کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

221

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5326 ویں روز جاری رہا۔

سبی سے سیاسی سماجی کارکناں رحمت اللہ سیلاچی، نور شاہ خجک اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے آکر اظہار یکجہتی کی ۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ شہداء بلوچ کے خون سے آبیاری سرخ بلوچستان بلوچ نوجوان ، بزرگ ،خواتین ،بچے تنظیم کے فکر نظریاتی پلیٹ فارم سے جنہوں نے سیاہ ترین آمریت سے لیکر ڈیتھ اسکواڈ فرغونیت سب کا دلیری بہادری کے ساتھ نہ صرف پرامن جدوجہد کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ ان باطل قوتوں کو تاریخ ساز شکست فاش دے کر لازوال تاریخ رقم کی ۔

انہوں نے کہاکہ جیل ،زندان، اذیت گاہوں کے انسانیت سوز ازیت پھانسی جبری اغوا مسخ شدہ لاشیں مارو پھینکو جیسے ریاستی بھیانک و بدترین فوجی غنڈہ گردیوں کو اپنے نہتے سینے پہ مردانگی کے ساتھ سہا ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کارکنوں کی قربانی اپنے بقاء کے لیے دی تعلیمی اداروں سے لیکر گاؤں کے گلیوں تک ہر طرف فوجی چوکیوں کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ایسے صورت حال تنظیم جیسے فکری نظریاتی ہراول دستے کا موجود ہونا ایک نئی بحث اور ایک نئے عنوان کو جنم دیتی ہے کہ تنظیم کے لواحقین جیسے ایک جمود دوست ترقی پسند عدم تشدد کے حامی فکر علمی پلیٹ فارم کیوں ریاستی دہشت گردی کے زیر عتاب ہے کیوں بلوچ نوجوانوں خواتین بچے بزرگ تنظیم کے لواحقین کارکنوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہے ہے انہی کی زمین پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے کیونکہ جبری لاپتہ افراد کی عدم بازیابی مسخ شدہ لاشوں کا ملنا تعلیمی اداروں کے دروازے بند کرنا کل تک شاید ان سوالوں کے جواب دینا مشکل تھا لیکن آج کی صورت حال میں جہاں ریاست کے چہرے سے شرافت کا نام نہاد نقاب ہٹ چکا ہے نام و نہاد جمہوریت کا بوسیدہ دیوار جس کے آڑ میں چپ اور مذہبی جنونیت کو فوجی طاقت کے ذریعے عالمی امن کے راہوں کو معلوم کیا جاتا ہے وہ بوسیدہ دیوار فکری اور نظریاتی قیادت اور کارکنوں کی نظریاتی بالیدگی فکری اور نظریاتی منتقل مزاجی کے ساتھ بے لوث قربانیوں کے بدولت گر چکی ہے اور آج پاکستان پوری دنیا کی نظروں میں انسانی بنیاد ی حقوق کے اعتبار سے اپنی ریاستی وقار کھوچکا ہے۔