پاکستان میں ہونے والے حالیہ مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد مختلف تجزیے اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، اور اس بات کا چرچا ہورہا ہے کہ بلوچستان میں بلوچوں کی آبادی گھٹ گئی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ نے اس حوالے سے اپنی جانب سے ایک تحقیق کی ہے اور پاکستانی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کو ایک الگ زاویے کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔

پچیس اگست کو شائع ہونے والے مردم شماری کے نتائج کے مطابق 19 سالوں کے دوران بلوچستان کے 21 اضلاع میں جہاں بلوچوں کی اکثریت تھی، بلوچ آبادی 61 فیصد سے کم ہو کر 55.6 فیصد ہوگئی۔

بلوچ آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں ایک بڑی آبادی نے مردم شماری کا مکمل بائیکاٹ کردیا تھا، بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے اسکا نتیجہ ضلع آواران میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جہاں مقامی آبادی میں بڑھنے کی شرح 0.15 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

ضلع آواران بلوچستان کے ان علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں آزادی پسند تنظیمیں مضبوط ہیں، اور دنیا بھر میں ایسے علاقوں میں کسی بھی قسم کے عددی ریسرچ خواہ وہ مردم شماری ہی کیوں نہ ہو، وہاں ایسے تنظیموں سے اجازت مانگی جاتی ہے، اگر وہ تنظیم اس  کی اجازت نہیں دیتا یا پھر نتائج صحیح نہ آنے کا خدشہ ہو، تو ادارے ان علاقوں کو شورش زدہ قرار دیکر وہاں سے کسی بھی قسم کی مہم نہیں چلاتے اور نا ہی کسی نتیجے کا اعلان کیا جاتا ہے۔

ضلع آواران کے معاملے میں دیکھا گیا ہے کہ وہاں پاکستانی انتخابات کا بھی مکمل بائیکاٹ ہونے کے باوجود محض تین سو ووٹوں کی مدد سے ایک شخص اسمبلی تک پہنچ جاتا ہے۔

صرف ضلع آواران نہیں بلکہ اس وقت بلوچستان میں ضلع قلات، خضدار، پنجگور، کیچ، گوادر، ڈیرہ بگٹی اور کوہلو بھی شورش زدہ علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شورش کی وجہ سے اول مردم شماری شفاف طریقے سے نہ ہوسکا اور دوسری جانب پاکستان کی جانب سے مسلسل فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں ان علاقوں کی بڑی آبادی نقل مکانی کر چکا ہے، خاص کر وہ علاقے متاثر ہوئے ہیں جہاں جہاں سے سی پیک کی سڑک گزری ہے۔

ہجرت کرنے کی وجہ سے بلوچوں کی ایک بڑی آبادی آج افغانستان میں مہاجروں کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جبکہ مکران کے علاقوں سے ہجرت کرنے والے بلوچ کراچی اور مغربی بلوچستان میں جاکر آباد ہوگئے ہیں۔

اسکے علاوہ سب سے متنازعہ بات یہ سامنے آئی ہے کہ ضلع سبی اور کوئٹہ کو’ مکس آبادی’ قرار دیکر وہاں بسے بلوچوں کو سرے سے گنا ہی نہیں گیا ہے، ضلع سبی کا بڑا حصہ صرف خالصتاََ بلوچ آبادی پر مشتمل ہے جس میں عام تاثر کے برعکس ہرنائی کے بیشتر علاقے بھی شامل ہیں۔ اور کوئٹہ میں آباد بلوچوں کو بھی ریکارڈ میں شامل نہ کرکے ایک مصنوعی عدد سامنے لائی گئی ہے جہاں بلوچوں کی آبادی گھٹ رہی ہے بتایا گیا ہے اور اس بات کا پرچار ہر جگہ کیا جا رہا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق اس مردم شماری میں سب سے زیادہ آبادی کوئٹہ میں بڑھی ہے، جسکی آبادی بلوچستان کے آبادی کا 18.4 فیصد ہے۔ کوئٹہ کی اس طرح آبادی کا غیر فطری انداز میں بڑھنا طے تھا، کیونکہ گزشتہ ایک دہائی سے کوئٹہ میں ایک منظم انداز میں افغان بانشدوں کو کوئٹہ اور اسکے گردو نواح میں بسایا جا رہا ہے۔ بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت دوسری جماعتوں نے باقاعدہ اعلان کر رکھا تھا کہ جب تک کوئٹہ سے افغان مہاجرین کو واپس بھیجا نہیں جاتا، تب تک وہ مردم شماری کے اعداد کو نہیں مانیں گے اور نا ہی اس میں حصہ لیں گے۔

کوئٹہ شہر میں افغان مہاجرین کو باقاعدگی سے شناختی کارڈ جاری ہوتے رہے ہیں اور اس معاملے میں حکام بھی کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ قوم پرست جماعتوں کے مسلسل احتجاجی مظاہروں اور بیانوں کے دباو میں آکر گزشتہ سال نادرا نے محدود مدد تک جانچ پڑتال شروع کی تو پینتالیس ہزار جالی شناختی کارڈ بلاک کردیے گئے۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر معمولی سی جانچ پڑتال کے نتیجے میں پینتالیس ہزار شناختی کارڈ جعلی قرار دیئے جاتے ہیں تو باقاعدگی سے ان کے خلاف کریک ڈاون کرنے کی صورت میں شاید کوئٹہ شہر میں بلوچ اور پشتون آبادی میں ایک بڑا فرق پیدا ہوجائے۔

حکومت کی طرف سے مردم شماری جیسے معنی خیز عددی مہم کو بلوچوں کی آبادی کم ظاہر کرنے کی پیچھے کیا وجوہات ہیں اس بات پر مختلف حلقے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ آزادی پسند قوم پرست جماعت کے ارکان اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ، یہ بات اٹل تھا کہ پاکستانی مردم شماری میں بلوچستان کے اندر بلوچوں کی آبادی کم ظاہر کی جائیگی۔ یہ سب کاونٹر انسرجنسی کے لانگ ٹرم پلان ہیں جہاں مقامی آبادی کو گھٹا کر انکے حقوق غصب کیئے جاتے ہیں اور آباد کاروں کو ان پر مسلط کیا جاتا ہے، تا کہ کسی بھی قسم کی بغاوت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے کچلا جاسکے۔

بلوچ آبادی پر نہ صرف اندرون ملک آباد کاروں سے خطرہ ہے بلکہ سی پیک پروجیکٹ کے تحت آنے والے چینی باشندے بھی آنے والے دنوں میں بلوچوں کی آبادی کو مزید اقلیت میں بدلنے کی وجہ بنیں گی۔

حال ہی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے اپنا ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس رفتار سے چینی شہری بلوچستان کا رخ کررہے ہیں اور خاص طور پر سی پیک پروجیکٹ مکمل ہونے کی صورت میں جس تعداد میں چینی باشندوں کا بلوچستان میں بسنے کا امکان ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2048 تک بلوچستان میں بلوچ مکمل طور پر اقلیت میں بدل جائیں گے اور چینیوں کی آبادی بلوچستان میں سر فہرست ہوگی۔