نقیب اللہ محسود کو کس نے قتل کیا؟ ___ قاضی داد محمد ریحان

1060

اس سوال کاگمراہ کن جواب یہ ہے کہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے جعلی پولیس مقابلے میں کراچی میں دکانداری کرنے والے جنوبی وزیرستان کے ر ہائشی نقیب اللہ محسود کوماورائے عدالت قتل کیا۔ واقعے کے دیگر تفصیلات اخبارات اور نیوزسائٹس میں موجود ہیں ۔ اس وقت نقیب اللہ محسود قتل کیس کی خبر اور اس کا فالو اپ پاکستان کی خبری دنیا میں عروج پر ہے اور تمام تر ملبہ راؤانوار پر ڈالا جارہا ہے ۔ اس سارے عمل میں میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی پھرتیاں دیکھ کر مجھے حیرت ضرور ہے کہ آخرراؤانوار نے ایسا کیا کہ اس کے کچھ پیٹی بھائی اور بااثرافراد اس کے خلاف گھیراتنگ کررہے ہیں ؟ مجھے یہ خوش فہمی ہرگز نہیں کہ اس کی وجہ عوامی دباؤ ہے کیوں کہ عوام کی آگاہی کا ذریعہ میڈیا ہے جس پر ایجنسیوں کا مکمل کنٹرول ہے البتہ اقتدار کے غلام گردشوں میں کھینچاتانی ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان کی

ایجنسیوں اور فورسز کی باہمی رسہ کشی بھی چلتی رہتی ہے اور حکومتیں بھی اسٹبلشمنٹ میں بااثر عناصر کی مدد سے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ راؤ انوار کو بھی پیپلز پارٹی اور آئی ایس آئی کا مشترکہ آشیرواد حاصل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی جو سندھ میں و ن یونٹ کے خاتمے سے لے کر اب تک ہمیشہ اقتدار میں رہی ہے ، کا کراچی کی ” قتالی سیاست” میں ایک اہم کردار ہے ۔ جس نے مسلح مہاجر جماعتوں کے مقابلے میں کراچی کے بلوچ گینگسٹروں کی سرپرستی کی ۔ کراچی کی سیاست میں بیلٹ کی بجائے بولٹ کے ذریعے ہی فیصلہ کرنے کی روایت رہی ہے ۔ ووٹ بینک ہونے کی وجہ سے خود پیپلز پارٹی کے اندر انتخابی سیٹوں کی وجہ سے جھگڑے بھی ہوتے ہیں ۔ ماورائے عدالت قتل بھی پیپلزپارٹی حکومت کی ناک کے نیچے ہوتے رہے ہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی سرپرستی میں نوے کی دہائی ایم کیو ایم کے کارکنا ن کو بڑی تعداد میں چن چن کر قتل کیا گیا ۔ جس کوبنیاد بنا کر 1996میں اسٹبلشمنٹ کی منشاء پر پاکستان کے صدر فاروق لغاری نے پیپلزپارٹی کی حکومت اور اسمبلی کو تحلیل کیا۔

پیپلزپارٹی کا یہی بھیانک چہرہ پاکستان کے اسٹبلشمنٹ کا منظور نظر بھی ہے ۔ پیپلز پارٹی سندھ میں عوامی استحصال ، وڈیرہ شاہی کے استحکام، فوجی جرنلوں کے فارم ہاؤسز اوردیگر جاگیروں کی محافظ اور سندھی نیشنلزم کے خلاف ایک موثر ہتھیارہے ۔ پاکستان میں بڑے پائے کے دانشور، لکھاری اور صحافی پیپلز پارٹی کے اس گھناؤنے کردار پر پڑے پردے  ہٹانے سے گریز کرتے ہیں ۔ اصل میں پاکستانی معاشرے نے کئی منفی چیزوں کو غیراعلانیہ طورپر قبول کیا ہے جس میں پیپلزپارٹی کا منفی کردار بھی ہے۔ جس کی جھلک گزشتہ دنوں بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت میں پاکستانی فوج کے کہنے پر ہونے والی تبدیلی کے عمل میں بھی نظر آئی ، پاکستان پیپلزپارٹی کے عملی سربراہ آصف زرداری نے اعلانیہ طور پراس کا کریڈٹ لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔اس موقع پر انہوں نے اہم بلوچ رہنماء ڈاکٹراللہ نزر بلوچ کے خلاف بھی بیان بازی کی ۔دراصل وہ پاکستانی فوج کو پیغام دینا چاہتا  تھا کہ وہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی ماورائے عدالت کارروائیوں اور جمہوری اداروں پر کنٹرول کی پالیسی کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ حالانکہ اس کی بلوچستان کی کٹھ پتلی پارلیمنٹ میں ایک بھی سیٹ نہیں اور نہ ہی وہاں اس کا کٹھ پتلی وزیراعلی کے تبدیل کرنے میں کوئی عملی کردار تھا۔ مگر بیان دے کر اگلے الیکشن میں زرداری نے اپنی پوزیشن کی یاد دہانی کرائی ہے کہ وہ اب بھی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں اور جس طرح وہ سندھ میں سندھی قوم دوست کارکنان کے ماورائے عدالت قتل ، جبری گمشدگیوں اور انہیں دیوار سے لگانے میں فوج کا ہاتھ بٹا رہی ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی کام کرنے کو تیار ہیں ۔ ظاہر ہے فوج پاکستان میں جنگل کا بادشاہ ہے اس کے کھیل کے اپنے قانون ہیں اور قانون بھی ایسے جنہیں وہ جب چاہئے تبدیل کردے اور طاقت کے مرکز کی خوشنودی سیاسی جماعتوں کا وتیرہ ہے ۔

 پاکستان کی تمام بڑی جماعتیں جنہیں مرکزی دھارے کی جماعتیں کہا جاتاہے جن کے لیے مناسب ترین لفظ’ فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ شریک اقتدار گروپس ‘ ہے اس دوڑ میں لگی  ہوئی ہیں کہ کس طرح فوج کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی حاصل کی جاسکے۔ اس کے تیارکردہ سوالنامے کے مطابق جتنے زیادہ ان کے نمبر آئیں گے اسی کے مطابق انہیں اگلے سال ہونے والے الیکشن میں سیٹوں سے نواز جائے گا ۔ ابھی کے منظر نامے اور سیاسی جماعتوں کی دوڑ کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہے کہ پاکستان کا اگلا پارلیمانی دورانیہ سیاست اور جمہوریت کی زوال کی عبرتناک تصویر ہوگا ۔

جب کسی ملک کا پارلیمان ماورائے عدالت گرفتاریوں کو’ تحفظ پاکستان ایکٹ ‘کے تحت جائز قرار دے چکا ہو وہاں نقیب محسود جو ہزاروں ماورائے عدالت مقتولوں میں سے ایک خوش قسمت ہے جن کے قتل کو پاکستانی اشرافیہ کی توجہ ملی ہے، جس میں ان کے خوبروہ چہرے اور سوشل میڈیا میں ماڈلنگ کا بڑا عمل دخل ہے ۔ اگر وہ سماجی طور پر غیرفعال نوجوان ہوتے تو ان کے قتل پر بھی باقیوں کے قتل کی طرح پردہ ڈال دیا جاتا ۔ والدین ہونہار بیٹے کی لاش کو دفنا دیتے اورشاید ہی ہماری سماعتوں تک اس قتل کی داستان پہنچتی ۔

 وزیرستان اور فاٹا میں پاکستانی مظالم کو آشکار کرنے والے ایک فیس بک نیوزپیج کے مطابق اب تک کراچی میں دو سو پچاس سے زائد صرف وزیرستان سے تعلق رکھنے والے افراد کو ماوارائے عدالت قتل کیا گیا ہے ۔ لوگوں کے قتل کے حوالے سے یہ ایک غیرمعمولی تعداد ہے اور یقیناً وہ دوسو پچاس لوگ بھی گوشت پوست کے انسان تھے ۔اور ایسا بھی نہیں کہ نقیب محسود قتل کے بعد ماورائے عدالت گرفتاریوں کا تسلسل روک دیا گیا ہے ، عدالت اور متعلقہ ادارے اس ایک قتل کے معاملے کو میڈیا پر لاکر فوجی اسٹبلشمنٹ کے اس عوام دشمن بلکہ عوام کش پالیسی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں نہ کہ اس کو جوا ز بنا کر اسے روکنا چاہتے ہیں ۔ بڑی فنکاری سے لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے کہ ایک ایس ایس پی رینک کا پولیس آفیسر تمام ایجنسیوں اور ریاستی اداروں کو چکما دے کر لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرتا تھا۔ اگر ایسا ہی تھا تو اس کے بعد کراچی میں نصف درجن کے قریب گرفتاریوں کو عدالت سے کیوں چھپایا گیا ہے ؟ اگر ان گرفتارشدگان کی کہانیاں آپ وہاں کے مقامیوں سے پوچھیں تو ہر کہانی  نقیب محسود کی ہی کہانی ہے۔

راؤ انوار جیسے لوگ دراصل فوجی اسٹبلشمنٹ کے برین واشڈ یا لالچی مہرے ہیں جو پیسوں اور طاقت کی لالچ میں اس اسکرپٹ پر عمل کررہے ہیں جس کے مطابق ان کا کردار لکھا کیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے اسلم چوہدری تھا اس کا بھی کام یہی تھا کہ وہ فوجی اسٹبلشمنٹ کے ناپسندیدہ کرداروں کو ٹھکانے لگائے ۔ اسلم چوہدری انڈین فلم دبنگ کے کردارچلبل پانڈے کاعین عکس تھا اور اس بیچارے کو یہ باور بھی کرایا گیا تھا کہ ماورائے عدالت قتل معاشرتی اصلاح کے لیے ضروری ہیں اور مرحوم یہ کام بڑی خوش اسلوبی اور کسی حد تک اخلاص سے کرتا تھا۔

 اگست 2009کو رحمان ڈکیٹ کو ان کے دو اور قریبی ساتھیوں نزیربلا اور بابااورنگزیب سمیت ایرانی زیرانتظام بلوچستان کے ساحلی شہر چھبار سے ایک ڈبل ایجنٹ منشیات فروش کے ذریعے بلاکر پاکستانی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے گرفتار کیا اور ماورائے عدالت قتل کا فیصلہ کرکے اپنے منظور نظر اسلم چوہدری کے سپرد کردیا۔ جس نے اسے 9اگست کو 2009کو  قتل کرکے اس کارروائی کو پولیس مقابلہ ظاہر کیا ۔ رحمان ڈکیٹ پیپلز پارٹی کا سپورٹر تھا ، بینظیر بھٹوپر کارساز میں ہونے والے حملے کے بعد رحما ن ڈکیٹ نے ہی انہیں بحفاظت وہاں سے باہر نکال کر محفوظ مقام تک پہنچایاتھا ۔ کہاجاتا ہے کہ ابتدائی گھنٹوں میں کسی کو پتا بھی نہیں تھا کہ بینظیر کہاں پر ہیں ۔علاوہ ازیں رحمان مختلف پاکستانی ایجنسیوں کے ساتھ بھی قریبی روابط میں تھا ۔

اس نے اپنے قتل سے چند مہینے پہلے ایک مشترکہ دوست کے توسط بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی صدر شہیدغلام محمد بلوچ کو بھی پیغام بھجوایا تھا کہ اسے ایجنسیوں نے شہیدغلام محمد بلوچ کے قتل کا ٹاسک دیا ہے ۔ رحمان ڈکیٹ کے بقول:” وہ اس ٹاسک کو پورا نہیں کریں گے لیکن غلام محمدبلوچ کو اپنے تحفظ کی فکرکر نی چاہئے ۔ “اس بات کے اور بھی ٹھوس ثبوت ہیں کہ رحمان ڈکیٹ کی پوزیشن کو مستحکم کرنے اور اسے سامنے لانے میں پاکستانی ایجنسیوں کا بنیادی کردار تھا جسے استعمال کرکے انہوں نے اپنے کئی اہداف حاصل کیے اور بعد میں حسب روایت اس کو بے قابو دیکھ کر قتل کردیا ۔ اس کے قتل کے بعد لیاری کی مجرمانہ سلطنت کے تخت پر بیٹھنے والے گرفتار عزیر بلوچ کے بارے میں بھی باخبر ذرائع یہی کہہ رہے ہیں انہیں سیاسی کرداروں کو لگام ڈالنے کے لیے پال رکھا گیا ہے اور کسی بھی وقت اسے کسی اہم سیاسی شخصیت کے خلاف سلطانی گواہ بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے ۔

راؤانور نے بھی اپنے ایک بیان میں دبے لفظوں اس گھناؤنے عمل کے بارے میں کہا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کا فیصلہ سرکاری سطح پر کیا گیا تھا ۔ اس کے بقول :’’اس دلیل کی بنیاد پر یہ قتل کیے گئے ہیں کہ جھوٹے مقدمات بنا کر اُن لوگوں کو عدالت سے سزا دینا ممکن نہیں جن کے مجرم ہونے کا سیکورٹی فورسز کوتو سوفیصد یقین ہے لیکن ان کے جراہم کے ٹھوس ثبوت موجود نہیں ، اس لیے انہیں قتل کرکے ہی نام نہاد ریاستی مفادات کا تحفظ کیا جاسکتا ہے ۔‘‘
کراچی میں تمام پشتون کاروباری افراد پر یہ لاگو کیا گیا ہے وہ افغان طالبان کی فنڈنگ کریں اس بنیاد پر ایم کیو ایم جو خود بھی چندے کے نام پر کراچی کے کاروباری افراد کو لوٹتی رہی ہے نے بارہا احتجاج کیا ہے کہ کراچی میں طالبان کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے اور یہ کھلی چھوٹ اب بھی ہے ۔ ہوسکتا ہے ،نقیب محسود کو بھی اس بنا پر زیرعتاب رکھا گیا ہو کہ انہوں نے ریاستی فورسز کے منظور نظر افراد کو چندہ دینے سے انکار کیا ہو ، جس کے پاداش میں اسے سزا دی گئی ، وہ سزا جس کا تعین پاکستانی سیکورٹی فورسز نے کیا ہے ۔

راؤ انوار نقیب محسود کا قاتل نہیں بلکہ ریاست پاکستان ، اس کے سیکورٹی فورسز ، پیپلز پارٹی جیسی شریک اقتدار جماعتیں اور تحفظ پاکستان ایکٹ کو قانون بنانے والے پارلیمنٹیرین سب ہی نقیب محسود اور ان ہزاروں نوجوانوں کا قاتل ہیں جنہیں پاکستانی سیکورٹی فورسز بندوبست پاکستان کے طول وعرض میں ماورائے عدالت قتل کررہی ہیں ۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ چند ٹویٹس اور نعرے بازی سے ہونہاروں کا یہ قتل عام رک جائے گا تو آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اگر یہ فیصلہ صرف راؤ انوار کا ہوتا تو آج وہ سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ اس کا اور اس کی ٹیم کا آزادانہ نقل وحمل اس بات کا غماز ہے کہ اصل قاتل اپنے اجرتی قاتلوں کو تحفظ دینے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں ۔ دم تحریر تازہ ترین اطلاع ہے کہ راؤ انوار منظرعام سے غائب ہوگئے ہیں شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ ایک چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے بھاگ گئے ہیں ہیں اور ذرائع کہہ رہے ہیں کہ اُڑان بھرنے والے طیاروں میں سے ایک طیارہ کے مالک آصف علی زرداری کے قریبی دوست ہیں ۔