ہدایت لوہار کے قتل کی مذمت کرتا ہوں ، بلوچ قوم سے اپیل ہے کہ وہ سسوئی اور سورٹھ کا ساتھ دیں۔قاضی ریحان

198

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انفارمیشن سیکریٹری قاضی داد محمد ریحان نے وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی رہنماء سورٹھ لوہار اور سسوئی لوہار کے والد ہدایت لوہار کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہ قیمت ہے جو سندھی ، بلوچ اور پشتون پرامن جدوجہد کی ادا کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا میں اس قتل کی مذمت کرتا ہوں، میں دکھ کی اس گھڑی میں اپنی بہنوں سسوئی اور سورٹھ لوہار کے ساتھ ہوں ، بلوچ قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ ان کی جدوجہد میں ان کی ہرممکن مدد کی جائے اور انھیں تنہا نہیں چھوڑا جائے۔

قاضی ریحان نے ٹویٹر میں اس واقعے پر ایک تفصیلی ٹویٹ لکھا جس میں واقعے کی تفصیل اور پس منظر بیان کرتے ہوئے انھوں نے اسے محکوم اقوام کی نسل کشی کا منظم منصوبہ قرار دیا۔

انھوں نے کہا ، آج صبح اسکول جاتے ہوئےٹیچر ہدایت لوہار کو پاکستانی ایجنسیوں نے قتل کردیا۔ اانھیں پاکستانی فوج نے اغواء کے بعد 17 اپریل 2017 سے لے کر جولائی 2019 تک جبری لاپتہ رکھا۔ ان کی بیٹیاں سسوئی اور سورٹھ لوہار اپنے والد کی بازیابی کے لیے بلوچ بیٹیوں کی طرح سڑکوں پر نکلیں اور انھوں نے ’وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور والد کے رہائی کے بعد بھی دیگر جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے متحریک رہئیں۔

انھوں نے اپنے بیان میں مزید کہا آج ان کے والد کو جو سندھ دوست تھے اور اپنی قوم کے لیے درد رکھتے تھےقتل کردیا گیا۔ یہ صرف آوازوں کا قتل نہیں بلکہ نسل کشی کی ایک منظم پالیسی ہے ، جو کئی شکلوں میں جاری ہے۔ محکوم اقوام کو اپنی سیاسی اور سماجی شناخت سے محروم کرنا ، ان کو معاشی طور پر مفلوج کرکے پنجاب کی زیردست کرنا ۔

’’سندھی یہ سب بھگت رہا ہے ، پیپلزپارٹی کی شکل میں وہاں ایک ایسے گروہ کی حکومت ہے جو صرف جاگیردار طبقے کی نمائندگی کرتی ہے ، جو فرسودہ روایات اور پسماندگی کو فروغ دیتی ہے تاکہ عوام ذہنی اور معاشی طور پر پسماندہ رہے اس سے ان کا ووٹ بینک برقرار رہتا ہے۔ یہ سب پنجاب شاہی کے اچھے شراکت دار ہیں ، اس لیے پنجابی فوج بھی ان سے خوش ہے۔‘‘

انھوں نے کہا ہدایت لوہار جیسے شخصیات اس لیے پاکستانی فوج کو پسند نہیں کہ وہ نسل کشی کی پالیسیوں کے خلاف سندھی تشخص کے بقاء کی بات کرتے ہیں۔