علمِ نفسیات ۔ دینار بلوچ

71

علمِ نفسیات 

تحریر : دینار بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

علم نفسیات محض ایک مطالعہ کا موضوع نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے طرز حیات کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ درحقیقت، اگر آپ علم نفسیات کی عینک سے دیکھیں تو آپ اسے اپنے آس پاس ہرجگہ موجود پائیں گے۔ انسانی زندگی کو خوب سے خوب تر بنانا علم نفسیات کا بنیادی ہدف ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کے ذہنوں میں اس موضوع سے متعلق متعدد غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

انسانی رویہ یہ اتنا وسیع اور پیچیدہ موضوع ہے کہ اس کی ابتدا اور اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالنا ایک بحر ناپیدا کنار میں شناوری کے مصداق ہے۔ علم نفسیات ایک وسیع اور شاندار موضوع ہے ۔

علم نفسیات انسان کے کردار اور اس کی زہنی سرگرمیوں کے مطالعہ کا نام ہے ۔ نفسیات انسان کے ماحول ، اس کے تقاضوں ، اس کی ثقافت اس کی زہنی ، جسمانی ، معاشرتی اور جذباتی نشونما کا مطالعہ ہے ۔

انسان کی شخصیات کی تشکیل و بناوٹ میں جو عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں ان کا سراغ لگاتی ہے اور فرد کے شعور کو جانچنے کی کوشش کرتی ہے ۔

نفسیات کے بارے میں عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نفسیات ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ان افراد کو معالجہ فراہم کیا جاتا ہے کہ جو ذہنی طور پر بیمار ہوں یا یوں کہہ لیں کہ کمزور ہوں جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، نفسیات (جیسا کہ اب تک کے مضمون سے اندازہ ہو گیا ہوگا) ایک بہت وسیع علم ہے جو افرادی علاج معالجے تک محدود نہیں بلکہ اس میں انسانی عقل و فطرت پر تحقیق کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں حسی ادراک حاصل کی جاتی ہے، اس کے ان رازوں سے پردہ اٹھایا جاتا ہے کہ جو اب تک نا معلوم رہے ہوں۔

نفسیات ایک تعلیمی اور قابل اطلاق نظم و ضبط ہے جس میں دماغی افعال اور طرز عمل کا سائنسی مطالعہ شامل ہے۔ نفسیات ایک کثیر الجہتی نظم و ضبط ہے اور اس میں مطالعے کے بہت سے ذیلی شعبے شامل ہیں جیسے انسانی ترقی ، کھیل ، صحت ، طبی ، معاشرتی سلوک اور علمی عمل نفسیات کی مختلف اقسام ہیں ، جیسے علمی ، فارنزک ، سماجی اور ترقیاتی نفسیات۔ علم نفسیات میں انسانی رویوں اور انسانی آگاہی و شعور ، ذہنی افعال و طرز عمل یعنی (انسان کے تمام ترداخلی غیر داخلی تعاملات) کا سائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس علم کا بنیادی مقصد انسان اور انسانی معاشرے کو فائدہ پہنچانا ہے ۔ علم نفسیات کی کئی اقسام ہیں یا آسان اصطلاح میں یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کرہ ارض جتنے انسان ہیں اتنے ہی نفسیات کے رنگ ہیں۔

نفسیات کا مقصد ہے کہ سائنسی طرق کےذریعہ کردار اور ذہنی عمل کے درمیان تعلق اور وجہ تعلق کو معلوم کرنا اسے سمجھنا اور سمجھنے کے بعد اسے معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کرنا۔ اپنی معلومات و حاصل کردہ نتائج و معلومات کی مدد سے وہ ناپسندیدہ کرداروں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں نیز اگر ضرورت علاج ہو تو بہتر طور پر علاج کیا جاسکے۔ علم نفسیات کی رو سے انسانی رویے جذبات، عقائد، اور کسی خاص چیز، شخص، یا واقعہ کے طرز عمل کے خاص رویے، اکثر تجربے یا پرورش کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ان کے رویے پر عموماً کسی صاحب اقتدار اوراختیار جو ناپسندیدہ رویوں کو برداشت کر رہے ہیں، کا اثر پڑتا ہے تووہ رویوں میں مثبت تبدیل کی بھی کوشش کرسکتے ہیں ۔نفسیات میں رویوں کو عام طور پر فیصلے سے اخذ کیا جاتا ہے اور عام انسانی عمل ہے۔ نفسیات میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ۔۔۔۔ انسانی رویہ کیا ہے ؟ مثبت ہے منفی ہے ، ناپسندیدہ ہے یا پسندیدہ، یا پھر یہ کہ ان رویہ کا عمومی و عملی اطلاق سماج پر کن صورتوں میں اور کیسے ہورہا ہے۔

نفسیات میں احساسات اور خیالات سمیت شعوری اور بے شعوری مظاہر کا مطالعہ کرنا شامل ہے۔ یہ ایک بہت وسعت والا تدریسی مضمون ہے جو قدرتی اور معاشرتی علوم کے حدوں کو پار کرتا ہے۔ ماہرین نفسیات، علم الاعصاب کو جوڑتے ہوئے، دماغوں کی ابھرتی ہوئی خاصیتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشرتی سائنس دانوں کی طرح، ماہرین نفسیات فردوں اور گروہوں کے رویوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی لفظ ‘Psyche’ کے پہلے حروف تہجی جہاں سے لفظ’Psychology’ اخذ ہوا ہے کو عام طور پر سائنس سے جوڑا جاتا ہے۔

اوپر کی بنیادی تعریف کو بغور دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عقل (mind) (عقلی زندگی) سے متعلق ہونے کی وجہ سے اس کا دائرہ بے انتہا وسیع اور ہمہ گیر ہے اور اس میں عقلی عملیت (mental processes) کے تمام پہلو مثلا ؛ قیاس (perception)، ادراک (cognition)، جذبات (emotion)، شخصیت personality))، بین الاشخاصی روابط (interpersonal relationships) اور ظاہر ہے کہ رویہ بھی داخل مطالعہ ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ نفسیات کو طبی اور معاشرہ سے متعلق دیگر شعبہ جات میں ایک کلیاتی علم (academia) کی حیثیت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفاذی علم کا درجہ بھی حاصل ہے۔

ماہرین نفیسات کئی سالوں میں حیوانی اور انسانی کردار کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن اب بھی بہت سے ایسے معلومات ہیں جن کا حصول باقی ہے۔ اب تک حاصل شدہ تمام معلومات و حقائق بہت منظم ہیں۔ ماہرین نفیسات نے یہ معلومات سائنشی طریقوں کے استعمال سے حاصل کیے ہیں اور نفسیات کو سائنس کا مقام دلایا یہ سائنسی طریقے مشاہدہ،فہم،بیان،کنٹرول اور دوبارہ اطلاق کرنے کا سلسلہ اسالیب پر مشتمل ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ نفسیات کے دو باہم مربوط مقاصد ہیں۔ نامیات کے ذہنی اعمال اور کردار کے درمیان تعلق کو سمجھنا اور اس فہم کو حقیقی دنیا میں استعمال میں لانا۔ ہف مین اور ورنوئی (Huffman and Vernoy) علم نفسیات کے چار مقاصد بیان کرتے ہیں جسے بیان کرنا بہت سے نفسیات دان افراد کا مخصوص کردار سائنسی مشاہدہ کی مدد سے جانچ کر بیان کرتے ہیں یعنی کہ وہ کردار کس نوعیت کا ہے۔

وضاحت کرنا: ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کردار کی وجوہات کی تشخیص کرکے اس کی وضاحت کریں۔

پیشنگوئی کرنا: وہ یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے تجربات،مشاہدات اور تحقیق کی روشنی میں حاصل کردہ معلومات اور نتائج کا تجزیہ کرکے افراد کے مستقبل کی پیشنگوئی کریں یعنی مستقبل میں افراد سے کس قسم کی کردار کی توقع ہوگی۔

کردار بدلنا: اپنے حاصل کردہ نتائج اور معلومات کی مدد سے وہ افراد کے ناپسندیدہ کردار یا ماحول میں تبدیلی لانی کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آئندہ زندگی میں ایسے افراد کو اپنے ماحول کے ساتھ مطابقت کرنے میں دقت پیش نہ آئے۔ چند تحقیقات میں ماہرین نفسیات سائنسی مشاہدے کی روشنی میں خاص کردار بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تجربات کے ذریعے کردار کو واضح کرنے کے بھی سعی و کوشش کرتے ہیں۔ مستقبل میں کسی کردار کے وقوف پذیری کے لیے وہ تحقیق کرتے ہیں اور وہ ان تحقیقات کی روشنی میں ناپسندیدہ کردار یا صورت حال کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نفسیات میں عقل کا بھی مطالعہ کیا جاتا ہے اور عقل کے اس مطالعے میں عقل کی شعوری (conscious) اور لاشعوری (unconscious) دونوں حالتیں آجاتی ہیں۔ چونکہ ان میں سے کوئی بھی عقلی حالت طبیعیاتی طور پر نظر نہیں آتی اور یہاں سائنسی مطالعے سے مدد لے کر عقل کے مظاہر کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

شعور سے مراد فوری آگہی ہے۔ شعور کا تعلق ہماری زندگی میں پیش آنے والے تمام اعمال سے ہے یہ وہ اعمال ہیں جن سے ہم پوری طرح اور شعوری سطح پر واقف ہوتے ہیں۔

شعور اور شعورکی رو اصل میں نفسیات کے تابع ہو کر فرد کے افعال، اعمال، اقوال اور کردار پر بالواسطہ اور بلاواسطہ اثر انداز ہوتے جاتے ہیں اور یوں دیکھا جائے تو فرد شعور ہی کے تابع ہو کر شخصیت اور شخصیت کی تمام پرتوں کو پروان چڑھا رہا ہوتا ہے اور یہ نفسیاتی پہلو زندگی کے ہر مرحلے اور ہر درجے پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔

علم نفسیات کے جدید تصورات میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل شعور کی رو ہے جسے امریکی ماہر نفسیات ولیم جیمزنے متعارف کرایا۔اس نے جوئے شعور Stream of consciousness کی اصطلاح کو متعارف کرایا۔ شعور کی رو کے مطابق انسانی دماغ میں بے ترتیب سوچیں تسلسل کے ساتھ ابھرتی ہیں۔ان کے درمیان ظاہری طور پر کوئی منطقی ربط نہیں ہوتا مگر گزرے لمحات کی یادیں ، حال کے احساسات اور مستقبل سے متعلق امیدیں اور خدشات انسانی دماغ کی آڑ میں میں سامنے آتے رہتے ہیں۔

شعور ۔۔۔۔۔کسی تعلق کا سہارا لے کر مستقبل سے حال یا ماضی میں اور ماضی سے حال یا مستقبل میں جانکلتا ہے۔۔۔۔۔۔کسی واقعے سے ذہن کسی چیز شخص یا مقام کا رخ کرتا ہے اور واقعہ شعور میں آکے داخل ہوتا ہے اور اس طرح شعور کی رو رُکے بغیر اور کسی واضح منطقی ربط کی ضرورت کا لحاظ کئے بغیر مدت العمر چلتی رہتی ہے۔

علم نفسیات میں شعور کی رو کو ایک برقی رو یا کرنٹ کی حیثیت حاصل ہے جو کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل جاری رہتا ہے اور یہ نہ رکنے والا عمل بچپن سے حیات کے خاتمے تک جاری رہتا ہے۔

لاشعور:

لاشعور فرائڈ کی وضع کردہ اصطلاح ہے۔ فرائڈ یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ لاشعور انسان کے نفس کا وہ خود غرض ، اخلاق دشمن اور غیر معقول حصہ ہے۔ جس کے بارے میں براہ راست آگہی ممکن نہیں۔ انسان وحشیانہ خواہشات اور غیر مہذب امنگیں رکھتا ہے۔ لاشعور کو ان خواہشات کا مسکن کہا گیا ہے۔ مگر یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ معاشرہ ضوابط اور اخلاقی قوانین کا پابند ہے۔ ایسے معاشرے میں ایسی خواہشات کو برداشت نہیں کیا جاتا ۔

یہ لاشعوری خواہشات اپنی نوعیت کے اعتبار سے حیوانی (بالعموم جنسی) اور اپنے رویے کے اعتبار سے سخت خودغرض ہوتی ہیں چنانچہ وہ ہر وقت اپنی تسکین کے لئے مواقع تلاش کرتی رہتی ہیں ۔ وہ شعور کی سطح پر ابھرنا چاہتی ہیں۔ لیکن اخلاقی ضابطوں کا خیال اور معاشرتی اقدار کا احساس انہیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ اس لئے وہ اپنی تسکین کے لئے کچھ ثانوی ذرائع ڈھونڈ لیتی ہیں۔

لاشعور کا نظریہ بیان کرتے ہوئے اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ فرائڈ سے پہلے اور بعد میں بھی ماہرین نفسیات لاشعور کو اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں اور ان تمام ماہرین نفسیات نے نظریہ لاشعور کو اپنے اپنے مفہوم کے مطابق بیان کیا۔ ان کے مطابق انسان میں پائی جانے والی وحشیانہ خواہشات کو جب مروجہ معاشرے میں تسکین حاصل نہیں ہوتی تو وہ خواہشات اس طرح بھیس بدل کر ظاہر ہوتی ہیں کہ بعض اوقات انہیں پہچاننا ایک عام آدمی کیلئے مشکل ہو جاتا ہے۔ لاشعور محض ادھوری اور نامکمل خواہشوں کامسکن ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ صلاحیتیں بھی جو نشوونما نہیں پا سکیں یہیں موجود رہتی ہیں۔

فرائڈ نے پہلی مرتبہ لاشعور کے تصور کی نفسیاتی اصولوں کے مطابق تفہیم ہی نہیں کی بلکہ لاشعور میں دبائے جانے والی خواہشات کا جنسی پس منظر بھی تلاش کیا۔

فرائڈ نے دیگر ماہرین نفسیات کی نسبت لاشعور کو تحلیل نفسی سے وابستہ کر کے پیش کیا۔ نفسیات میں شعور، لاشعور ، تحت الشعور اور تحلیل نفسی کا بغور مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان کی روشنی میں شخصیت کا جائزہ لینا آسان ہو جاتا ہے۔

تحلیل نفسی سے مراد یہ ہے کہ انسان کے ذہنی محرکات کا مشاہدہ اس کے روز مرہ کے اعمال کے مطابق کیا جائے۔ تحلیل نفسی شخصیت اور ذہن کی لاشعوری کارکردگی کی اس سائنس کا نام ہے جسے سگمنڈ فرائڈ اور اس کے شاگردوں کی تین نسلوں نے پروان چڑھایا۔

ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کے نظریات کو کلاسیکل تحلیل نفسی کہا جاتا ہے۔ فرائڈ نے تحلیل نفسی کے طریق کار کے ذریعے لاشعور کو سائنسی بنیادوں پر نہ صرف خود بطریق احسن سمجھا بلکہ سمجھا بھی دیا۔۔۔۔۔۔۔فرائڈ نے ۔۔۔۔۔۔۔ایک سائنس دان کی مانند اسے کلینک کی چیز بنا کر عملی زندگی سے اس کارشتہ استوار کر دیا ۔

تحت الشعور:

نفسیات میں شعور، لا شعوراور تحلیل نفسی کے ساتھ ساتھ تحت الشعور کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ تحت الشعور کو جدید نفسیات میں بہت زیادہ زیر بحث لایا جا رہا ہے اور اس کے مطالعے کو وقعت دی جا رہی ہے ۔ تحت الشعور ، شعور اور لاشعور کی درمیانی منزل کو کہا جاتا ہے۔ تحت الشعور اصل میں روزمرہ کے معاملات کے تجربات کا نام ہے کہ جن کے ذریعے ہمیں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ فیروز اللغات میں تحت الشعور کے معنی کچھ یوں درج ہیں:

”تحت الشعور نفس کا وہ طبقہ جس میں نفسی عمل واقع ہوتا ہے اور توجہ اور مشاہدے سے باہر ہوتا ہے۔“

تحت الشعور کو اصل میں نفس کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے۔ نفسانی اعمال نفس کے اس حصے میں صورت پذیری کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہی نفسیاتی اعمال توجہ اور مشاہدہ سے باہر ہوتے ہیں یہ وہ اعمال ہیں جن سے فرد خود بھی آگاہ نہیں ہوتا یہ اعمال تحت الشعور کے زیر اثر نمو پا رہے ہوتے ہیں۔

انسانی ذہن ایک وسیع طبقہ ہے اور اس طبقے میں تحت الشعور وہ حصہ ہے جہاں معلومات مواد کی صورت میں جمع ہوتی رہتی ہیں جن کو فرد نے بھی شعوری طور پر پرکھا اور سوچا نہیں ہوتا بلکہ اکثر تحت الشعور کے ذریعے لاحق ہونے والے افعال میں ‘‘اچانک’’ کا تصور ضرور کار فرما ہوتا ہے۔

فرائڈ کا خیال ہے کہ انسانی ذہن تین حصوں پر مشتمل ہے۔ شعور، لاشعور اور تحت الشعور۔ اس وقت ہم جن باتوں سے آگاہ ہیں ان کو شعور کہا جاتا ہے۔ جب کہ تحت الشعور ایسے خیالات پر مشتمل ہے جن سے آپ اس وقت تک آگاہ نہیں لیکن تھوڑی سی کوشش کر کے انہیں شعور میں لایا جا سکتا ہے۔ لاشعور ان باتوں اور واقعات پر مشتمل ہے۔ جو فرد کو بالکل یاد نہیں ہوتے اور جن کو ایک خاص نفسیاتی عمل کے ذریعے اخلاقی لحاظ سے ناقابل قبول خواہشات ہونے کی وجہ سے شعور سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ تب یہ خواہشات لاشعور میں چلی جاتی ہیں اور مختلف طریقوں سے فرد کے کردار پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

اجتماعی لاشعور:

یونگ فرائڈ کے اس نظریے سے اتفاق کرتا ہے کہ لاشعور فرد کے کردار کی راہیں متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن یونگ کے نظریے کے مطابق لاشعور میں صرف ابطانی خواہشات (زبردستی دبائی گئی خواہشات) ہی موجود نہیں ہوتیں بلکہ اس کے نزدیک لاشعور میں ہمارے آباؤ اجداد اور نسل انسانی کے اساسی نقوش بھی موجود ہوتے ہیں وہ ایسے لاشعور کو اجتماعی لاشعور کا نام دیتا ہے۔ یونگ شعوری انا سے مراد شعور لیتا ہے جو کہ شعوری یادوں، خیالات، احساسات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہی شعوری انا ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے اور ذاتی لاشعور اور اجتماعی لاشعور کے درمیان توازن پیدا کرتی ہے۔ ان میں سے اگر کوئی ایک نظام غالب آجائے تو شخصیت غیر متوازن ہو جاتی ہے۔

جس طرح ورثے میں جسمانی خصوصیات منتقل ہوتی ہیں۔ اسی طرح تجربات ، احساسات، رحجانات اور اس کے علاوہ دوسری بہت سی نفسیاتی خصوصیات بھی نسل در نسل ورثے میں آگے منتقل ہوتی رہتی ہیں اور یہ نسلی یا اساسی یاداشتیں کہلاتی ہیں۔ ”یونگ“ ان کو اجتماعی لاشعور کا نام دیتا ہے۔ اجتماعی لاشعور میں یاداشت اور کردار کے وہ نمونے موجود ہوتے ہیں جو ہمیں ہمارے آباؤ اجداد اور نسلوں سے ورثے میں ملتے ہیں ۔ یعنی وہ نظریہ جس کے مطابق شخصیت کی بعض خصوصیات اپنے آباؤ اجداد اور نسل سے ورثے میں حاصل ہوتی ہیں اور یہ ورثہ ہر فرد میں موجود ہوتا ہے جیسے ماں سے محبت اور کسی سپریم قوت (اللہ ) کو تسلیم کرنا۔

اجتماعی لاشعوری کو ہم دوحصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ اجتماعی لاشعور کے پہلے حصے کا تعلق ذاتی لاشعور سے ہوتا ہے یعنی پہلا حصہ ذاتی لاشعور کے بہت قریب ہوتا ہےاس کا تعلق ان لاشعوری محرکات سے ہوتا ہے جن پر ایک حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اجتماعی لاشعور کے دوسرے حصے کا تعلق پہلے حصے سے متضاد ہے یعنی اس حصے کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ عقل اور ثبوت و دلیل سے بالا تر ہوتا ہے ۔

علم نفسیات میں چوں کہ انسانی رویوں کو سمجھنے کے لئے متعدد طریقہ کار اور سائنٹفک فریم ورک کا استعمال ہوتا ہے اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علم نفسیات محض شعور عامہ کو سمجھنے اور انسانی رویوں کی وضاحت کرنے کا نام ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں