درد کو زباں دیجیئے – عبدالواجد بلوچ

191

درد کو زباں دیجیئے

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار،آؤ سچ بولیں۔۔

سردیوں کا موسم ہے اور دھند نے تقریباً پورے شال کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے. اس موسمی دھند کے علاوہ ایک نظر نہ آنے والی دھند اور طویل لہر بھی موجود ہے جس کے پیچھے وہ قاتل و گم کردہ قوتیں ہیں جو ہمیشہ نامعلوم رہتے ہیں۔ یہ دھند وطن عزیز پر یوں تو ستر برسوں سے چھائی ہوئی ہے لیکن مشرف دور سے یہ ملک کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے، یقیناً شاید وہ بدعائیں ہیں جو آج آسیب بن کر مشرف پر برس رہی ہی۔

کمال کی طاقت ہے جو اپنے ہی شہریوں اور اپنے ہی باشندوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور کمال کا معاشرہ ہے جو ویسے تو فلسطین سے لیکر کشمیر تک انسانی حقوق کی پامالیوں پر دہائیاں دیتا ہے لیکن اپنے ہی وطن کے جبری گمشدہ افراد کے معاملے پر آنکھین بند کر لیتا ہے. ریاست تو کب کا منافق بن چکا ہے لیکن اب کی بار نائبِ پیغمبر بھی منافقت کا مظاہرہ کررہے ہیں حالانکہ اسلام میں منافق کی کڑی سزائیں متعین ہوچکی ہیں .

لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما ہوں یا وہ چھوٹی بچی جو اپنے بھائی عامر بلوچ کی بازیابی پر آنسوؤں کے سیلاب میں غوطہ زن ہیں اور اسی سیلاب کے ریلوں میں اپنے پیاروں کو تلاش رہے ہیں.

گھار سیما آپ غمزدہ نا ہوں، کیونکہ آپ کی آنسوؤں کی قیمت کا اندازہ اندھے سماج کے بہرے باشندوں کو نہیں کیونکہ وہ لوگ جنہوں نے شبیر بلوچ کو کال کوٹڑیوں میں ڈالا ہے، وہ خود انہیں زیادہ دیر تک ان تنگ و تاریک قید خانوں میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ کتاب اور قلم کے شیدائیوں نے دنیا کو ہمیشہ پیار سے جیتا ہے، قلم کی جنبش اور کتاب کی اہمیت ہی اس ہستی کو واپس لے آئیں گے، جن سے دنز و دھول میں پڑی ہوئی کتابوں کو رونق مل جاتی تھی۔ شبیر کے کمرے میں دھویں سے لپٹی اور کیڑوں کی کھائی ہوئی ان بوسیدہ کتابوں کے ان اوراق کی نکلی دعائیں شبیر بلوچ کو واپس لے آئیں گی جن کو وہ چاٹتا تھا انہیں پڑھتا تھا۔

اگر انسان مرگئے ہیں تو کیا ہوا؟ اگر ان لوگوں کی ضمیر سوچکے ہیں جو چپ سادھے ہوئے ہیں تو کیا غم لیکن آپ کے ساتھ ماما قدیر کے بلند حوصلے اور میراث کا بچپن ہم قدم ہے، یہ امر یقینی ہے کہ شبیر آئیں گے ضرور آئیں گے۔۔۔۔۔

یہ اٹل حقیقت ہے کہ دنیا میں کسی بھی طاقت نے حق و سچائی کو بزور شمشیر نہیں دبایا شبیر تو سچ کا پیروکار تھا، انہوں نے شعور کی بالادستی کی خاطر کتابوں سے محبت کی، کتابیں اتنی کمزور تو نہیں کہ اپنے چاہنے والے کو دوبارہ نہ پکاریں؟ عامر بلوچ کی چھوٹی بہن کی آنسوؤں کی قیمت دنیا کی کوئی طاقت نہیں لگا سکتی کیونکہ یہ وہ احساس ہے جو بے حس معاشرے کی ضمیر کو جھنجوڑتا ہے لیکن جس معاشرے سے ہمارا تعلق ہے تو یقیناً منافقت، فریب، دھوکہ دہی، جھوٹ کے بادل اتنے گہرے ہیں کہ چند قدم کے فاصلے پر خوابِ خرگوش میں سوئے با اقتدار حکمران بے حسی کا چورن کھا کر طویل نیند سورہے ہیں.

ہم تو ان بے حسوں سے کسی بھی قسم کے امید کی خواہش نہیں رکھتے لیکن ہمیں سیما اور ہزاروں ماؤں بہنوں کے آنسوؤں کی شدت سے احساس ہے کہ وہ قیمتی ہیں، جو اپنے پیاروں کی بازیابی پر برس رہی ہیں اور یہ برسنا اسی طرح جاری رہا تو طلاطم خیز طوفان کو روکنا با اقتدار حکمرانوں کی بس سے نکل جائے گا اور وہ اس سیلاب کو روک نہیں پائیں گے.

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔