قومی سوچ اور بیداری – اسماعیل شیخ

363

قومی سوچ اور بیداری

تحریر :- اسماعیل شیخ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

لسبیلہ کے عوام ایسی نیند میں ہیں کہ انہیں جگانا اور ان میں نظریہ آجوئی لانا بے حد ضروری بن گیا ہے، اسی فکر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں کوشش کروں گا کہ اپنے لاسی قوم میں بیداری لا سکوں. ہمارے باپ دادا سے یہ روایت بنی ہوئی ہے کہ مرنا ہے تو بابا جام کیلئے، چاہے کتنے ہی جام آتے جاتے جائیں۔

دادا نے وڈو جام کو، باپ نے اس کے بیٹے کو، اور ہم نے ان کے بیٹوں کو ووٹیں دینی ہیں، غلامی کرنی ہے، اور اگر ہم بیدار نا ہوئے تو ہمارے اولاد اِن ننڈو جاموں اور پرنسوں کے غلام ہونگے۔

یہ روایت ہمیں ترک کرنا ہوگا کیونکہ وڈو جام نے تو ہمیں پاکستان کا غلام تو بنا ہی دیا لیکن ہم ہر روز ان جام، پرنس، نوابوں، سرداروں کے غلام بنتے جا رہے ہیں. اس غلامی سے نجات حاصل کرنے کا اصل طریقہ یہی ہے کہ ہم ان نوابوں کی نوابی، سرداروں کی سرداری، پرنسوں کی پرنسی اور میر و وڈیروں کی میری اور وڈیرا گیری کو رد کریں اسی میں ہی سماج،اور وطن کی آزادی ممکن ہے۔

ہمارے دفاع کیلئے اور ہمیں شعورِ آجوئی دینے لوگ (لوگ کہنا میں یہاں مناسب نہیں سمجھونگا کیونکہ جو دل کو چھو لیتے ہیں اور مادر وطن کی دفاع میں ہوتے ہیں ان کا شمار دل کے اندر یا آس پاس ہی ہوتا ہے تو وہ سنگت(دل و جان) ہی کہلائے جائیں تو بہتر ہے) ان سنگتوں میں بے شمار سنگت دھرتی لسبیلہ کی خدمت میں دشمن کا صفایا کرنے آئے، جن میں شہید امیر بخش سگار، شہید عبدالخالق، شہید مجید، شہیدحئی، شہید ضیاء دلجان، شہید کرم خان، شہید صمد، شہید رسول بخش، شہید جاوید نصیر جیسے کئی اور ساتھی ہمیں غلامی سے نجات دلانے دوسرے علاقوں سے آئے۔ لیکن ہم جیسے غلامی کی تھکاوٹ میں پڑے نیند میں سالوں سال سوئے ہوئے ہیں. جیسے کے بھائی کا بیٹا اپنے گھر سے آکر میرے گھر کا کام کرے اور میرا اپنا بیٹا صرف یہ دیکھتا رہے کہ کیا ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے کام کرنے پر اس کے کام میں رکاوٹ ڈالے یا یہ کہے کہ کام غلط ہے اسے ایسا نہیں ہونا چاہیے. ایک تو میں اس کے ساتھ کام نا کروں اور اوپر سے اس میں خامیاں نکالوں

آج اگر ہم دوسری طرف دیکھ لیں کہ پشتون اپنے حقوق کیلئے میدان میں اترے ہیں، ہم نے یہ بھی دیکھا اور سنا ہے کہ پشتونوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے، چیک پوسٹوں پر گھنٹوں روکا جاتا ہے، ان سے پنجاب سے آئے ہوئے ایک کرائے کا سپاہی یہ سوال کرتا ہے کہ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جارہے ہو؟ اول تو کوئی ان سے یہ پوچھے تم کون ہوتے ہو؟ مجھ سے پوچھنے والے؟ تم تو باہر سے آئے ہوئے ہو تمہیں کیا حق بنتا ہے یہ پوچھنے کا؟ اور دوسری جانب کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ چیکنگ کے بہانے وہ گاڑی میں موجود ہماری ماؤں، بہنوں کو اپنے غلیظ نظر سے دیکھتے ہیں، اور موبائل نمبر بھی پھینکتے ہیں۔

ہمیں اگر ہمارا ضمیر ملامت نا کرے، تو کیا کرے؟ اگر ہم اس نہج پر پہنچ کر بھی پاکستان کے گُن گائیں تو یہ ایک شرم کا مقام ہے۔

اگر ہم لاسی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ پنجابی فوج ہمارے لیے اچھا سوچتے ہیں، تو ہم سراسر غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ کل یہی پشتون دن رات پاکستان کے گُن گاتے تھے لیکن آج انہیں یہ احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان میں نا ہماری زندگی، نا ثقافت، نا عزت، نا زبان کچھ بھی محفوظ نہیں۔

جہاں قرآن کا واسطہ دے کر وعدہ خلافی کر کے تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے، جہاں بستیوں کے بستیوں کو جلایا جاتا ہے، جہاں اجتماعی لاشیں جن پر تیزاب پھینک کر دفنایا جاتا ہے، جہاں اسلام کے نا پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہو، ایک طرف فلسطین کیلئے روتے ہوں کہ یہودی ان پر قابض ہے اور دوسری طرف دیکھیں تو چائینا میں مسلمانوں کو نا نماز پڑھنے اور نا روزہ رکھنے دیا جاتا ہے لیکن یہاں مفتی/ملا، پاک چین دوستی کو اسلام اور شریعت سے زیادہ مانتے ہیں. یہاں ملا، سردار، نواب، جام، پرنس سب پیسوں کیلئے بکے ہوئے ہیں اور رہا دوسرے چمچوں کی بات وہ تو دن رات جی حضوری، جی بابا میں لگے ہوئے ہیں، یہاں تک کے اپنے باپ کو بھی بابا کہنے سے شرم محسوس کرتے ہیں لیکن انہیں بابا کہہ کر اپنا شان سمجھتے ہیں۔

ان چار پانچ سالوں میں اگر ہم دیکھیں، وزیر برائے گیس اینڈ پیڑولیم بنے ہیں تو ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ بیلہ، اوتھل، وندر کو یہ گیس نہیں دے سکے، حبکو کے ہوتے ہوئے بجلی نا دے سکے، حب انڈسٹریل سے کھربوں کماتے ہیں لیکن آج بھی اِن کے نام سے منسوب جام کالونی کا حال دیکھ سکتے ہیں. ہمیں صرف دھابوں میں فلم اور چائے پینے تک محدود کیا گیا ہے۔

آج لاسی قوم میں شعور زیادہ پائی جارہی ہے کہ ان کے اصل خیر خواہ کون ہیں. وہ جو ان سے ووٹوں کے وقت ووٹ کی بھیک مانگنے آتے ہیں یا وہ جو ان کے آزاد سماج اور روشن مستقبل کیلئے دشمن فوج سے لڑ کر شہادت نوش کر رہے ہیں۔

باقی جو بچے کچھے لوگوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیئے کہ پنجابی دشمن بھی یہی چاہتا ہے کہ آپ لوگ جام، نواب یا پرنس کی غلامی کریں، ان کی چاپلوسی ان کے چھوٹ بوٹ سیدھا کریں اور آپ لوگوں کو ذہنی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں کہ آپ لوگوں کو غلامی کا ذرہ برابر احساس نا ہو جائے تاکہ وہ محفوظ رہیں. یہی چیز اس پنجابی فوج کے بنائے ہوئے جام، پرنس، نواب بھی اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔

آپ لوگوں کے زندگی کا بدل نوکری نہیں ہوسکتا، وہ بھی ایک چپڑاسی کی نوکری جس کے لئے دن رات آپ لوگ ان جاموں، پرنسوں، نوابوں اور باباوں کے چوکھٹ پر حاضری دیتے ہو. آپ لوگوں کو چاہیئے کہ انہیں یک دم مستدرد کرکے ہمیشہ کے لئے ان سے دوری اختیار کر لیں. ان کے عزائم کا حصہ نہ بنیں. اپنے آزاد بلوچستان کی آزادی کیلئے دن رات وقف کریں تاکہ ایک آزاد سماج میں رہ سکیں. ایک چپڑاسی کی نوکری جی حضوری،جی سائیں تمھارا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔.