکڑی توڑ ڈالی، بعد میں اس نے بہت زیادہ لکڑیاں ایک ساتھ رکھ کر بولا اب ہر کوئی ان کو ایک ساتھ توڑ لے، تو ان میں سے کسی بیٹے نے کہا کہ اتنے لکڑیوں کا ایک ساتھ توڑنا کیسے ممکن ہے جس کے بعد بوڑھا بولا تو میرے بیٹوں جب آپ متحد ہو جائیں گے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و اتفاق سے رہیں گے ایک دوسرے کے درمیان اتحاد و یگانگت قائم کریں گے، تب تمہیں کوئی ہلا بھی نہیں سکتا اور جب آپ اس طرح بکھرے بکھرے رہیں گے، آپ کے دشمن بآسانی آپ سب کو شکست فاش دیں گے۔

ایک اور کہانی میں کسی جنگل دو میں بیل رہتے تھے، جو ہمیشہ ایک ساتھ رہتے تھے۔ ان کے درمیان اتحاد و اخوت بہت مضبوط تھا، جس کی وجہ سے کسی کا مجال بھی نہیں تھا کہ ان کی طرف دیکھے، ایک دن کسی جنگلی شیر نے ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو دونوں نے ایک ساتھ ملکر شیر کی وہ حالت کی کہ دوبارہ شیر ان کی طرف دیکھنے کی جرات نہیں کر سکا، اسی جنگل میں ایک لومڑی بھی رہتی تھی، لومڑی کو ان کی دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی وہ اس ٹوہ میں تھا کہ جب موقع ملے ان کو برباد کر لوں، بعد میں لومڑی نے سوچا کہ جب تک یہ ساتھ ساتھ ہیں اُنہیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لیے لومڑی نے بڑی مکر و فریب اور دھوکا بازی سے ان کے درمیان اتحاد توڑ ڈالا اور ان کے درمیان دوستی کے بجائے دل میں دشمنی جنم لینے لگی، اس نے وہی حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیئے جو ہر سازشی اور فریبی شخص بروے کار لاتا ہے یعنی ایک دوسرے کے خلاف ان کے کان بھرتے ہوئے ان کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا بیج بویا اور وہ ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھنے لگے، جب یہ بات شیر کو پتا چلی کہ بیلوں کے درمیان اتحاد و اتفاق ختم ہوا ہے اور ایک دوسرے کے دشمن ہیں تو ان کو اپنی بربادی یاد آ گئی، وہ بدلا لینے سیدھا جنگل آئے سب سے پہلے اس نے ایک بیل پر حملہ کرتے ہوئے اس کو کھا لیا یہ نظارہ دوسرا بیل بڑی خوش اسلوبی سے دیکھتا رہا وہیں پر سے ایک ہاتھی گذر رہا تھا، اس نے دوسرے بیل سے کہا کہ اس پر خوشی نہ مناؤ یہ تمہاری بربادی ہے، اس وقت اُس کو ہاتھی کی بات سمجھ نہیں آیا لیکن کچھ دنوں بعد جب یہی شیر اس کو کھانے کیلئے آئے، تب اُسے پتا چلا کہ جب ہم ساتھ ساتھ تھے تو ایک طاقت تھےایک دوسرا کا سہارہ تھے اور جب ہم الگ ہوئے تم ہماری طاقت ختم ہو گئی، اب ہمیں کوئی بھی شکست دے سکتا ہے۔ تحریکات ایسے ہی ہزاروں مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ اتحاد کی وجہ سے کیا کیا کامیابیاں عطاء ہوئی ہیں۔

آج ہم سیاسی کارکنان کی حیثیت سے یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ کیوں آج امریکہ دنیا کو فتح کرنے میں کامیاب ہے؟ کیوں دنیا کی کوئی بھی بڑی طاقت اس کے سامنے بےبس اور لاچار ہے، ریاستوں سے لیکر عالمی بینکوں سے عالمی اداروں تک ہر کوئی امریکہ کے سامنے بلیک میل ہے اس کی وجہ اکیلے امریکہ کا پاور نہیں بلکہ ان کے اتحادیوں کی وجہ سے ہے، اگر امریکہ اونچائی ہے تو بلڈنگ ان کے اتحادی ہیں اور بغیر بلڈنگ کے اونچائی اور بلندی نصیب نہیں ہوتی، بلکہ امریکہ ہی نہیں اگر آج پاکستان بھی اس کرۂ ارض پر ابھی تک ٹکا ہے، اس کی وجہ سعودی عرب اور چین جیسے اتحادی ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ ہر کسی کے اپنے سیاسی مقاصد و اغراض ہیں لیکن اگر یہ ان کے ساتھ نہیں ہوتے تو افغانستان اور بھارت پاکستان کو کب اکھاڑ پھینک دیتے۔ آج ہر ریاست اپنے اتحادیوں کے پیچھے زور لگا رہا ہے، اگر کسی ریاست کے ساتھ اتحادی نہ ہوں تو وہ جنگ کر سکتا ہے اور نہ جنگ جیت سکتا ہے، امریکہ اور سویت یونین اگر دوسری جنگ عظیم میں کامیاب ہوئے تو اس کی بھی سب سے بڑی وجہ برطانیہ، متحدہ امریکہ، سویت یونین اور تائیوان کا اتحاد تھا جن کے سامنے آخر کار جرمنی کو شکست فاش ہوا۔

ان مثالوں کا مقصد یہی ہے کہ اگر دنیا میں موجود قابض و متصرف اور طاغوتی ریاستیں اپنی خونیں معرکوں انسانیت کے خلاف سازشوں شیطانی حرکتوں، مظلوموں پر غیض و غضب ہونے کیلئے اتحاد و اتفاق کر سکتے ہیں تو ہم اپنی زمین کی مدافعت قومی تشخص کی دفاع، زبان کے بچاؤ اور قومی آزادی کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ ایک محاذ پر کیوں لڑ نہیں سکتے؟ کیوں ایک محاز پر اکھٹا ہو نہیں سکتے؟ کیوں اس شیطانی اور جابر ریاستی جبر کے سامنے ایک پہاڑ بن کر کھڑا ہو نہیں سکتے، کیا بلوچ قومی دفاع زبان تہذیب و تمدن اور آزادی سے ہمیں اپنی ضد اور تفکر انا و بغض زیاد عزیز ہیں؟

بلوچ قومی آزادی کی تحریک اور بلوچ قومی فنا و خاتمے کیلئے بلوچ قوم کے سب دشمن ایک صف میں کھڑے ہیں۔ بلوچ مفاد پرست(آزادی پسند سرداریں نہیں) سرداروں سے لیکر وڈیروں اور مڈل کلاس کے مراعات پرست ڈاکٹر مالک، ظہور بلیدی، قدوس بزنجو سمیت سب بلوچ قاتل ایک ساتھ قومی تحریک کے خلاف مصروف عمل ہیں، جس کی حالیہ مثال کٹھ پتلی بلوچستان گورنمنٹ ہے، جس میں سردار اور مڈل کلاس سب بلوچ قومی تحریک کے خلاف ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجاہ ہیں، اُن کا نظریہ اور جدوجہد قومی تشخص، زبان، تہذیب و تمدن اور دود و ربیدگ کا خاتمہ ہے جبکہ ہمارا نظریہ اور جدوجہد قومی تشخص زبان تہذیب و تمدن اور عزت و نفس کا دفاع اور مدافعت کرنا ہے۔

اختلاف اور تنقید کسی بھی تحریک اور جہد میں بہتری لانے کے ذرائع ہوتے ہیں لیکن اتحاد و اتفاق بھی ضروری ہے، پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہزار اختلاف اپنی جگہ لیکن پھر بھی وہ اپنے اجتماعی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں، تو کیا ہمیں اپنے اختلاف کو ایک سائیڈ پر رکھ کر دشمن کو جنگی محاذ میں اتحاد و اتفاق سے نہیں لڑنا چاہیئے، اختلاف اپنی جگہ قائم رکھنے چاہیئے لیکن آج وقت و حالات کی ضرورت ہے کہ بلوچ سرمچار دشمن پر ایک ساتھ کاری ضربیں لگارہیں ہیں، ایک ساتھ کے حملے زیادہ خطرناک اور دشمن کیلئے بھیانک ہو سکتے ہیں، جس کی مثال حالیہ تگران میں براس کی کارروائی ہے، جس نے دشمن کے درجن بھر سپاہیوں کو ہلاک کیا جبکہ 16 زخمیوں کا پاکستانی فوج نے خود اعتراف کیا تھا۔

‎میرے خیال میں ہمیں سیاسی اختلاف کو جنگی میدان میں نہیں دھکیلنا چاہیئے، جنگی میدان میں آج بلوچ قومی سرمچاروں کو ایک ساتھ دشمن پر ضربیں لگانی چاہیئے۔

‎براس کا قیام نا صرف ایک اتحاد ہے بلکہ دشمن کے خاتمے کیلئے ایک پلیٹ فارم ہے، جو بلوچ قوم کے سرخیل قائد نے قومی تحریک کو عطا کیا ہے۔

‎باقی مسلح تنظیموں کو بھی چاہیئے کہ اس ادارے سے اتحاد کریں، بلوچ قومی تحریک کے سب سے بڑے مزاحمتی تنظیموں بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی کا یہ اتحاد ہے، جس میں بلوچ ربپلیکن گارڈز بھی شامل ہے۔ باقی تنظیمیں بلوچ لبریشن آرمی آزاد، بلوچ ریپبکن آرمی، یونائٹیڈ بلوچ آرمی اور لشکر بلوچستان کو بھی چاہیئے کہ اس اتحاد کا حصہ بنیں( بی آر اے، یو بی اے، اور لشکر بلوچستان کا اپنا ایک اتحاد ہے جو قابل قدر ہے اور رہنا چاہیئے) اور براس کی شکل میں ایک قومی فوج کی حیثیت سے دشمن کے خلاف لڑیں۔ ہمیں یہ سمجھنا اور جاننا لازمی ہے کہ کل کو ایک آزاد بلوچستان میں نیشنل آرمی ایک ہوگی جس کے بعد دوسرے ذیلی ادارے ہونگے جو شہروں اور سمندری راستوں کی حفاظت کرتے ہوئے بلوچستان کے اندر امن و امان کا ماحول سازگار بنائیں گے۔

آؤ براس کو ایک نیشنل آرمی کی حیثیت سے نا صرف اکیلے دشمن پاکستانی فوج کے خلاف بلکہ بلوچ قوم کے سب دشمنوں جن میں سامراجی ریاستیں بھی ہیں کے خلاف جنگ کا آغاز کریں اور دشمن کو مزید بڑے سے بڑا نقصان پہنچائیں، ہماری طاقت اور ہماری یکجائی ہی قومی آزادی کی اس تحریک کی جیت ہوگی، جس کی آبیاری کیلئے ہر شعبہِ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی جانیں نچھاور کی ہیں، دانشوروں سے جرنلسٹ تک، عام چرواہے سے لیکر دکاندار تک، سیاسی لیڈران سے مسلح سپاہیوں تک، سب نے اس جہد کی کامرانی اور کامگاری کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور آج سب کی خواہش ہے کہ ساری بلوچ مزاحمتی تنظیمیں ایک ساتھ ایک فلیٹ فارم پر قابض و متصرف دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اس جابر دشمن کو سبق سکھائیں جنہوں نے ہماری باپردہ ماؤں، بہنوں اور چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیوں تک کو اذیت پہنچائی ہے۔ ہمیں بلوچ دشمن قوتوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم اپنی آزادی کی خاطر دشمن کے سامنے ایک متحد قوت ہیں۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر آج ہم تھوڑے بھی کمزور ہیں، تو اس کی وجہ صرف اور صرف غیر سنجیدہ سیاسی اختلاف اور درمیانی دوریاں رہے ہیں اگر ہم براس کا بغور جائزہ لیں تو یہ وہی تنظیمیں ہیں جن کے درمیان پہلے اختلاف رہے ہیں لیکن جب وہ ایک ساتھ بیٹھے ہیں، تو آج نا صرف اختلاف ختم ہوئے ہیں بلکہ ہر محاذ پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں اور ایک فکری اتحاد قائم ہو چُکا ہے، میں اپنی باتوں کا اختتام publilius Syrus کی ان الفاظ سے کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں اتحاد ہے وہاں کامیابی ہے۔