پاکستان کو افغانستان کے معاملات کے حل کاحصہ بننا ہوگا – امریکہ

93

امریکی آرمی چیف کے مختلف دوست ممالک کے حالیہ دورہ کے بعد پینٹاگون کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے معاملات کے حل کاحصہ بننا ہوگا۔

میڈیا رپورٹس  میں کہا گیا ہے کہ جنرل جوزف ڈنفرڈ کے ان ممالک کے دورے کا مقصد اتحاد کو تقویت پہنچانا اور قائم رکھنا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین نے رواں ماہ کے آغاز میں اسلام آباد کا دورہ کیا کیوں کہ پاکستان، امریکی صدر کی جانب سے اگست 2017 میں پیش کی گئی جنوبی ایشیائی پالیسی کا اہم ترین حصہ ہے، پاکستان کو افغانستان کے حل میں کردار ادا کرنا پڑے گا۔

خیال رہے کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اور امریکی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ نے رواں ماہ کے آغاز میں اسلام آباد کا ایک روزہ دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔

رپورٹ میں اس ملاقات کے دوران کیے گئے فیصلوں کو عملی شکل دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’بیان سے زیادہ عمل کی اہمیت ہے چناچہ پاکستانی رہنماؤں نے امریکا کے ساتھ تعلقات کے نئے آغاز پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

جنرل ڈنفرڈ کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ افغان معاملات کو حل کرنے کے لیے ہم طالبان کو مذاکرات کی میز پر دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان طالبان کو امن عمل میں شامل کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرے گا۔

اسی بارے میں گفتگو کرتے ہوئے چند روز قبل پاکستان نیوی چیف ایڈمرل ظفر محمود نے کہا تھا کہ اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات بتدریج بہتر ہورہے ہیں اور اب یہ محض امداد پر منحصر نہیں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا مقصد صرف امریکی امداد حاصل کرنا نہیں ہے،ہم سیکیورٹی امداد کے ساتھ یا بـغیر امریکا سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور امریکی امداد کے بغیر بھی کام کرسکتے ہیں۔

پینٹاگون کو جاری کردہ رپورٹ میں دونوں امریکی عہدیداروں کے دورہ بھارت کا بھی تذکرہ ہے اور بتایا گیا کہ بھارتی حکام سے ملاقات کے دوران خطے اور عالمی معاملات پر تبادلہ خیال ہوا مثلاً افغانستان، شمالی کوریا اور دہشت گردی وغیرہ۔

بعدازاں سیکریٹری جیمز میٹس اور جنرل ڈنفرڈ نے کابل کا اچانک دورہ بھی کیا اور وہاں موجود امریکی عہدیداروں اور افغان حکام سے ملاقات کی۔

اچانک کیا جانے والا یہ دورہ خطے کے بارے میں تشکیل دی جانے والی پالیسی سے متاثر ہونے والے افراد کی آرا سننے کا بہترین موقع تھا۔