یرغمال رہا نہ ہوئے تو رمضان میں رفح پر حملے ہوں گے – اسرائیل

121

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جنگی کابینہ کے ایک رکن ریٹائرڈ جنرل بینی گانٹز نے اتوار کو کہا ہے کہ اگر حماس نے رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے غزہ میں قید بقیہ یرغمالوں کو رہا نہ کیا تو رفح میں لڑائی جاری رہے گی۔

توقع کی جا ر ہی ہے کہ وہاں رمضان کا آغاز 10 مارچ سے ہوگا۔

اسرائیلی فورسز نے پیر کے روز غزہ کی جنوبی پٹی میں فضائی اور زمینی کارروائیاں کیں جہاں فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد پناہ لیے ہوئے ہے۔ غزہ کے محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ اکتوبر سے اب تک ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اب 29000 سے بڑھ گئی ہے۔

حماس کے زیرانتظام وزارت صحت نے بتایا کہ گزشتہ روز 107 افراد ہلاک ہوئے اور غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں زخمی ہونے والوں کی کل تعداد 69000 سے زیادہ ہوچکی ہے۔

فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد وشمار میں عام شہری اور جنگجو دونوں شامل ہوتے ہیں لیکن ان کی تعداد علیحدہ سے نہیں بتائی جاتی۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔

اسرائیل نے غزہ کے خلاف کارروائی 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے جنگجوؤں کے ایک بڑے حملے کے ردعمل میں کی تھی جس میں 1200 افراد ہلاک اور 250 کے لگ بھگ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے پیر کے روز کہا کہ اس نے غزہ کے جنوب میں واقع سب سے بڑے قصبے خان یونس میں اہداف پر حملے کیے ہیں۔

غزہ اور قریبی آبادیوں سے فرار ہونے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد نے مصر کی سرحدی گزرگاہ کے قریب رفح میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہاں حماس کے جنگجو موجود ہیں اور وہ ان کے خاتمے تک اپنی جنگ جاری رکھے گا۔ جس سے بین الاقوامی سطح پر خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گانٹز نے کہا کہ رفح میں کوئی بھی اسرائیلی حملہ مصر اور امریکہ کی کوآرڈینیشن کے ساتھ کیا جائے گا تاکہ انخلاء کو آسان بنایا جاسکے اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم رکھا جاسکے۔

غزہ کی آدھی سے زیادہ آبادی نے اسرائیلی فوج کے حملوں اور انخلا کے احکامات کے پیش نظر اس وقت رفح میں پناہ لے رکھی ہے۔ یہ جنوب میں غزہ کی پٹی کا آخری حصہ ہے۔ اس کے بعد مصر کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ مصر متعدد بار یہ انتباہ کر چکا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو اپنی سرحد میں داخل نہیں ہونے دے گا۔

اسرائیل نے اتوار کے روز اپنے قریبی اتحادی امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کی جانب سے یک طرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی معاہدہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہی طے پاسکتا ہے۔

اسرائیلی کابینہ کی جانب سے جاری ہوئے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہودی ریاست، فلسطینیوں کے ساتھ مستقل معاہدے کے بین الاقوامی مطالبات کو واضح اور قطعی طور پر مسترد کرتی ہے۔

اسرائیل کے دو اطراف غزہ اور مغربی کنارے پر ایک آزادفلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز پر بات چیت، جسے دو ریاستی حل کا نام دیا جاتا ہے، 2014 سے التوا کا شکار ہے۔

غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے بعد، جو اب اپنے پانچویں مہینے میں جاری ہے، امریکہ اور دیگر ممالک نے اس لڑائی کو ختم کرنے کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبات کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے مشرق وسطیٰ کے ایک وسیع تر معاہدے پر زور دیا ہے جس میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے والی عرب ریاستوں اور سعودی عرب کو شامل کیا جائے گا۔

اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے، ایک بیان میں کہا ہے کہ اکتوبر میں حماس کے حملے کے بعد، اس طرح کی کوئی چیز دہشت گردی کے لیے ایک بڑا اور بے مثال انعام ہوگی جو مستقبل میں کسی بھی امن معاہدے کا راستہ روک دے گی۔

نیتن یاہو نے حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف مکمل فتح تک جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ جب کہ امریکہ کی جانب سے ایک نئی جنگ بندی اور غزہ میں حماس کی قید میں موجود یرغمالوں کی رہائی کی کوششوں کو اب تک ناکامی کا سامنا ہے۔

نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کے یہ مطالبات ان کی خام خیالی ہے کہ اسرائیل غزہ سے اپنی فوجیں ایک ایسی صورت حال میں نکال لے گا جس سے عسکریت پسندوں کو اپنے ہتھیاروں کو دوبارہ بنانے کی صلاحیت کرنے اور علاقے پر دوبارہ کنٹرول کرنے کا موقع مل جائے۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ امریکہ اس ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے آنے والے الجزائر کے اس منصوبے کو ویٹو کر دے گا جس میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ غزہ کے تنازع کا ایک پائیدار حل چاہتا ہے جس سے غزہ میں کم از کم چھ ہفتوں کے لیے فوری اور پائیدار سکون آئے، اور اس دوران ہم مزید دیرپا امن کے لیے وقت لے سکیں اور اقدامات کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ جس منصوبے پر امریکہ، اسرائیل، مصر، قطر اور دیگر کے ساتھ کام کر رہا ہے وہ تمام یرغمالوں کو ان کے اہل خانہ سے دوبارہ ملانے اور لڑائی میں طویل وقفہ لانے سے متعلق ہے، جس سے زیادہ خوراک، پانی، ایندھن، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء فلسطینی شہریوں تک پہنچائی جا سکیں جن کی انہیں اپنی زندگی بچانے کے لیے اشد ضرورت ہے۔