جیل ـــ شعیب امان سمالانی

536

وہ عجیب قیدی تھا کہ جس کے لئے یہ اہم نہیں تھا کہ وہ کب سے جیل میں ہے اور کب آزاد ہوگا بلکہ اس کیلئے اہم بات یہ تھی کہ وہ مجرم کیسے بنا؟ اوروہ فعل جرم کیسے بن گیا اور اس فعل کو کس قانون نے جرم بنایااور وہ قانون کس نے بنایا اور اسے جیل میں کس ڈھنگ سے رہنا ہے۔ وہ ان سوالات کے بارے میں ہی سوچتا۔ایسے تمام قوانین کا کسے اور کیسے شعور ہے کہ یہ کیسے بنے کس نے بنائے اور کیوں بنائے ؟ وہ سوچتا کہ یہ بھی ابتدائی شعور ہی تھا جس نے انسان کو گناہ گار ثابت کیا اور اس کو آسمان زمین پہاڑ دریاسمندر گہرے پانی ‘اندھیرے ،وشنی ۔ جانوروں پودوں اور درختوں کودوست بنانے اور پیار کرنے کی بجائے اسے ان سے ڈرنے اور ڈر کے مارے ان کے جھکنے پر مجبور کیا ۔صدیوں سے انسان یوں جھکا ہوا ہے ۔
ایک یہ قیدی تھا جو اس طرح سوچتا لیکن دوسری طرف جیل میں ہزاروں قیدی مصائب آلام کا شکارتھے جو لمحہ بہ لمحہ جیل سے باہر نکلنے کا سوچتے ۔ اس نفسیاتی کشمکش میں حکام اور اہلکاروں کے تشدد اور گالیوں کا نشانہ بنتے۔ ذہنی اذیت سے چھٹکارے کیلئے نشے میں دھت رہتے۔ غصہ اتارنے کیلئے گالم گلوچ اور تشدد کرتے ۔کمزور قیدیوں پر طاقتور قیدیوں کا یونانی گلیڈئیٹرز طرز پر تشدد کے تماشے روز کا معمول تھے ۔کتنے قیدی آئے کتنے گئے ، ہر کوئی اس قیدی سے اس کے جرم کے بارے میں پوچھتا تو یہ کچھ بتانے سے قاصر رہتا ۔قانون سے آشنا قیدی ہمدردی کے طورپر وکیل کرنے کا کہتے کہ وہ قانونی راستہ اختیار کرکے باہر جاسکتا ہے لیکن یہ اپنے جرم کے بارے میں بتانے سے قاصر رہتا ظاہری طورپرایسا لگتا کہ اسے جیل سے باہر آزادرہنے کا انسانی شعور چھو کے نہیں گزرا ہو ۔ دوسرے لوگوں کو قیدی بنتے اور پھر باعزت بری ہوتے دیکھتا لیکن خود اس کے اندر جیل سے رہائی کی تڑپ پیدا نہیں ہوتی ۔ بس جو اس کے بیرک میں آتایہ اس کا ساتھی بنتا اور اس سے میل ملاپ یوں رکھتا کہ صدیوں کی جان پہچان ہو ۔شاہداس کے لئے یہی انسانی تاریخی شعور ہی کافی تھی ۔ بری ہونے والوں کو یوں رخصت کرنا کہ جیسے کوئی دوست دوستوں کی محفل سے گھر جانے کیلئے اٹھ کر چلا جائے ۔ قیدیوں سے یوں میل ملاپ رکھتا کہ جیسے باہر کی دنیا ہو۔نہ کبھی باہر کی دنیا کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوتا نہ کبھی رہائی کی تمنا کرتا ۔یہ سربستہ راز تھا۔
دوسرے قیدیوں کو اس کے بارے میں محض یہ معلوم تھا کہ قانون شکنی کے جرم میں دس سال کی سزا ہوئی ہے ۔ جبکہ اس نے قانون شکنی کیسے کی اور کیوں کی ؟ اس بارے میں نہ تو وہ کچھ بتاتا اور نہ ہی دوسرے جان سکے ۔اس کی اس پراسرار یت کودیکھ کر بعض قیدی اسے مشکوک سمجھ کر نظرانداز کرتے ‘کچھ قیدی اسے بڑے بڑے سیاسی گروپوں کا حصہ سمجھ کر فاصلہ رکھتے کہ ایسے لوگ کمٹڈ ہوتے ہیں زندگیاں جیلوں میں گزارتے ہیں لیکن کچھ نہیں اگلتے لیکن کچھ قیدی اس کہانی کو غیرتسلی بخش سمجھ کر اس سے میل ملاپ رکھنے میں خوشی محسوس کرتے اور ساتھ ساتھ یہ دیکھنے کی کوشش کرتے کہ یہ شخص کب کون سی بات چھپانے کی کوشش کرتاہے اور کس بات پر غصے میں آتاہے تاکہ اس کے اندر کی کہانی میں جھانکی جاسکے لیکن یہ کسی بھی لمحے میں سیاسی نہیں ہوتا اورنہ ہی کسی سے کوئی رازداری رکھتا ۔پھر سیاسی اور بڑے گروپوں سے تعلق کو یوں سالہاسال کیسے چھپایاجاسکتا تھا اور پھر جیل میں سیاسی ومذہبی اور بڑے بڑے سمگلر قیدی بھی تو موجود تھے ۔ ان کے لئے پارٹیوں کے بیانات آتے تھے ان کو سہولیات کی فراہمی کیلئے جیل انتظامیہ پر دباﺅ بڑھایاجاتا اور پھر ملاقاتیوں کی لائنیں لگتیں ۔یہ تو جیل کا کھانا کھاتا اور اس پر ہی خوش رہتا ۔اس کی جیل میں نشہ کرنے تشدد کرنے اہلکاروں کیساتھ گتھم گتھا ہونے کی بجائے نرم مزاجی سے اور خوش رہنے کی حالت کو دیکھ کر جیل انتظامیہ بھی بڑے عرصے تک شش وپنج میں رہی اور جیل کی انٹیلی جنس اس کے پیچھے رہی لیکن وہ بھی اس کی یہ سادہ حالت دیکھ کر تھک گئی اب یہ جیل میں کسی کی نظروں میں بھی مشکوک نہیں رہاتھا ۔
جی ہاں یہ مچھ جیل ہے ۔جیل کی حالت یہ ہے کہ یہ اونچے پہاڑوں کے اوٹ میں ایک ٹیلے پرقائم ہے اور شہر نسبتا نیچے ہموار زمین پر آبادہے۔ انگریز دور کے اس جیل کی دیواریں بہت اونچی ہیںاور مضبوط بھی ۔شمال کی جانب ایک بڑی ندی ہے اور پھر اونچے پہاڑ ۔دیواروں سے کچھ اوپر دیکھاجائے تو پہاڑ کی صرف نیلی چوٹیاں ہی نظرآتی ہیں ۔ نسبتا چھوٹے شہر میں پہاڑیوں کے درمیان میں اس قدربڑے جیل کا مقصد اس کو قیدیوں کیلئے مزید پرخطرظاہر کرنا تھا ۔انگریز کے زمانے کے جیل کی خصوصی بات یہ ہے کہ یہ اس شہر کی پرانی عمارتوں میں سے ایک اور بہت اہمیت کا حامل ہے اس کا طرز تعمیر حیرت انگیز ہے ،اس کے اندر ہزاروں قیدی رہتے ہیں جو سزا یافتہ ہوتے ہیں۔بیشتر قیدی جو یہاں پیدا تو نہیں ہوئے ہوتے لیکن پھانسی کے پھندے پر جھو ل کر بعض کی آخری سانسیں اسی شہرمیں ٹوٹتی ہےں ۔ علاقے میں کبھی تیز ہوا چلتی ہے تو روایت ہے کہ اس کی وجہ بے گناہوں کی پھانسی ہے اور یہ بھی مشہور ہے کہ کسی بزرگ کو یہاں پھانسی دیدی گئی تھی جب سے یہاں کبوتر وں کی بڑی تعداد عمارت کے گنبدوں میں بسیرا کئے ہوئی ہے۔ اکثر قیدی اس جیل کی چار د یو ا ر ی میں زندگیاں بتاتے ہیں ۔ان کو اپنوں کے بھیجے گئے سندیسے اسی شہر کے پتے پرآتے ہیں تب یہ اس شہر کے باشندے ہی شمار ہوتے ہیں ۔
اس قیدی نے کئی دنوں تک جیل کاجائزہ لیا اور دیکھا کہ جیل محض ایک عمارت ہے اور اس کے اندر قیدیوں کی ایک دوسرے سے انجان سی بے چین زندگی۔ یہاں کشمکش سی لگی ہوئی ہے ۔امیر قیدی غریب قیدیوں کو مطیع بنائے ہوئے ہیں۔اہلکار اور قیدی آمادہ جنگ رہتے۔ہر روز کوئی نہ کوئی قیدی اہلکاروں کے ہاتھوں لہولہان ہوکر ویران ہسپتال کے بیڈ پر پڑا رہتا۔بعض اوقات قیدی مل کر کسی اہلکار کو لہولہان کرتے۔ایک جنگ کی سی کیفیت تھی۔اکثر قیدیوں کے گروپس آپس میں یوں گتھم گتھا ہوتے کہ گھمسان کی لڑائی ہوتی۔ایک دوسرے کو آدھ منہ کرکے چھوڑتے۔جیل توڑنے کی ترکیبیں سازشیں اس بابت کسی غیبی مدد کا انتظار ہر قیدی کرتا۔یہ آرزو زدزبان عام تھی کہ کاش کوئی زور کا زلزلہ آجائے اور یہ اونچی دیواریں ڈیہہ جائیں اور ہم آزاد ہوں،یہ سوچے بغیر کہ اونچی دیواروں کے ڈیہہ جانے سے وہ بچ کر نکلیں گے اور پھرقبرستان بنے شہر میں جاکر وہ کونسی آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ یہ سوچتا اور ہنستا ۔اس نے دیکھا جیل کے کسی نچلے حصے سے چشمے کا صاف پانی گزررہا تھا جبکہ زمین پتھریلی اور غیرہموار تھی جس پر کچھ توت اور ناشپاتی کے پرانے درخت موجودتھے جن کی کوئی دیکھ بھال نہیں ہوئی تھی ۔ پتھریلی زمین ہونے کی وجہ سے ان درختوں کے نیچے کسی قیدی کا سستانا بھی ممکن نہ تھا اور شاہد مشقت کے مارے قیدیوں کوان درختوں کے نیچے سستانے اور چہچہاتے پرندوں کی آواز سننے کاکبھی خیال بھی نہیں گزرا ہوگا۔
ایک دن جب تمام قیدیوں کو بیرکوں سے باہر ہانکھاگیا تو یہ قیدی سیدھ ان درختوں کے پاس گیا اور ان کے نیچے پتھریلی زمین کو ہموار کرنے کاکام شروع کردیا ۔اس کے پتھر ہٹائے کچھ دن تک زمین مکمل ہموار کی اور اس کو بالکل صاف کردیا۔دوسرے قیدی جو پہلے اس کے کچھ نہ کرنے پر حیران تھے اب یہ دیکھنے لگے کہ یہ کیا کرنے جارہا ہے ۔اور سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف آنکھ بھر کراسے دیکھتے کہ اب یہ کیا کرنے لگاہے ۔ جب زمین ہموار ہوگئی تو اس ن اس میں کیاریاں نکالیں اب لگا کہ یہ یہاں کچھ اگانا چاہتا ہے۔تب اس نے جیل اہلکاروں سے خوشبودار پھولدار پودوں کے بیج ، درخت کے نہال کی فراہمی کا کہا لیکن اسے مطلوبہ بیچ اور نہال دینے میں کسی کو کوئی دلچسپی نظرنہیں آئی ۔بلکہ ایک حوالدار نے اس کامنہ چڑھاتے ہوئے کہا کہ
یہاں پھول اور درخت لگانافضول ہے ۔یہ جیل ہے یہاںکسی کو پھول دے کر خو ش نہیں کیاجاسکتا ۔چکی پیسو لنگر میں کام کرو قالین اور کپڑے بننے کی فیکٹری میں کام کروتاکہ حکام تمہارے کام کو مشقت شمارکرکے تمہاری سزا کی مدت میں کمی کرسکیں ۔
اس نے اہلکار کی بات کاجواب ہلکی سی مسکراہٹ سے دیا اور اس بات کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام جاری رکھا اس نے اس غیر ہموار زمین پر خوبصورت کیاریاں نکالیں ۔ اس کی اس گہری محنت کو دیکھ کرمنشیات فروشی کے جرم میں سزایافتہ لنگڑا کاہل اور نکماقیدی ” جگنو “ جس کا بے چینی کے سبب کسی اور کام میں دل نہیں لگتا تھا وہ اس کا ساتھی بن گیا اور اس کا ہاتھ بٹھانے لگا جوبیرک میں بھی اس کے ساتھ رہتاتھا اور یہ جگنو کثرت سے سگریٹ اور چرس پینے کے باعث خشک دماغی کیساتھ بولتا رہتا تھا اور یہ اس کی باتیں خاموشی سے سنتا رہتا اور مسکراتار ہتا ۔ جگنوبیرک کی بتی بجھنے کے بعد رات دیر تک سگریٹ پیتا اس کی سگریٹ کی روشنی بیرک کے اندھیرے میں جگنو کی روشنی کی مانند نظرآتی تب اسے اس نے جگنو کانام دیا۔اب وہ اور جگنو باغ میں کام کرنے لگے تھے ۔
جب جیل کے اہلکاروںنے اسے پودوں کے بیج اور درخت کے نہال لا کر نہیں دیئے تو اس نے اپنے بیرک کے کچھ قیدی دوستوں سےکہاکہ وہ اپنے ملاقاتیوں کے ذریعے مطلوبہ بیج اور درخت کے نہال اسے لے دیں ۔دوست قیدیوں نے اسے بیج اور کچھ درخت کے نہال فراہم کردیئے جہاں اس نے اپنا کام مزید جاری رکھا ۔اس نے باغیچہ میں چمن آگایا اور اردگرد گلاب ‘گل لالہ ‘چنبیلی اور مورپنکی ، انار توت کھجور پیپل ناشپاتی اور لیمو کے نہال لگائے اور انہی کیاریوں میں اس نے خوبصورت خوشبودار پھولوں کے بیج بوئے ۔ دیگرمشقتی قیدیوں نے ہوشیار کرنے کی خاطرراز دارانہ اندازمیں اس سے کہا کہ
تمہیں ان خوشبودار پھولوں کے اگانے پر شاہد سزا میں کوئی تخفیف نہیں ملے گی یہ پھول کس کام کے ۔ ایسا کام کرو جو حکام کو فائدہ مند لگے ۔تم فضول میں وقت برباد کررہے ہو ۔ہمارے ساتھ ایسا کوئی فائدہ مند کام کرو تاکہ حکام تم سے خوش ہوں اور تمہیں سزا میں کوئی رعایت ملے ۔
یہ سن کر وہ مسکرایااور اپنا کام جاری رکھا ۔
اب چشمے کے پانی سے چھوٹا سا باغیچہ سیراب ہونے لگاتھا۔دوسرے قیدی اپنا مشقتی کام کرتے رہے اور یہ تسلسل سے اپنے ننے پودوں کو دیکھتارہتا اور ان کی پرورش کرتا رہا ۔بالآخر ایک دن باغ پر نگاہ دوڑائی تو لگا کہ پودے اب لڑکپن سے نکل کر شباب میں قدم رکھنے لگے تھے اور کچھ ہی دنوں بعد ان میں عالم شباب کے وہ نایاب پھول کھلنے لگے جو ہرپودے کی پہلی اولاد ہوتی ہے ۔دیکھتے ہی دیکھتے باغ کے اس حصے میں پھولوں کی خوشبواور گہرے رنگ بکھرنے لگے ۔ درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ میں اضافہ ہوگیاتھا جیسا کہ ان کیلئے جیل میں ایک نئی دنیا آباد ہوگئی ہو اور وہ تیزی سے یہاں آباد کاری کرنے لگے ہوں ۔صبح گنتی کے بعد مشقتی قیدیوں کو کام کیلئے ہانکھاجانے لگتاجن کو بندوقیں سنبھالے اہلکار بیرکوں سے باہر لے آتے ۔اب یہ باغ میں قائم اپنے باغیچے والے حصے پر نگاہ ڈالتے ہی مسرت سے سرشارہونے لگتا ۔جنگو بھی لگڑاتا ہوااس کے ساتھ ہولیتا ۔
ایک دن وہ باغیچے میں آکر دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کرتے ہوئے گہری سانس لینے لگا۔
جنگو نے یہ دیکھ کر بھنا کر کہا
اف اب ورز ش شروع ۔ کیا یہ باغیچہ اس لئے اگایاتھا؟
نہیں یہ ورز ش نہیں اور ویسے بھی اس جیل میں تمہارے پاس اہلکاروں سے الجھنے کے سوا بچا کیا ہے ۔تمہیں سگریٹ پینے کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور تم کھانستے بھی بہت ہو ،یہاں آﺅ دوزانو ہوکر بیٹھ جاﺅ اور گہری سانس لے کرپھر آہستہ آہستہ باہر نکالو اور پھرگہری سانس اندر کھینچو ۔
اف میری توبہ مجھے تو پہلے سے سانس لینے میں اتنی تکلیف ہوتی ہے اور تم ہو کہ مجھے گہری سانسیں لینے کا کہہ رہے ہو۔جگنو نے جل کر جواب دیا
تب ہی تو کہہ رہاہوں ۔یہ تمہارے لئے اور زیادہ ضروری ہے ۔
جنگو کیلئے اس کی بات کوٹالنا بھی مشکل تھا۔ سانس باہرنکالنے اور کھینچنے کاعمل شروع کیا تو جگنو کو بڑی مشکل ہوئی ۔اس نےجگنوکو کہا کہ سانس سینے تک لے جانے کی بجائے گہرائی سے اندر تک کھینچنے کی کوشش کرے ۔
میں نے زندگی بھریونہی سانس لی ہے اب گہری سانس کیسے لوں۔جگنو نے صفائی دینا چاہی
آج سے تم گہری سانس لوگے۔اور ایسا تم یہاں آکر روز ایسا ہی کروگے ۔اس سے تم شناتھ رہوگے
جگنو چار وناچار یہ عمل کرنے لگا۔
یہ دونوں الصبح سورج نکلنے سے پہلے ہی یہ عمل کرنے لگے تھے ۔جگنوکو شروع میں تکلیف محسوس ہوئی لیکن کچھ وقت بعد آہستہ آہستہ اسے اچھا لگنے لگا۔اب وہ گہری سانس لیتے لیتے راحت محسوس کرنے لگا تھا۔ سینے میں تکلیف کم اور تکاوٹ کم ہونے لگی تھی ۔اس کا اظہار وہ بار بار اس سے کرنے لگا تھا اور یہ کچھ بولنے کی بجائے ہلکی سے مسکراہٹ میں جواب دیتا۔جگنو کی حالت دیکھ کر سگریٹ پینے والاایک اور قیدی مولا بخش بھی ایک صبح ہانکے ہوئے قیدیوں کیساتھ باغ میں آتے ہوئے ان کے ساتھ ہولیا ۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھاتو مولابخش مسکرایا جس سے اس کے سگریٹ زدہ سیاہ رنگت کے دانت نظرآئے ۔
مولابخش بھی یہ عمل کرنے لگا تھا۔اب یہ تینوں یہ عمل کرنے کے بعد باغیچہ میں کام کرنے لگتے اور پھر سستانے لگتے ۔پھولوں کی خوشبو سونگھتے ۔چشمے کے ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہوتے ،پرندوں کی چہچہاہت سے خو ش ہوتے ۔درختوں کے نہال جو ابھی کچھ بڑے ہوگئے تھے ان کی دیکھ بھال کرتے ۔یہ جگہ اب قیدیوں کو للچانے لگاتھا ،جہاں بیٹھ کر تھوڑی دیر کے لئے قید اور جیل کو بھلایاجاسکتاتھا ۔اور شاہد اس پر اسرار قیدی کا مقصد بھی پرمژدہ اور بے جان قیدیوں کو کچھ دیر کیلئے ایسی کیفیت دلانے کی کوشش تھی ۔
کچھ دنوں بعد مولابخش نے بھی اس عمل کی فرحت بخشی کا چرچاپورے جیل میں پھیلا دیاتب روز ایک نیا قیدی ان کیساتھ باغ میں آجاتا۔تیسرا چوتھا اور پانچواں یوں روز ایک شخص ہانکھے ہوئے قیدیوں کیساتھ آتے آتے ان کے ساتھ باغیچہ کی جانب مڑنے لگا تھا ۔ کچھ تو قالین اور کپڑے بننے والی فیکٹریوں سے کام چھوڑ کر بھی ان کے ساتھ باغیچہ میں آنے لگے تھے ۔اب یہ سلسلہ محض سگریٹ پینے والوںتک محدود نہیں تھا بلکہ بعض لوگ آنے لگے اور سب نے اس عمل کی فرحت بخشی کو محسوس کیا اور اپنے ساتھیوں کو ترغیب دیتے رہے ۔باغیچہ کے چمن میں لائنیں لگنے لگیں ۔اہلکار وں کو بھی حیرانگی ہوئی کہ سب مشقتیکا کام چھوڑ کر فضول کام کرنے لگے تھے ۔وہ ان کو ڈانٹتے کہ وہ باہر نکلنے کا سوچیں اور تیزی سے مشقت کا کام کرکے اپنی سزا میں کمی کرالیں اور اپنے بیوی بچوں دوستوں سے جاملیں ۔
اس عملکی جیل کی قیدیوں سے زیادہ بلا کسے ضرورت تھی ۔ اب تقریبا جیل کے تمام قیدی اس عمل کاحصہ بننے لگے تھے جبکہ بعد میں ہر کوئی اپنے اپنے مشقتی کام پر بھی جاتا ۔ کچھ وقتوں بعد قید تنہائی کے علاﺅہ تمام قیدی اس عمل کا حصہ بننے لگے ۔ حفاظت پر مامور اہلکار بھی کندھوں سے بھاری بھر کم بندوقوں کو پرے رکھ کر یہ مشق کرنے لگے تھے ۔جگنو مولا بخش کچھ اور قیدی باغیچہ میں جاکر پودوں اور درختوں کو پانی دیتے ان کی صاف صفائی کرتے ۔ تمام جگہوں پر کام کرنے والے مشقتی قیدی بھی سستانے کے لئے باغیچہ میں آنے لگے تھے ۔سرسبز چمن اور اس کے اردگر گلاب گل لالہ نازبو چمبیلی اوردوسرے خوشبودار پودے لہلانے لگے تھے،درخت بھی ان پودوں کیساتھ سرسبز تھے۔قیدی اس جگہ کو پسند کرنے لگے تھے ۔جیل انتظامیہ کو یہ بات بڑی حیران کن لگی کہ قیدی جو کوئی بھی کام بغیر تشدد کے نہیں کرتے اب یہ باغیچہ کو سزا میں تخفیف کے لالچ کے بغیر پانی دینے لگے تھے اور اس کی صاف صفائی کرنے لگے تھے بلکہ اب تو یہ کسی ایک کی ذمہ داری نہیں تھی اب ہر کوئی اس کی مزید خوبصورتی کیلئے کام کرنے لگا تھا ۔کچھ قیدی مزید بیچ منگوا کر باغیچہ کا احاطہ بڑھانے لگے تھے ۔اب اس کا علاقہ بڑھتا گیا تھا باغ کے تمام حصے پر خوشبودار پھولوں والے پودے اور درخت لگائے گئے ۔ یہ سلسلہ باقاعدہ معمول بن گیا تھااور اس کے خوشگوار اثرات کے باعث قیدیوں سے سگریٹ چھوٹتی گئی۔ مارچ کے موسم میں باغ میں ننے پھول نکل آئے تھے ۔سرسبز پتوں سے ڈھکے بیل درختوں پر بکھر گئے تھے۔چڑیوں کی چہچہاہٹ سے جیل کے پژمردہ ماحول میں روح پڑ گئی تھی اور سارا ماحول چڑیوں کی سریلی آواز سے چہک اٹھاتھا۔ یہ خوبصورت قدرتی منظررہائی کے غم میں ہلکان قیدیوں کیلئے آزاد فضاءکا متبادل بن گیاتھا ۔ جیل کا ڈاکٹرحیران رہ گیا جہاں پہلے جیل میں قیدیوں میں سگریٹ زیادہ پینے کے باعث سانس کی تکلیف اور کھانسی کی شکایات عام تھیں وہ اب کم ہونے لگی تھیں ۔ ڈاکٹر نے آکر اس پراسرار قیدی کوکہا
بہت خوب ،قیدی تو جیل سے نفرت کرتے ہیں وہ یہاں سکون سے کیسے رہیں گے درخت اور پھول کیوں اگائیں گے ایک قیدی سے یہ امید نہیں تھی لیکن تم نے ایسا کیا ۔درخت اور پھول اگانے کے بعد قیدیوں کو سگریٹ نوشی سے چھٹکارہ دلانے کی کوشش بہت اہم کام ہے اب تو جیل اہلکار بھی چپکے سے اس عمل کو کرنے لگے ہیں ۔ماردھاڑ بھی بندہوچکی ہے اب جیل میں ۔شاباش
ڈاکٹر کی بات کے جواب میں اس نے کہا
یہ قیدی سمجھتے ہیں کہ یہ بالآخراپنے گھروں کو جائیں گے تو پھر جیل میں رہ کر کیوں درخت اگائیں پھول اگائیں ۔میں آج جیل میں ہوں سالوں تک اس میں رہونگا۔اس کا مطلب کئی سال تک یہ جیل ہی میرا گھر ہے اور میں اس کا رہائشی ہوں ۔اگر مجھے جیل میں رہنا ہے تو اس کو مجھے اپنے رہنے کے قابل بنانا ہوگا ۔میں نے کسی پر احسان نہیں کیا ۔اگر کوئی قیدی اب اس بات کو سمجھ رہا ہے تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں ۔یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا ۔
ایک دن وہ باغیچہ میں یونہی بیٹھا تھاکہ اسے حسب معمول کسی کی چیخ وپکار کی آواز سنائی دی۔کوئی بری طرح پٹ رہا تھا یقینا کچھ لوگ اسے ماررہے تھے۔اس نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا کہ یہ جیل کا معمول تھا۔اسے چیخ وپکار کی آواز قریب سنائی دی تو اس نے دیکھا کہ وہ شخص جو کہ ایک قیدی تھا اور اس کے جبڑے سے خون بہہ رہا تھا اس کی طرف آرہا ہے اور آتے ہی اس سے التجاءکرنے لگا کہ وہ اسے ان سے بچالے جو اسے مارررہے ہیں ۔بات کرتے ہوئے اس کے منہ سے تھوک کے خون آلود چھینٹے نکل رہے تھے
اسی اثناءمیں دواور قیدی تیزی سے اسی جانب آئے جب دیکھا کہ وہ شخص اس قیدی کے پاس پہنچ گیا ہے تو وہ زور سے چلاتے ہوئے اسے للکارہ کہ وہ اس شخص کو ان کے حوالے کرے ورنہ وہ بھی پٹنے کیلئے تیار رہے ۔یہ چور ہے اسے آج نہیں چھوڑیں گے ۔ان قیدیوں کے پیچھے قیدیوں اور اہلکاروں کا ہجوم امڈ آیاجو گلیڈئیٹڑز کاتماشہ دیکھنے جمع ہوگئے تھے جو جیل کا معمول تھا ۔
اس نے کہا ۔اسے میں نے نہیں بلایا یہ تو خود یہاں آکر بیٹھ گیا،اسے لے جاسکتے ہو۔
یہ سنتے ہی زخمی قیدی اس سے مزید چمٹ گیا اور التجاءکرنے لگا کہ میں چور نہیں ہوں یہ لوگ مجھے مار دینگے خدارا مجھے ان سے بچالے ۔یہ کہتے ہوئے اس کے منہ سے مزید خون بہنے لگا
اس نے کہا
میں تمہیں ان سے کیسے بچا سکتا ہوں ؟اور تم پورے جیل کے لوگوں کو چھوڑ کر میرے پاس کیوں آئے ؟
جیل میں ان کا حکم چلتا ہے تمہارے سوامجھے ان سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔زخمی قیدی روپڑا
مجھ میں ایسی کیا بات ہے جو تم میرے پاس آئے ؟میں ان سے تمہارے لئے نہیں لڑ سکتا۔اس نے اسے ایک بارپھر مایوسانہ جواب دیا۔
تم نہیں لڑتے یہی تو آپ کی طاقت ہے ۔تب ہی توتم مجھے ان سے بچا سکتے ہو۔اس زخمی قیدی نے لرزے ہونٹوں کیساتھ اسے اس کے سوال کا جواب دیا
جب تم نے طاقت کا راز پالیا ہے تو میرے پاس کیا لینے آئے ہو۔ تم بھی ان سے مت لڑو۔اپنے آپ کو ان کے حوالے کردو ۔
میں ان سے نہیں لڑرہا ۔میں تو جان بچانے کیلئے بھاگتا پھر رہا ہوں ۔مجھے بچاﺅ۔اس نے ایک بارپھر التجاءکی
تمہیں زخم دو صورتوں میں آتے ہیں یا تو تم لڑتے ہو یا پھر بھاگنے اور بچنے کی کوشش کرتے ہو ۔تم تیسری طاقت آزماﺅ۔اپنے آپ کو ان کے حوالے کردو۔تم انہیں شہ دے رہے ہو جب تم چور نہیں ہو تو بھاگتے کیوں ہو۔جب تم بھاگتے ہو تو خود کو چور ثابت کرتے ہو ۔تم نے ان کا کوئی نقصان کیا ہے تو اس کی سزا بھگتو اگر سزا بھگتنے کی طاقت نہیں توایسا کیوں کرتے ہو۔
تمہارا مطلب اسے اپنے گال تھپڑ کیلئے بڑھانے چاہئے
مجمع میں سے کسی قیدی نے طنزا جملہ کسا
بالکل میرے خیال میں اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے ۔آدمی دو طرح کے جرم کرتا ہے ۔ایک ددانستہ اور ایک نادانستہ۔نادانستہ جرم کرنے والا بھاگتا نہیں اور دانستہ جرم کرنے والے میں ٹھہرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ دانستہ جرم نہ کرنے والے کے دونوں گال مار کرنے کیلئے اس لئے تیاررہتے ہیں کہ نادانستہ جرم کیلئے ایک گال پر مار ہی کافی ہوتی ہے کیونکہ اس پر سزا کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ جبکہ دانستہ جرم کرنے والے کیلئے اس کا پورا وجود بھی ناکافی ہوتا ہے تب وہ ایک گال بھی پیش نہیں کرسکتا۔ ہم اپنے آپ کو اپنے رویوں سے مجرم ثابت کرتے ہیں ۔ہمیں یہاں ہمیشہ بچنے کے گر سکھائے جاتے ہیں جو جتنا محفوظ رہتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب انسان کہلاتا ہے اور اس کو حالات سے مقابلہ ااور آگے بڑھنے کانام دیاجاتا ہے ۔حالانکہ زندگی میں اصل مقابلہ تو یہ ہے کہ تم سے جو سرزد ہوتاہے اسے تسلیم کرواوراپنے آپ کو حوالے کرو۔جیل میں بھی ہم مدعی اور چور بنے ہوئے ہیں ۔حالانکہ یہاں کیا چیز کس کا ہے اور کسی کا کیسے ہوسکتا ہے اور وہ ایک کا کیسے ہوکررہ سکتا ہے ؟حالانکہ ہمیں جو قیدی نمبر دیاجاتاہے وہ بھی مستقل ہمارا نہیں رہتا ۔ تو کیوں ہم یہاں کمیون کی طرح نہیں رہ سکتے جہاں ہما را سب کچھ سب کا ہو اور ہم یہاں جب تک رہیں سکون اور چین سے رہیں، یہاں لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے ،سب ایک ڈھنگ سے رہ سکتے ہیں ۔یہ جگہ تو بخوبی کمیون بن سکتا ہے جہاں ہم گیان کرسکتے ہیں،گا سکتے ہیں رقص کرسکتے ہیں۔یہاں باہر کی دنیا جیسے رویئے ختم ہوسکتے ہیں ۔ایک خالص قبیلہ بن سکتے ہیں جو ہرطرح سے خوش رہ سکتا ہو۔ہم یہاں کسی چڑیا کی خوبصورت سریلی آواز کو سکون اور دھیان سے سن سکتے ہیں کہ اس کے لئے ہمارے پاس وقت ہے ورنہ باہر کی دنیا میں کسی کو اتنا وقت کہاں کہ کسی چڑیا کی آواز سنے۔بانسری بجائے ، کھلھلا کر ہنسے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم جیل جیسی چھوٹی سی جگہ میں خوش رہنے کا ڈھنگ سیکھ سکتے ہیں تو باہر کی وسیع دنیا میں ہمارے لئے امکاتات اور بہت وسیع ہونگے ۔کیا ان امکانات کے باوجود ہم تشدد کرکے اور ایک دوسرے کو دشمن جان کر یہاں رہنے کی غلطی کرسکتے ہیں ؟یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم یہاں کیسے رہ سکتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ یہاں بھی مسرت سے رہنے کے امکانات موجود ہیں ۔یہ کہہ کر وہ اٹھ کر چلا گیا ۔
زخمی قیدی سمیت جمع ہونے والے تمام لوگ اس کی باتوں کو غور سے سننے لگے تھے ،جب اس نے اپنی بات ختم کردی اور اٹھ کر چلاگیا تو زخمی قیدی اٹھا اور ان قیدیوں کی جانب جانے لگا جیسا کہ وہ اپنے آپ کو ان کے حوالے کررہے ہوں لیکن وہ اس سے قبل ہی پلٹ کر جانے لگے تھے ۔رات کو قیدی بیرکوں میں ان باتوں کا آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے تھے ۔دن یونہی گزرتے گئے ۔اس نے کچھ دنوں بعد دیکھاکہ بااثر قیدی غریب قیدیوں سے کام لیتے ہیں ،ان کے لئے کھانا بنانا ،صاف صفائی حتیٰ کہ غریب قیدی مالشیئے تک بنے پر مجبور ہوتے ہیں ،جس کے بدلے انہیں کھانا ملتا ہے۔ ،تب انہوں نے سوچا قیدی جیل کا کھانا معیاری نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کھاتے اسے کھا کرلوگ بیمار ہوتے ہیں۔ تب غریب قیدی ان امیر قیدیوں کے ہرجائز نا جائزعمل میں شریک ہوتے ہیں اور بعض کیلئے بھی راشن جیل کے باہر سے آتا ہے جس سے ان کے خاندان والوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے لنگر کا کھانا ویسے بھی بنایاجاتا ہے تو یہ کیوں کھانے کے قابل نہیں ہوتا۔اس نے یہ سوچا اوراگلی صبح وہ باغیچے کا کام کرنے کے بعد لنگرخانہ دیکھنے گیااوروہاں مشقتی قیدیوں کا کام دیکھا۔ قیدیوں کے کام کو دیکھ کر اسے اندازہ ہوگیا کہ لوگ لنگر خانے کاکھانا کیوں نہیں کھاتے۔ لنگر خانہ کی دیواریں دھویں کی وجہ سے سیاہ رنگت اختیار کرچکی تھیں ۔آٹے کی بوریاں یونہی فرش پر پڑی تھیں ۔چوہوں اور حشرات الارض کی بہتات ،ہرطرف کچرہ اور گندگی پڑی ہوئی تھی۔ سدا کے مشقتی قیدی آٹا گوندے جارہے تھے اورتووں پر روٹیاں ڈالے جارہے تھے، اور دوسری طرف دیگیں چڑی ہوئی تھیں ۔ دیگوں پر کوئی نگرانی نہیں تھی ۔دھواں کے باہر جانے کے راستے بند ہوچکے تھے جہاں پورے ہال میں دھواں بھر چکاتھا۔عجب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی ۔ نہ صفائی کا خیال نہ معیار کا ۔جب انہوں نے قیدیوں سے اس حالت کے بارے میں پوچھاتو وہاں موجود ایک مشقتی قیدی نے کہا
لنگر کا کھانا کھانے کے قابل نہیں ہوتا اسے کوئی بھی نہیں کھاتا ،یہ تو بس ایک مشقت ہے جو ہم سزا میں تخفیف کے لئے کرتے ہیں ۔ہم خود اپنے لئے کھانا الگ سے اپنے بیرک میں بناتے ہیں ۔
تب انہو ں نے کھانا بنانے اور روٹیاں پکانے والے قیدیوں کیساتھ کام شروع کیا۔ جگنواور مولا بخش سمیت کئی قیدی ان کے ساتھ اپنی خوشی سے کام کرنے لگے اور جو پہلے سے کام کررہے تھے وہ قیدی ان کو دیکھتے رہ گئے ۔ مشقتی قیدیوں نے کبھی لنگرخانے کی حالت زار پر توجہ ہی نہیں دی تھی وہ تو بس دیگیں بھر بھر کے تیار کرتے جو کھانے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ اسی طرح روٹیاں بھی ضائع ہوجاتیں جب انسانی حقوق کی تنظیمیں اور این جی اوز کی ٹیمیں آتیں تو باروچی خانے کی صاف صفائی کی جاتی۔عام طورپر اس کی دیواروں نے دھواں کی وجہ سے کالی رنگت اپنا لی تھی ۔ روشن دان بند کردیئے گئے تھے ۔لگتاتھا کہ برتنوں کو کبھی ٹھیک سے دھویا نہیں گیاتھا ۔
انہوں نے ان قیدیوں سے مل کر سب سے پہلے لنگرخانے کی صاف صفائی شروع کی۔ اسے خوب دھویا اس کی سفیدی کرائی ۔اس کی چیزیں سلیقے سے رکھنی شروع کیں ۔ آٹے کی بوریوں کیلئے زمین سے اوپر جگہ بنا کر انہیں سلیقے سے رکھاگیا ۔برتنوں کو دھویا ۔تب چولہے اور آتش دانوں کو بھی درست کیاگیا ۔ کھانا بنانے اور آٹا گوندنے سے پہلے انہوں نے صفائی کی ترغیب بھی شروع کی۔ لذیذ اور معیاری کھانا بنانے کے طریقوں پر عمل کیاگیا۔ جس کو مشقتی قیدیوں نے کبھی محسوس ہی نہیں کیاتھا ۔اب لنگر خانے میں صاف اور لذیز کھانا بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا گیاتب لنگر خانے کا نظام یوں بہتر ہوا کہ تمام قیدی اب لنگر خانے سے کھانا کھانے لگے تھے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر جیلر کو بھی تجسس ہوا کہ سالہاسال سے غلاظت خانہ بنے لنگرخانے کی صورتحال کیسے بدل گئی۔انہوں نے لنگرخانے کا دورہ کیا جہاں لنگر خانے کی حالت دیکھ کر اس نے کھانا کھانے کی فرمائش کی اور وہیں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ یہ انتظام دیکھ کر وہ بہت ہی متاثرہوا اور پراسرار قیدی کے قریب آتے ہی اس کو تھپکی دیتے ہوئے کہا
میں تمہارے کام سے بہت خوش ہوں۔ تمہارے اس کام کو مشقت شمار کراکرحکام بالا سے تمہاری سزا میں تخفیف کی سفارش ضرورکردونگا۔ایسا کام کروگے توتمہیں سزا میں تخفیف ضرور ملے گی۔
اور اس پراس نے جیلر سے کہا کہ
” اگر آپ اس کو مشقت شمار کرائیں گے تو یہ سب بیکار ہے ۔ مجھے نہ تو سزا میں تخفیف درکار ہے اور نہ ہی اس لگن سے کئے گئے فن کو مشقت قراردینے کی کبھی غلطی کرسکتاہوں ۔لوگ لالچ کے بغیر کام کرسکتے ہیں اگر انہیں سزا اور جزا سے ڈرانے کاکام بند کیاجائے ۔ہر کوئی اپنے لئے کام کرتا ہے یہ تو بہانہ ہے کہ کوئی اوربھی اس کے کام سے لطف اٹھاتا ہے ۔جیلر صاحب آپ شاہد مجھ سے ہمدردی دکھا رہے ہیں لیکن دوسری طرف آپ اپنے طورپر میرے اور میرے ساتھیوں کے لگن کو مشقت قراردے کر ہمیں اس چاردیواری میں بند رکھنے سے بھی زیادہ سزا دےنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ہم اس چاردیواری میں قید ہیں یہ آپ سوچتے ہیں لیکن ہمارے احساسات تو آزاد ہیں آپ ہمارے اس سلیقے اور زندگی گزارنے کے سادہ طریقوں کو مشقت قراردے کر زیادتی کررہے ہیں ۔قانون تو بنایاگیالیکن لالچ اور حرص ختم نہیں کی گئی بلکہ اس کو آپ کے قانون نے قانونی جواز دیا تب قانون بھی اس لالچ کی حفاظت کرتا ہے اورجب میں اور مجھ جیسا کوئی شخص سزا میں تخفیف کی لالچ کی بجائے اپنی لگن اور اپنے ہنر سے کوئی سیلقے کا کام کرتے ہیں تو آپ کا قانون خودبخود بے معنی ہوکررہ جاتا ہے ۔ہمیں آپ کا قانون جتنی مرضی سزا دے ہمیں یہاں سے نکلنے کی کوئی جلدی نہیں۔ہم جائیں گے تو کہاں جائیں گے ۔کیا باہر اس جیل سے بہتر کوئی جگہ ہے اور وہ جگہ کہاں ہے۔ اگر جیل سے باہر کوئی اچھی جگہ ہوتی تو کوئی کیونکر کوئی جرم کرکے جیل آتا ۔سچ تو یہ ہے کہ جرائم تو سارے باہرکی دنیامیں ہی ہوتے ہیں ۔جگہ تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں بس احساسات کو آزاد ہونا چاہئے “
انتہائی نرم لہجے میں یہ باتیں کہتے ہوئے وہ واپس اپنی بیرک کی جانب جانے لگا جس پر سب قیدی اس کے پیچھے چلنے لگے
جیلر کو غیر متوقع جواب ملا تھاجس پر وہ کوئی ردعمل نہیں دے سکاتھا ۔تیز تیز قدموں سے اپنی دفتر کی جانب جانے لگا ۔
رات تک جیلر سے اس کی کہی ہوئی باتیں تمام بیرکوں اور قیدیوں تک پہنچ گئی تھیں ۔عام قیدیوں کی مشکلات کم ہوگئی تھیں۔ سیاسی اور جرائم پیشہ قیدیوں کاتجسس اور بڑھ گیا تھا۔سب اس سے ملاقات کرنے لگے تھے یہ سب سے ایسی سادہ باتیں کرنے لگتا ۔باتیں تو بہت سادہ تھیں لیکن احساس سے لبریز ۔تب یہ دل ودماغ میں اثر کرجاتیں ۔
جنگو اب سگریٹ پینا تو چھوڑ چکا تھا اور اس کی سانس کی تکلیف بھی ختم ہوگئی تھی لیکن یہ بدمزاج تھا اورگالیاں بکتا رہتا ۔ غصہ اس کے ناک پر بیٹھا رہتا ۔اہلکاروں قیدیوں اور اپنے ملاقاتیوں کیساتھ بھی گالیوں کا آزادانہ استعمال کرتا پھر بعد میں اس پر شرمندہ بھی ہوجاتا ۔اس نے اپنا مسئلہ اس کو بتادیا کہ وہ بدمزاج ہے اور گالیوں کا اس قدر استعمال کرنے لگا کہ اب اس کے گھر والے ملنے سے بھی کترانے لگے ہیں جبکہ بیرک میں بھی کوئی مجھ سے بات کرنے سے ڈرنے لگتا ہے ۔اس کا کوئی حل بتائیں ۔
الصبح سورج نکلنے سے پہلے باغ میں جانے کے بعدجب باقی قیدی اپنے کاموں پر جانے لگے تب یہ جنگوکو باغ کے ایک کونے میںلے گیا اوروہاں کھلی فضاءمیں ان دونوں کے قریب کوئی موجود نہیں تھا۔اس نے جنگو سے کہا کہ وہ اب جو چاہے کہہ دے حتی کہ گالیاں بھی دے ہنسے روئے ۔ زور زور سے آواز نکالے ۔یہ سن کر جنگو گھبرا گیا اور کہا
ایسا کیسے ہوسکتا ہے یہ تو پاگل پن ہے میں تو گالی دینے کی وجہ سے پریشان ہوں اور آپ مجھے اور گالیاں دینے کیلئے کہہ رہے ہیں
اس نے مسکرا کر جواب دیا
اورجب تم لوگوں کو ان کے سامنے گالی دیتے ہو وہ بڑے عقلمندی کی بات لگتی ہے تمہیں ۔یہاں تم اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہو یہاں کوئی سننے والا نہیں اور جب تم یہاں اپنا غصہ باہر نکالوگے تو لوگوں کے سامنے انہیں گالی دینے کیلئے تمہارے پاس کچھ نہیں بچے گاساراغبار یہی نکال دواس سے تمہاری جان خلاصی ہوسکتی ہے ۔
جنگو نے نسخہ تو پالیا تھا لیکن اب بھی یونہی گالیاں دینے سے گھبرا رہا تھا بالآخر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے لگا۔ اپنے منشیات فروش دوست کو خوب گالیاں دیںجس کی وجہ سے وہ جیل میں ڈالا جاچکاتھا ،پھر اپنے آپ کو بھی برا بھلا کہنے لگا،وہ روانی سے گالیاں نکالتارہا جس سے اس کا جسم تھرتھرکانپنے لگا اس نے اسے اشارے سے اپناعمل جاری رکھنے کا کہا جگنو کو محسوس ہوا کہ اس کا غصہ آہستہ آہستہ کافورہوتا جارہاہے اس کے شل اعصاب آہستہ آہستہ نارمل ہوتے جارہے ہیں ۔تب اسے برا بھلا کہنے پر خود شرمساری ہوئی تو ہنسنے لگا تب اپنے اس اول فول بولنے پر زور زور سے ہنسنے لگا ۔ ہنستے ہنستے اس کے آنسو آگئے اور یہ رو دیا ۔اور کچھ دیر یوں ہی چمن میں پڑارہا تب اس کا جسم بالکل شانت ہوگیا اور وہ یونہی دیر تک چمن میں بے حس وحرکت پڑا رہاجب اٹھا تو اسے اپنا جسم بالکل ہلکا لگنے لگا۔ یہ عمل اس کا کچھ دنوں سے معمول بن گیا ۔یہ تجربہ جگنوکیلئے خوشگوارحیرت کا باعث ثابت ہوا اور وہ اب بہت ہلکاپن محسوس کررہاتھا ۔
کچھ دنوں تک یہ عمل دہرانے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اب وہ پورا دن انتہائی نرم مزاجی سے لوگوں سے بات کرنے لگا ہے جبکہ گھروالوں سے ملاقات میں کوئی گالی اس کے منہ سے نہیں نکلی بلکہ اب اس کے لہجے اور ویئے میں بھی کافی تبدیلی محسوس کی گئی ۔لوگ اس کی تبدیلی کی وجہ پوچھنے لگے تب انہوں نے لوگوں کو تبدیلی کا راز بتادیا ۔
اگلی صبح کچھ اور قیدی بھی نظرآنے لگے جنہوں نے اپنی بد مزاجی اور لوگوں سے الجھنے کا مسئلہ بیان کیا جس پرانہوں نے انہیں بھی جگنو کی طرح کھلی فضاءمیںیہ عمل دہرانے کا کہا ۔یہ قیدی ہچکچاتے اور پھر دل کی بھڑاس نکالنے لگتے اور پھر ہنسنے لگتے جس سے انہیں طبیعت میں بڑا ہلکاپن محسو س ہونے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام قیدی اب جگنو کیساتھ یہ عمل دہرانے لگے تھے ۔پورے جیل میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور تشدد کرنے پر اتر آنے والے قیدیوں کی طرف سے شکایتیں کم آنے لگیں ۔قیدیوں کے نرم مزاجی اور رویئے میں تبدیلی کو دیکھ کر اہلکار بھی بدل گئے جو پہلے بات بات پر قیدیوں کو گالیاں دیتے اوران پرتشدد کرتے ۔
پہلی دفعہ قیدی نفسیاتی مسائل اور جیل میں ڈھنگ سے رہنے کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ قیدی اپنے تمام ایسے مسائل ان کے پاس لے کر آنے لگے ۔ قیدیوں کے زیادہ مسائل افسردگی کے باعث تھیں اور نفسیاتی الجھن کے شکار قیدی اضطراب میں مبتلا تھے ۔جیل ایک نفرت کی علامت ہے جس سے قیدیوں پر قید کی دہشت اور آزاد رہنے کی آرزو نفسیاتی اثرات مرتب کرچکی تھی اس سے یہ تشدد گالیوں اور نفرتوں کا سہارا لینے لگے تھے۔حقیقت میں جیل میں قیدی کی مزید جرم کرنے کی خود بخود تربیت ہوتی ہے۔تب تک جیل میں رہتا ہے وہ تشدد اور بدمزاجی سے کام لیتا ہے ۔ چھوٹا جرم کرنے والا جیل میں آکر برے مجرموں سے ملتا ہے باہر نکل کر مزید جرم کی دنیا میں متحرک ہوجاتا ہے جیل میں بھی گینگ قائم تھے جو دوسرے سادہ لوح قیدیوں کو بھی اپنی جانب راغب کرتے جبکہ نفسیاتی الجھنوں کے شکار قیدی ان کا آسانی سے شکار بنتے
تب یہ ان قیدیوں کو سادگی سے ان کے مسائل کی جانب راغب کرتے اور کہتے کہ
” انسان اپنے مسائل خود پیدا کرتا ہے ۔ معاشرے کے اکثر مسائل کی تحلیل نفسی محض یہ ہے کہ کسی اور کی خوشی کسی اور کے غم کا باعث ہے ۔یہ ہمارے سوچنے کا انداز ہے جو کسی کی خوشی کو ہمارے لئے غم بنادیتا ہے ۔ آگے جانے کی بات کرکے انسانوں کو دوڑ میں لگایاگیا ہے ‘منزلوں کی بات کرکے انسانوں کو زندگی سے دور کردیاگیا ہے ۔ان سرابوں کے پیچھے انسان زندگی سے بیگانہ ہوتا ہے زندگی کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور انسان ایک دوڑ کا حصہ بن جاتا ہے ۔یہ قید اور جیلیں اس کی علامتیں ہیں ۔جیل سے باہر جانے کی حسرت اور باہر رہ کر جیل جانے کا خوف انسان کو گھیرے ہوئے ہے ۔انسان زندگی کوپاسکتا ہے اور یہ زندگی ہماری رگوں میں پوری آب وتاب سے دوڑ رہی ہے لیکن ہم نے اسے اپنے سے الگ تصور کرکے اس کے حصول کو مشکل بنادیاہے جس میں انسان خود گم ہوکررہ گیا ہے ۔ خوف اور دہشت کے باعث اس معاشرے نے ہم پر قانون اور جیلیں مسلط کی ہیں ۔قانون نے ہماری حفاظت کی بجائے ہمیں عدم تحفظ کا شکار بنادیا ہے ،اگر کوئی جیل جانے کو تیار ہوجائے تو اس کا مطلب ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے ۔قانون ہمیں جرم کرنے سے قطعی نہیں روک سکتا کیونکہ یہ تو جرم کے بعد ہی حرکت میں آتا ہے ۔ قانون پرانے ہوجاتے ہیں تو نئے قانون لاگو کئے جاتے ہیں جرم اپنی جگہ موجود رہتا ہے بلکہ اس سے مزید طاقتور ہوجاتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ جرم کبھی قانون سے ختم نہیں ہوتا ۔یہ تو زندگی کو پہچاننے سے ختم ہوسکتی ہے۔ ہمیں زندگی سے آشنائی ضروری ہے جس سے خود بخود آفاقی اور لازوال قانون مرتب ہوسکتاہے۔ جب کسی کو جیل میں ڈالا جاتا ہے تو جیل کو قیدیوں کے رہنے کے قابل بنانا ہوگا ۔کم ازکم یہ حق ہم سے یہ لوگ نہیں چھین سکتے ۔تب کیوں نہ ہم اس جیل کو اپنے رہنے کے قابل بنادیں ۔اس میں بھی پھول آگائیں ،صاف رہیں صاف کھائیں ، پیار اور محبت کو پھیلائیں ،بانسری بجائیں ، دل آویز عکس بنائیں ، شاعری کریں،ایسا رہیں جیساکہ ہمیں رہنے کا حق ہے تب ان کا قانون جو ہمیں دہشت اور خوف کا ماحول دینا چاہتا ہے ہم اسے ختم کرسکتے ہیں “
جیل میں قیدیوں میں آنے والی ان تبدیلیوں کا چرچاباہر کی دنیا میں ہوگیاتھا ۔اب قیدی جیل کے ہر کام کو اپنا کام سمجھ کر کرنے لگے تھے ۔ قیدی سزا میں تخفیف کی غرض سے مشقت کرنے کی بجائے لگن سے کام کرنے لگے تھے۔ان کو کام مشقت کی بجائے آرٹ لگنے لگاتھا۔ ہنرمند قیدی طرح طرح کی تخلیق کرنے لگے تھے۔اس نے جیل کی دیواروں پر تصویر بنانے والے قیدیوں کو کاغذ رنگ برش دلا یاپھر ان کی بنائی ہوئی تصویروں کو اپنے بیرک میں لگایا ان کی حوصلہ افزائی کی۔ شعر وشاعری کرنے والوں کی محفلیں سجائیں۔ قیدی رقص کرنے لگے تھے ۔گلوکار گارہے تھے ۔فیکٹریوں میں نئے ڈیزائن سے قالین اور کپڑے بنائے جانے لگے تھے۔جیل کادورہ کرنے والے باہر کے لوگ باغ لنگر خانہ اورجیل کی بدلتی حالت کو دیکھنے آتے ۔ جیل اب جیل نہیں رہاتھا۔دہشت اور خوف کی علامت کی بجائے اسے قابل دید بنایاگیاتھا اب یہاں سادہ اور پروقار زندگی رواں ہوگئی تھی۔لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ جیل جیل نہ رہے ۔وہاں تشدد نہ ہو ،اہلکاروں کے ہاتھوں قیدی اور خود قیدیوں کے ہاتھوں قیدی کیوں تشدد کا شکار نہ ہوں ؟جیل صاف رہے لنگر خانہ کا کھانا بیماری پیدا کرنے کی بجائے لذت اور صحت کا راز قرار پائے ۔قیدی بدمزاجی اور نفسیاتی مسائل کی بجائے زندگی کی مسرتوں سے لطف اندوزہو؟یہاں سبزیاں اور مویشیوں کیلئے گھا س کی کاشت کی بجائے خوشبو دار پھول اگیں اور ان کی خوشبو سے جیل مہک اٹھے، پرندے چہچہائیں؟ تب اسے دوبارہ جیل بنانے کیلئے حکام نے ایک فیصلہ کیا ۔اوریہ فیصلہ خودان کے بنائے ہوئے قانون کی نفی تھی جس سے ان کاقانون بے معنی ہوکررہ گیا تھاجس کی بنیاد سزا اور محض سزا اور انسان کی تذلیل پر محیط ہے ۔اس قانون کے بچاﺅ کیلئے جیل کا دہشت او ر خوف کا نمونہ رہنا ضروری تھا تب حکام نے وہ فیصلہ کیا جو غیرمتوقع تھا۔
جی ہاں اس قیدی کی قبل ازوقت رہائی کا فیصلہ کیاگیا تھا
اس کی قید کے پانچ سال باقی تھے اس کے باغ اگانے ،منشیات ترک کرانے اور لنگرخانے کی حالت سدھارنے، جیل کو صاف رکھنے کے کام کو مشقت شمار کرکے اس کی رہائی کا فیصلہ کیاگیاتھا۔جب اگلی صبح یہ باغ میںموجودتھااورننگے پاﺅں گھاس کے نرم پتیوں پرپڑے شبنم کے قطروں کی ٹھنڈک کو محسوس کررہاتھا تب ایک اہلکار نے رازدارانہ انداز میں سرگوشی کرتے ہوئے اس کو حکام کے فیصلے سے آگاہ کیا
حکام نے تمہیں آزاد کرنے کا فیصلہ کرلیاہے تمہیں آج رہا کردیاجائےگا۔اہلکار نے لٹکتی بندوق کو ٹھیک کرنے کیلئے کندھے کو اچکا کر کہا
اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی اس کے جسم پرکوئی جنبش محسوس ہوئی
اہلکار کچھ فاصلے پر کھڑے ہوکر اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
اس نے تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں کھولیں اور اہلکار سے کہا
تمہارا کیا خیال ہے میں یہاں قید تھا؟
اہلکار کو کچھ سمجھ نہ آیا ۔ انکار میں سرہلاتے ہوئے آگے بڑھا
اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی
اب سورج چڑھ چکاتھا ۔اس کے پاس جیل کا ایک آفیسر آیا اور اسے جیلر کے پاس چلنے کو کہا
تمہاری رہائی کا حکم آیا ہے ۔جیلر نے مستعدی سے کہا
اس نے کوئی بات نہیں کہی اور خاموش کھڑا رہا
کوئی جواب دو تمہیں خوشی نہیں ہوئی ؟جیلر نے اپنے جسم کو کرسی پر پھیلاتے ہوئے پوچھا
جس چیز کامیرے لئے وجود ہی نہیں اس پر کیسے بات کرسکتاہوں ؟اس نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا
جیلر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی
تم پہلے شخص ہو کہ حکام اسے خود رہاکرنا چاہتے ہیں ،تمہارا جیل میں رہنا جیل کیلئے خطرناک ہے۔تم جیل کے سب سے خطرناک قیدی ہو ،تمیں مزید سزا دینے کی بجائے تمہیں قبل از وقت رہا کیاجارہاہے ایسا کہنا ہے ہمارے حکام کا ۔کیا عجیب بات ہے ؟
سادہ چیزوں کو پیچیدہ بنا کر اسے عجیب بنانے سے ہی تمہاری ریاست کا کاروبار چل رہا ہے ۔قیدی نے اسے گورتے ہوئے جواب دیا۔
یہ سن کر جیلر نے منہ بنایا اور کہا
کل جب تمہاری رہائی ہوگی توباہر سے لوگ آئیں گے تمہیں ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔جیلر نے اسے ہدایت کی ۔
بڑی دلچسپ بات ہے کہ آپ اسے رہائی کہتے ہیںتب یہ رہائی کیسی اورجیل کے باہر تمہارا یہ حکم کیسا؟
تمہاری رہائی کا فیصلہ چونکہ خود حکام کا ہے تب وہ اس کو ایشو نہیں بناناچاہتے ،جیلر نے وجہ بتادی
یہ کریڈٹ تو حکام کو لینا چاہئے کہ کسی مجرم کو قبل از وقت خود ہی رہا کررہے ہیں ،اس میں حکام کیلئے چھپانے والی کونسی بات ہے ،اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے جیلر کو دیکھا
آپ کی باتیں ٹھیک اورمعقول ہیں لیکن قانون سے مطابقت نہیں رکھتے ۔جیلر نے اس پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
تب قانون معقول باتوں پر کیوں مشتمل نہیں ؟اس نے جیلر سے پوچھا
یہ سوال قانون بنانے والوں سے ہونا چاہے
تو کیا لوگ اپنے لئے خود قانون نہیں بناتے ؟
لوگ قانون بنانا نہیں جانتے ۔ہمارے اہل نمائندے ہمارے لئے قانون بناتے ہیں
کس قدر کمال کی بات ہے کہ جولوگ قانون نہیں بناسکتے لیکن اس پر عملدرآمد کرتے ہیں اس کی سزااور جزا پاتے ہیں
خیر آپ نے ہمارے قانون کو مات دیدی ہے ،تمہیں رہائی مبارک ہو،جیلر نے بات ختم کرنے کی کوشش کی
یہ کچھ کہے بغیر واپس مڑا
حکام کے فیصلے کی بات آنا فانا جیل میں پھیل گئی ۔ سب قیدی روہانسی سی صورت بنا کربیرک میں اس کے اردگرد جمع ہوگئے
آپ کئی سال باقی ہیں ایسے کیسے ہمیں چھوڑ کر جاسکتے ہیں آپ
حکام جیل میں ہماری آزادی سے خوفزدہ ہوگیاہے
جیل میں بھی ہمیں آزاد چھوڑنے کی ہمت نہیں سرکار کی
آپ کی رہائی کا فیصلہ ہمیں بدترین سزا دینے کی کوشش ہے
پانچ سال سے سزا کاٹ رہاہوں لگتا ہے کل سے اصل سزا شروع ہوگی
قیدی بیرک میں جمع ہوکر حکام کے فیصلے پر اپنے ردعمل اظہار کررہے تھے
ان کا یہ ردعمل دیکھ کر وہ کہنے لگا
” حکام کسی کو کیسے سزا دے سکتے ہیں جب تک کوئی خود کو سزا دینے کا نہ سوچے ،آپ سب آزاد تھے اب بھی ہیں اور آئندہ بھی ہونگے ،تمہاری آزادی کیلئے میری موجودگی ضروری نہیں ،پہلے تم حکام کی پیچیدگیوں کے جھانسے میں آگئے تھے اگر تم نے اندر سے خوش رہنے کا راز پالیاہے تو یہ حکام تمہیں کبھی دکھی نہیں بناپائیں گے تم ہمیشہ اور ہر لمحہ مسرور رہ سکتے ہو جی سکتے ہو ۔زندگی کو محسوس کرو یہ تو کسی کی قید میں نہیں آتی ۔یہ ہر لمحہ موجود رہتا ہے بس اسے لمحے میں جینے کا ڈھنگ جاننا چاہئے ۔جیل کی دیواریں اس کو ہم سے نہ تو چھن سکتی ہیں نا اسے روک سکتی ہیں ۔
اگلی صبح یونہی وہ باغ میں ننگے پاﺅں شبنم زدہ گھاس پر ٹہلنے لگا ۔
اپنا سامان سمیٹ لو ۔تھوڑی دیر میں آپ کو جانا ہے ،ایک افسر نے ان سے آکر کہا
سامان تو کچھ نہیں ہے ۔مجھے یہاں سے کیا لے کر جانا ہے اور کیا لے جاسکتا ہوں اور کیا عجیب بات ہوگی کہ جیل سے باہر کی دنیا کیلئے کچھ لے کر جاﺅں ۔اس کے جواب سے افسر خاموش ہوگیا۔
سب قیدی اس کے گرد جمع ہوگئے ۔تب یہ اپنے بیرک میں چلاگیا اور ایک نظر بیرک پر ڈالی اور سب کو ہاتھ ہلا کر جانے لگا ۔ سب قیدی اس کے پیچھے چل پڑے ۔گیٹ سے فاصلے پر اسے آگاہ کیاگیا کہ باہر کافی لوگ اس کیلئے جمع ہیں ۔یہ آگے بڑھا جیلر کے کمرے کے قریب پہنچا تو جیلر اپنے کمر ے سے نکلا اور اپنی کیپ سر سے اتا ر کر بغل میں دبا کر کہا
آپ نے اچھا وقت گزارا ،نہ تو میرا نہ ہی کسی اہلکار کیساتھ تمہارا کوئی جھگڑا ہوا۔بلکہ آپ کی وجہ سے جیل میں تشدد اور بدمزاجی ختم ہوکررہ گئی تھی ۔آپ نے جیل کو ایک خوبصورت جگہ بنایا اس کو رہنے کے قابل بنایا ۔قیدیوں کو صاف رہنے کا ڈھنگ سکھایا۔ جیل اصل میں قیدیوں کی اصلاح کی جگہ ہے۔جیل کو ایسا ہی ہونا چاہئے جس طرح تم نے اسے بنایا ۔ہم آپ کے شکر گزار ہیں ۔یہ ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ آگے بڑھا تب گیٹ کھول دیاگیا تو اس کے پیچھے چلنے والے قیدی اس کو روکنے لگے ۔
جگنو کے آنسو نکل گئے اوراس نے آگے بڑھ کر اس کا دامن پکڑلیادوسرا کوئی قیدی اس کے آگے جا کر کھڑا ہوگیا ،باہر کھڑے لو گ بھی آگے بڑھے اب یہ گیٹ کے باہر قدم رکھنے والاتھا کہ اس کا دامن مزید قیدیوں نے کھینچ لیا ۔جبکہ باہر کھڑا ہجوم اسے باہر لانے کیلئے آگے بڑھا۔اس نے پیچھے مڑ کر قیدیوں کو دیکھا اور عین گیٹ کے بیچ کھڑے ہوکر کہا
”سچ تو یہ ہے کہ یہاں ایک جیل ہے باہر بہت سے جیل ہیں۔اور اس کے بنانے والے ہم خود ہیں۔گھر سکول دکان اور دفترسے بڑا کوئی جیل نہیں ، گھر میں اخلاقیات کے نام پرتشدد بڑوں کا احترام ، سکول کی جیل جیسی دیواریں، بیرکوں جیسی خوفزدہ زندگی سے خالی اور پراسرارخاموش کلاس رومز ۔ڈنڈا سنبھالے پولیس اہلکاروں جیسے استاد ،قانون کی موٹی موٹی کتابوں جیسی سکول کی کتابیں اور ان میں موٹے موٹے حروف سے لکھے نظریات ، انسان کو پیدائشی گناہ گارثابت کرنے اورپھر گناہوں کی بخشش کے دس ہزار سال کے آزمودہ نسخے۔ دلچسپ تو یہ ہے کہ یہ سب زندگی سکھانے کے نام پر کیاجارہاہے ۔ کسی کو اپنے گھر میں آرام اور سکون ہے نہ کسی کو فراغت میں۔کوئی نہ تو اپنی دکان میں نہ کوئی اپنے دفتر میں سکون پاتا ہے ۔ہفتے میں ایک دن سب شہر سے بھاگ کر کسی ویران جگہ پر چشمہ باغ اور کسی پرفضاءپہاڑی کے دامن میں جاکر سستانے لگتے ہیں ۔ ہم نے گھر دکان دفتر اور دوسرے کام کی جگہوں کو مشقت کی جگہ بنادی ہے آرٹ اور فن کی نہیں۔ دکان اور دفتر کا کام مشقت کی بجائے لگن اور آرٹ سمجھ کر دل سے کیاجائے تو یہ بھی سکون اور آرام ہے ۔ ہم زندگی اور سکون کومخصوص مقامات پر تلاش کرتے ہیں کبھی کسی آستانے پر تو کسی ہجوم میں ،کبھی کسی خاموش جگہ پر لیکن اسے اپنے آپ میں تلاش نہیں کرتے ۔ یہ جیل اور باہر کی دنیا سے ماورا ہے اسے کہیں بھی پایاجاسکتا ہے اس کے ساتھ رہا جاسکتا ہے ۔ ہم نے اپنے خوش رہنے کیلئے مخصوص جگہوں کا انتخاب کیا ہے ۔باہر کی دنیا آزاد دنیا اور جیل کی زندگی قید کی زندگی قرارپائی ہے ہم جیل کو جیل مان کر ہی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں لوگوں کوقتل کرتے ہیں ۔زندگیوں کا خاتمہ کرتے ہیں ۔ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔لوگوں کا حق مارتے ہیں۔ اس قانون سے کسی کو سزا تو دی جاسکتی ہے لیکن زندگی سے روشناس نہیں کرایاجاسکتا اور جب تک ہم زندگی کے حقیقی روح سے روشناس نہیں ہونگے جرائم ہوتے رہیں گے۔جرائم کی بنیاد باہر کی دنیامیں پیوست ہیں۔ میں نے جیل آنے سے پہلے لوگوں کواپنی سادگی میں یہی باتیں بتائیں تو قانون شکنی اور لوگوں کو اکسانے کے جرم میں مجھے جیل میں ڈالاگیا۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور جب میں نے جیل کو رہنے کے قابل بنانے کی کوشش کی تو باہر کی دنیا میں بھیج دیا ۔ کسی سے ڈھنگ سے رہنے کا حق نہیں چھینا جاسکتا حتی کہ جیل میں بھی نہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ ہم جہاں رہیں ہمارے جینے کا فیصلہ کوئی دوسرا قطعی نہیں کرسکتا نہ کرنا چاہئے اور نہ کرنے دینا چاہئے ۔
جب وہ یہ سب کہہ رہاتھاتو جیلر بھی کھڑا سن رہاتھا۔ جگنو سمیت تمام قیدیوں ا ور باہر کھڑے مجمع پر ایک سکوت طاری ہوگیا تھا۔ تب اس نے قیدیوں کو ایک نظردیکھتے ہوئے مسکرایا اور گیٹ سے باہر نکل کرہجوم کے درمیان پہنچ گیا۔ ہجوم میں شامل لوگ پلٹنے لگے کہ اسے دیکھ سکیں لیکن وہ پراسرار قیدی یکایک ہجوم کے درمیان میں سے غائب ہوگیاتھا ۔
اب یہ پھر سے باہر کی دنیا کو ہمارے جیل جیسا باغ وبہار اور رہنے کے قابل بنانے کے جرم میںکسی اورجیل میں ڈالاجائےگا۔جیلر یہ کہتے ہوئے اپنے دفتر کی جانب مڑا ۔