سابق نگراں وزیر کا پنجاب سے بلوچ طلباء کی لاشیں بلوچستان بھیجنے کی دھمکی

981

‎سابق وزیر کی نسلی گشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش عوام کا اظہار اظہار تشویش – ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری

سابق صوبائی نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی کے سوشل میڈیا پوسٹ سے تشویش پھیل گئی، پنجابی شہریوں کی نوشکی میں ہلاکت کےبدلے پنجاب میں زیر تعلیم بلوچ طلباء اور پنجاب میں ضم بلوچ علاقوں کے بلوچوں کے لاشیں بلوچستان بھیجنے کی دھمکی دے دی-

انہوں نے اپنے آفیشل “ایکس” سابقہ ٹوئٹر ہینڈل پر ایک بلوچ صارف کو دھمکاتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر پنجابیوں کی لاشیں بلوچستان سے آئیں گی تو بلوچوں کی لاشیں بھی پنجاب سے آئیں گی، پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں متعدد بلوچ طلباء زیر تعلیم ہیں اور ایک کروڑ بلوچ برسوں سے جنوبی پنجاب میں رہ رہے ہیں-

سابق نگران وزیر اطلاعات کے اس متنازع بیان کے بعد مختلف سیاسی، سماجی و انسانی حقوق کے ارکان جان اچکزئی کے اس بیان کو نسلی تعصب سے منسلک کررہے ہیں-

اس حوالے سے پوسٹ کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل ایمان مزاری نے کہا ہے کہ یہ بہت تشویشناک ہے کہ پاکستان کے ایک سابق نگراں وزیر سوشل میڈیا پر بلوچ عوام کو نسل کشی کی دھمکیاں دے رہے ہیں-

انہوں نے کہا علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے بجائے یہ افراد ملک بھر میں معصوم بلوچ طلباء کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رہیں جس سے ان کی نسل کشی کے عزائم پوری طرح ظاہر ہوگئے ہیں-

واضح رہے کہ جان اچکزئی کو پاکستانی فوج کے قریبی اور حمایت یافتہ افراد کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے جنہیں گذشتہ نگراں حکومت میں پاکستانی فوج کی ایماء پر بلوچستان کا نگراں وزیر اطلاعات مقرر کیا گیا تھا جبکہ وہ جبری طور پر لاپتہ افراد کے خلاف بھی مسلسل بیان بازی کرتے رہے ہیں-

صوبائی وزیر کے اس بیان کے بعد مختلف حلقے اس معاملے کو شدید تشویشناک قرار دے رہے ہیں اور متعلقہ حکام سمیت انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ معاملے کو اُٹھائے وگرنہ معاملہ مزید گھمبیر ہوسکتے ہیں۔

ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کے جنرل سیکرٹری عبداللہ عباس نے سابق نگراں وزیر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا سابق وزیر کی جانب سے بلوچوں کی نسل کشی اور پنجاب میں بلوچ طلباء کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں انتہائی تشویشناک ہیں، جو کہ نسل کشی کے ارادے کی نشاندہی کرتی ہیں-

انہوں نے کہا یہ ریاست اور بلوچ عوام کے تئیں اس کے کٹھ پتلیوں کی نفرت کی ایک پریشان کن سطح کو ظاہر کرتا ہے، تشدد اور اغوا کو مزید جائز قرار دیتا ہے۔

معروف صحافی مطیع اللہ جان نے ردعمل دیتے ہوئے سوال کیا ہے کہ سابق وزیر ہوش میں ہیں جو اس طرح کے نسلی تعصب کو بھڑکا رہے ہیں ، جب کہ بلوچستان کی سرزمین پر پاکستانیوں کا قتل قابل مذمت ہے یہ شخص ایسے نسلی تشدد کو کیسے بھڑکا سکتا ہے اسے اس چیز کھلی چھوٹ کون دہے رہا ہے