ثناءاللہ دوستوں کے ہمراہ لاپتہ ۔ محسن بلوچ  

202

ثناءاللہ دوستوں کے ہمراہ لاپتہ

محسن بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز کا معمول بن چکی ہیں، یہاں تعلیم و صحت تو دستیاب نہیں اس لئے یہاں ناخواندگی ہے، لوگ چھوٹی سی بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے لیکن ہر طرف خاموشی کی ایک کیفیت نظر آتا ہے ایسا کیوں؟

اپنے حقو ق کیلئے آواز اٹھانا کوئی جرم نہیں، باشعور انسان زانت سے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں، جو انسان کے شعور کی پختگی کی نشانی ہے۔

پاکستان میں بلوچستان کے لئے پرامن سیاست کے دروازوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔ جو بھی پر امن جمہوری بنیادوں پر سیاست کرتا ہے اُسے بھی اجازات نہیں ہے، انہیں پاکستانی فوج اٹھا کر غائب کردیتاہے۔ پاکستان کے انٹیلیجنس اداروں کا پیشہ بن چکا ہے کہ لوگوں کو غائب کرنا۔ ایک دو ایسے واقعات سامنے نہیں آئے ہیں کہ ہم یہ سوچیں کہ یہ بڑی بات نہیں، مگر ہر روز ایسے واقعات رونما ہو تے ہیں۔ 10سال کے ضمیر سے لے کر 70/80 سال کے بزرگوں کو جبری طور پر غائب کیا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو آٹھا کرپھر انکی لاشیں جنگلات، پہاڑوں یا اجتماعی قبروں سے ملی ہیں۔ جنکی شناخت نہیں ہوئی ہے حتیٰ کہ انکی لاشوں کو گھر والے پہچاننے سے قاصر رہے ہیں کہ کس کے لاشیں ہے، مگر حقیقت یہی تھا یہ لاپتہ بلوچ نو جوان تھے، جنہیں فو ج نے اغواء کرنے کے بعد لاپتہ کر دیا تھا، بغیر کسی عدالت کے وہ قتل کر دیے گئے۔

بلوچستان میں ایک سال سے لیکر 18سالوں تک کے لوگ پاکستانی ٹارچر سیلوں میں بند ہیں، جنکا کوئی خبر تک نہیں ملتا، جبکہ انکے مثاثرہ خانداں کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے پیارے کس حال میں ہیں، تاکہ ان کے دل کو دلاسہ مل سکے کہ وہ زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں۔

انکی زندگی کرب ناکی سے گذر رہی ہے، وہ جو اپنے پیاروں کے انتظار میں بیٹھے ہیں، کچھ لوگ اسی درد میں زندگیاں گذار رہے ہیں، کچھ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ لوگ سردیوں میں اپنے دروازے تک بند نہیں کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو وہ آئیں اور دروازہ بند ملیں۔ اسی طرح لوگو ں کی رات اور دن گذر جاتے ہیں۔

میں اپنے سیاسی رہنماؤں کی ذکر کرنا چاہتا ہوں، جنہیں ایک سال مکمل ہوچکا ہے۔ پاکستانی انٹیلیجنس اور رینجرز نے کراچی سے انہیں انکے گھر سے جبری طور پر گرفتار کرکے لاپتہ کیا، جو تاحال اُن کے ٹارچر سیلوں میں بند تشد د برداشت کررہے ہیں۔ جن کے بارے میں کوئی خبر تک نہیں۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ انہوں نے کوئی جرم کیانہیں ہے، وہ نوجوان دانشور تھے۔ جو بلوچ طلبا کو علم و ادب سے روشناس کراتے تھے۔ انکا کردار بلو چ طلبا کی تربیت میں پہلے صحفے پر آتا ہے۔ وہ بلو چ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے رہنما ہیں، یہ نوجوان ثنا اللہ بلو چ، نصیر بلوچ، حسام بلوچ اور رفیق بلوچ ہیں۔

نوجوان معاشرے میں ایک اہم رول ادا کرتے ہیں، جس طرح کسی درخت کے زندہ رہنے کیلئے جڑ لازمی ہے، اسی طرح نوجوان معاشرے کی تر قی کےلئے لازمی ہیں۔ اگر درخت کو ختم کرنا چاہتے ہو تو اسکوجڑ سے کاٹو تاکہ اگے بڑھ نہ سکے۔ ایسے ہی نوجواں اپنے قوم اور سماج کا جڑ ہوتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو بی ایس او آزاد جہدآزادی میں جڑکا کردار ادا کررہاہے۔ جو اپنے بلوچ قوم کا مستقبل کو سنوارنا چاہتا ہے۔ ایک اچھا راستہ دکھانا چاہتا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو روبوٹ بننے سے روکتا ہے، ان میں جستجو کا ایک راہ ہموار کرتا ہے۔ یہ کوئی بھی طاقتوار اور ظالم نہیں چاہتا کہ مجھ سے کوئی اپنا حق مانگنے کی جرات کرے۔ پاکستان یہ تو ہرگز نہیں چاہتا کہ بی ایس او کے نوجوانوں کو چھوڑوں، وہ اپنے قوم کو تربیت دیں، اس لیئے وہ بی ایس او اور ان کے رہنماؤں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

15نومبر 2017کو کراچی میں یونیورسٹی روڑ سے بی ایس اوآزاد کے سیکریٹری جنرل ثنا اللہ بلوچ ، سی سی ممبر حسام بلوچ، نصیر بلوچ اوربی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کو نصیر بلوچ کے گھر سے جبری طور پر پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے، جو تاحال لاپتہ ہیں۔ انکے اہلخانہ پریس کلبوں کے سامنے احتجاج ریکارڑ کرتے آرہے ہیں، مگر پھر بھی انکے بارے میں کوئی پتہ نہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اگر ہمارے پیاروں نے کوئی گناہ کیا ہے، تو انہیں عدالت میں لایا جائے کوئی جرم ثابت ہوا توپاکستان کے آئین کے تحت سزا دیاجائے۔ پاکستان میں سب بہرے ہیں۔ کس کو وہ اپنا درد سنائیں۔ انکی بات سننے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں۔ انکا ایک ہی امید ہے، جو اپنے آپکو انسانی حقوق کے ادارے کہتے ہیں، اسی امید نے بلوچ ماوں، بہنوں کو اس درد میں زندہ رہنا سکھایا ہے۔ مگر کیا کریں، ان کی طرف سے بھی کوئی ایسا عمل سامنے نہیں آیا ہے کہ انکے فیملی کودلاسہ مل سکے اور وہ اس درد سے جنگ کر سکیں اور اپنے بچوں کو امید کی کرن دکھا سکیں۔

میں ان تمام انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے اپنا کردار نبھائیں۔ ان ماوں اور بہنوں، بیٹیوں کا آواز بنیں انکو انصاف دلا ئیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔