آہ! شیہک جان – فرید شیہک بلوچ

426

آہ! شیہک جان

تحریر: فرید شیہک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

ہر روز جانے دنیا میں کتنے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور کتنے نام معرضِ وجود میں آتے ہیں لیکن کچھ ایسی یادیں کچھ ناموں کے ساتھ زندگی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں کہ ہمیشہ زندگی خود انہیں یاد کرتی ہے۔ جن کو بھول جانا ایک جرم ہوجاتا ہے۔ اگر دنیا پر ایک نظر ڈالی جائے تو دنیا میں امن اور دہشتگردی جنگ سے وجود میں آئی، جنگوں نے دنیا کو تباہی سے ترقی تک لے آئے۔ مگر جنگوں کے ہونے سے دنیا تباہی میں بھی جاسکتی ہے، جنگ ہر وقت مثبت ہونی چاہئے، قانونی جنگیں دنیا کو بہت سی بربادیوں سے بچاتی ہیں۔ ایشیاء میں پاکستان نامی ریاست کا وجود میں آنے سے ہی قتل وغارات اور ظلم و بربریت کی ایک نئی ابتداء ہوگئی۔

پاکستان نے بلوچستان کے آزاد اور خود مختیار ریاست کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، غیرقانونی قدم اٹھاتے ہوئے، بلوچ سرزمین پر قبضہ جمالیا، اسی دن سے بلوچوں کی بغاوت، ظالم ریاست کے خلاف چل رہی ہے اور ابھی تک برقرار ہے۔ بلوچستان میں کئی نوجوانوں نے بلوچستان کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کو داو پر لگایا اور ابھی تک بغاوت جاری ہے۔

بلوچستان مشکے کے علاقے میہی جہاں انقلاب کی پھولوں کو خون سے زندہ رکھا گیا ہے، میہی کی سرزمین پر ایک دن، دوران جنگ ۱۳ ساتھیوں سمیت بلوچ قومی لیڈر ڈاکٹر اللہ نظر کے دو بھانجے سمیت بلوچ قومی لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر کے بھائی بھی شہید ہوگئے تھے۔

آج میں ایک ایسے شخصیت کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں، جس نے اپنی پوری زندگی اور ہر خوشی، خواہش کو اپنے قوم کیلئے قربان کردیا، ایک مخلص سرمچار شہید شہیک جان بلوچ، ایک غریب گھرانے میں اسکا جنم ہوا، شہید شیہک جان نے اپنا لہو، اپنے ساتھیوں سمیت اسی سرزمین پر بہایا، شاید میں جتنا تعریف کروں اتنا کم ہے۔ شہید شیہک جان کی جنم اس گھرانے میں خوشی اور رونق لائی اور اس رونق نے انقلاب کے امیدوں کو تازہ اور ایک نیا جوش اور ولولے کے ساتھ نیا کردیا، شہید نے اپنی زندگی میں بہت سے غم اور رنجوں کا سامنا کیا لیکن اس نے کبھی ہارنہ مانی، اس نے ہر اچھے اور برے حالات کو خندہ پیشانی سے قبول کیا، لیکن اس نے کبھی شکست کا نام نہیں لیا۔

انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم جیبری مشکے سے شروع کی اور میٹرک گجر سے پاس کی اور بلوچستان کے غریب زدہ حالات کی وجہ آپ مزید تعلیم حاصل نہ کر سکے ۔ آپ کئی سالوں تک غریبی کی زندگی گذارتے رہے اور زمینداری کرتے اور غریبی کے لپیٹ میں آپ نے بہت محنت کی ۔ آخر کار آپ نے اپنے اصل مقصد کو سمجھ لیا اور اس کو حاصل کرنے کیلئے پہاڑوں میں نوجونوں کے ساتھ ۲۰۰۱سے منسلک رہے اور بلوچستان کے آزادی کے ایک سپاہی بن گئے۔ وہ ایک انتہائی محنتی اور مخلص ساتھی تھے، شیہک جان جیسے نرمزار ساتھیو ں کی ابھی بھی مادروطن کو ضرورت ہے۔ آپ نے بلوچ قومی جدوجہد کو آگے بڑھانے کیلئے ہر طرح کی محنت اور قربانی دی جانی و مالی، وہ بلوچ معاشرے میں ایک سیاسی اور جنگی تبدیلی لانا چاہتا تھا۔

وہ معاشرے میں ہر عورت، بچے اور بھوڑے کے حق اور انصاف کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ وہ بلوچ قومی تبدیلی کا خیال رکھتا تھا اور اس کے ذہن میں صرف یہی بات تھی کہ ہر شخص کے ساتھ انصاف اور برابری کے ساتھ پیش آنا چاہیئے۔ ایک انسان کو سب کچھ معلوم نہیں ہوتا لیکن ایک حد تک اسے بہت کچھ معلوم ہوتا ہے۔ سب سے بڑی چیز انسان میں امید کو پورا کرنے کیلئے جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے، جو محنت کرتا ہے اور محنت میں کبھی ہار نہیں مانتا، وہی شخص کامیاب نکلتا ہے ۔ شہید ان ہی لوگوں میں سے ایک تھا، جس نے کبھی ہار نہیں منی اور ہر وقت مخلصی سے کام کیا اور دوسروں کو بھی محنت کیلئے دعوت دی۔

شہید شیہک نے دوران جنگ کبھی بزدلی نہیں کی وہ دو ہزار ایک سے لیکر دو ہزار پندرہ تک ایک اتنہائی مخلص اور زمہ دار کمانڈر رہے۔ اُس نے اپنی آخری سانس تک بلوچ قوم کو یقین دلایا کہ ہار دشمن کی ہوگی اور دشمن بلوچ قوم کو کبھی شکست نہیں دے سکتا۔

ہم مانتے ہیں کہ بلوچ قومی جدوجہد میں بہت سی کمزوریاں ہیں لیکن آج اتحاد کی صورت میں اُن کمیوں کو ختم کیا جارہا ہے۔ انہیں ہم اپنا شکست کا سبب نہیں بننے دینگے ۔ 30 جون دو ہزار پندرہ کو جب شہید شیہک جان کی علاقے کو پاکستانی آرمی نے گھیرے میں لیا ہوا تھا، تو اُس نے اپنے ساتھیوں کو بچانے کیلئے اپنا جان کو داو پہ لگادیا اور اسی دن اسنے ایک ویڈیو کلپ کے ذریعے اپنا پیغام جاری کیا۔ آپ نے وہیں پر زخمی حالت میں بلوچ قوم اور جہد کاروں سے اپیل کی کہ ایسا کوئی کام نہ کریں، جس سے بلوچ قوم اور جہد کو نقصان ہو، انہوں نے یقین دلایا کہ شکست دشمن کی ہوگی، اس نے اپنے بھائی شہید زاکر جان اور ماما شہید ماسٹر سفر خان اور دس دیگر ساتھیوں کے ساتھ دوران جنگ شہادت نوش کی ۔