صدر بائیڈن کی اردن کے شاہ سے ملاقات، غزہ پر ایک معاہدے کے اہم نکات میز پر

150

امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کے روز یہ اعلان کرتے ہوئے کہ غزہ میں ہر بے گناہ زندگی کا نقصان ایک المیہ ہے، اردن کے شاہ عبداللہ دوئم کا وائٹ ہاؤس میں اس بارے میں مذاکرات کے لیے خیر مقدم کیا کہ غزہ میں مہینوں سے جاری جنگ کو کس طرح ختم کیا جائے اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں کس طرح منصوبہ بندی کی جائے۔

شاہ کے ساتھ کھڑے ہو کر بائیڈن نے کہا کہ معاہدے کے اہم موضوعات میز پر ہیں اگرچہ ان میں گیپس باقی ہیں۔

دونوں رہنماؤں نے غزہ میں یرغمالوں کی رہائی کی کوششوں اور سرحدی شہر رفح میں ایک ممکنہ اسرائیلی حملے پر بڑھتی ہوئی تشویش پر گفت و شنید کی۔

شاہ عبد اللہ سے یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب بائیڈن اور ان کے مشیر حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں ایک اور وقفے کی ثالثی کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ خطے میں انسانی ہمدردی کی امداد اور رسدیں بھیجی جاسکیں اور یرغمالوں کو وہاں سے نکالا جاسکے۔

وائٹ ہاؤس کو غزہ میں سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد حماس کے خلاف جاری اسرائیل کی جنگ میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود امریکی انتظامیہ کی اسرائیل کے لیے جاری حمایت پر عرب امریکیوں کی بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے۔

بائیڈن نے کہا کہ معاہدے کے اہم نکات میز پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کسی معاہدے کو طے کرانے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرے گا: لڑائی میں کم از کم چھ ہفتوں کا وقفہ اور حماس کے پاس موجود بقیہ یرغمالوں کی رہائی۔

امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر افسر نے اتوار کو کہا تھا کہ کئی ہفتوں کی شٹل ڈپلومیسی اور فون پر گفتگو کے بعد ایک معاہدے کے لیے لائحہ عمل تیار کر لیا گیا ہے۔ عہدے دار نے کہا کہ اسرائیلی فوج کا خان یونس میں گزشتہ کئی ہفتوں کے فوجی دباؤ نے عسکریت پسند گروپ کو ایک معاہدہ قبول کرنے کے قریب تر لانے میں مدد کی ہے۔

شاہ عبد اللہ نے کہا کہ بائیڈن کی قیادت اس تنازعے سے نمٹنے میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے، جب کہ انہوں نے لڑائی میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکت اور زخمیوں کی حالت زار کو اجاگر کیا۔

شاہ نے کہا کہ “ہمیں اس وقت ایک دیرپا امن کی ضرورت ہے۔ اس جنگ کو ختم ہونا چاہیے ۔”

اردن اور عرب ریاستیں اسرائیل کے اقدامات پر سخت تنقید کرتی رہی ہیں اور انہوں نے غزہ میں اس بارے میں طویل المیعاد منصوبہ بندی کے لیے عوامی حمایت سے گریز کیا ہے کہ وہاں آئندہ کیا ہوگا۔ انہوں نے اس کے لیے یہ جواز پیش کیا ہے کہ ایسی کوئی گفتگو لڑائی کے لازمی طور پر خاتمے کے وقت شروع ہوسکتی ہے۔

وہ اکتوبر کے وسط سے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں جب ہلاکتوں کی تعداد عروج پر پہنچنا شروع ہوگئی تھیں۔

بائیڈن نے اس انتباہ کا اعادہ کیا کہ اسرائیل کو حماس کے آخری گڑھ رفح پر، جہاں ایک 13 لاکھ لو گ پناہ لیے ہوئے ہیں، اس وقت تک ایک مکمل پیمانے کا حملہ نہیں کرنا چاہیے جب تک اس کے پاس وہاں موجود عام شہریوں کی حفاظت کا کوئی منصوبہ موجود نہ ہو ۔

بائیڈن جنہوں نے اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے ایک دو ریاستی حل کی امید ظاہر کی ہے، مزید کہا کہ انہوں نے اور شاہ نے اس بارے میں گفت گو کی کہ اگر غزہ میں حماس کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تو اس کے بعد وہاں فوری اصلاحات کے لیے فلسطینی اتھارٹی کو کچھ اختیارات سنبھالنے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہو گی۔ جس کا مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر کنٹرول ہے۔

بائیڈن نے کہا کہ،” انہیں ایک ایسی ریاست کی تعمیر کے لیے تیار ہونا ہوگا جو امن کو قبول کرے حماس اور اسلامی جہاد جیسے دہشت گرد گروپس کی سرپرستی نہ کرے ۔”

عبد اللہ نے زور دے کر کہا کہ ،”مغربی کنارے اور غزہ کی علیحدگی کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔”

دونوں رہنماؤں کی ملاقات سے قبل پیر کی صبح بائیڈن اور ان کی اہلیہ جل بائیڈن نے شاہ، ملکہ رائنا اور ولی عہد شہزادہ حسین نے وائٹ ہاؤس میں خیر مقدم کیا۔

یہ گزشتہ ماہ اردن میں امریکہ کے خلاف ایک ڈرون حملے کے بعد سے جس میں تین امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے، دونوں اتحادیوں کے درمیان پہلی ملاقات تھی۔ بائیڈن نے ایران کی پشت پناہی کے حامل عسکریت پسندوں پر ان ہلاکتوں کا الزام عائد کیا تھا۔