سائیں جی ایم سید کی شخصیت ، افکار ، جدوجہد اور قومی تحریک کے تقاضے ۔ اصغر شاہ

124

سائیں جی ایم سید کی شخصیت ، افکار ، جدوجہد اور قومی تحریک کے تقاضے

تحریر: اصغر شاہ
دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کی کوکھ کبھی خالی نہیں رہتی۔ ہر دور میں تاریخ ساز شخصیتیں ، مفکر اور مدبر جنم لیتے رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنے فکر، فہم، ادراک، بے پناہ صلاحیتوں، اخلاق اور جدوجہد کے ذریعے اپنی قوموں کی رہبری اور رہنمائی کی ہے اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئے اَمر اور مشعلِ راہ بن گئے ہیں۔

سائیں جی ایم سید 17 جنوری 1904ء کو سن (دادو) میں پیدا ہوئے۔ جناب جی ایم سید کی عمر ایک سال بھی نہیں تھی کہ اُن کے والد صاحب کا قتل ہوا۔ اِس طرح جناب جی ایم سید بچپن میں ہی یتیم ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ سائیں جی ایم سید کے والد صاحب کے قتل کے پیچھے خاندانی تنازعہ تھا ، لیکن خاندانی تنازعات کی آڑ میں اس طرح کے قتل کی زمیدار اکثر ریاست ہوتی ہے۔ جب سائیں جی ایم سید کا جنم ہوا اور اُن کے والد صاحب کا قتل ہوا اُس وقت سندھ پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ سائیں جی ایم سید کے والد صاحب کے قتل کے بعد انگریزوں نے ان کی تمام جائیداد اپنی تحویل میں لے لی۔ جائیداد کی دیکھ بھال کے لیے ایک وارڈن مقرر کیا گیا اور خاندان کے ضروری اخراجات کے لیے ماہانہ الاؤنس مقرر کیا گیا۔ اس طرح یہ سید خاندان مکمل طور پر انگریزوں کے رحم و کرم پر آ گیا۔

سائیں جی ایم سید اپنے خاندان کی اکلوتی اولاد تھے۔ اس خاندان میں کوئی بچہ باقی نہیں رہا تھا۔ سائیں جی ایم سید کے بڑے بھائی کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ اس لیے سارا گھر جناب جی ایم سید کی محبت میں مبتلا تھا۔ گھر کی عورتیں ایک لمحے کے لیے بھی جناب جی ایم سید کو اپنی نظروں سے اوجھل کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ اس لیے جب پرائمری تعلیم کے بعد انگریزی تعلیم کا وقت آیا تو جناب جی ایم سید کو انگریزی تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجنے کے بجائے ان کی تعلیم کا انتظام گھر پر ہی کر دیا گیا۔ جناب جی ایم سید کو پڑھانے کے لیے انگریزی ، فارسی اور عربی کے بہترین اساتذہ کا تقرر کیا گیا۔ انہوں نے اسے گھر میں پڑھانا شروع کر دیا۔ جناب جی ایم سید کی تعلیم اتنی بھرپور اور مکمل تھی کہ انہیں سندھی اور اردو کے علاوہ انگریزی ، فارسی اور عربی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔

1919ء میں ہندوستان کے اندر خلافت تحریک کا آغاز ہوا۔ خلافت تحریک چونکہ انگریزوں کے خلاف تھی اس لیے پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ سندھ میں انگریزوں کے خلاف نفرت تھی ، اس لیے خلافت تحریک کو سندھ میں بھی پذیرائی حاصل ہوئی۔
جن اساتذہ نے سائیں جی ایم سید کو پڑھایا تھا ان میں کچھ اساتذہ خلافت تحریک سے متاثر تھے۔ اس لئے اس کے اثرات جناب جی ایم سید پر بھی پڑے اور جناب جی ایم سید خلافت تحریک کے سرگرم رکن بن گئے۔

1920ء میں خلافت کانفرنس کا اجلاس شہید مخدوم بلاول کے مزار پر منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں جناب جی ایم سید نے 15 سال کی کم عمری میں پہلی تقریر کی اور اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔

یہ وہ دور تھا جب مولانا عبید اللہ سندھی نے ریشمی رومال کی تحریک کا آغاز کیا۔ ریشمی رومال ایک عسکری تنظیم تھی جس کا مقصد انگریزوں کے خلاف گوریلا جنگ چھیڑنا تھا۔ ریشمی رومال تحریک کی سب سے زیادہ طاقت سندھ میں تھی۔ سندھ کے بہت سے علماء ریشمی رومال تحریک کے کمانڈر تھے اور ساتھ ہی تحریکِ خلافت میں بھی شامل تھے۔ اس لیے خلافت تحریک انگریزوں کے لیے موت کا پروانہ بن گئی۔

چونکہ جناب جی ایم سید تحریکِ خلافت میں سرگرم تھے اس لیے انگریزوں نے سائیں ایم سید کو روکنے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ اپنے والد صاحب کے قتل کے بعد سائیں ایم سید برطانوی حکام کی دیکھ بھال میں تھے اور برطانوی حکومت ان کی نگران تھی۔ جس کی وجہ سے جناب جی ایم سید کو انگریزی دربار میں طلب کیا گیا۔ یہ سال 1920ء کا دور تھا ، اُس وقت سندھ بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ تھی اور سندھ کو کمشنریٹ کا درجہ حاصل تھا۔ یعنی ایک ہی کمشنر پورے سندھ کا انچارج تھا۔ اس لحاظ سے سندھ کے کمشنر کے پاس وہی اختیارات حاصل تھے جو گورنر کے پاس ہوتے ہیں۔ اُس وقت سندھ کے کمشنر مسٹر ٹامس تھے جنہوں نے حیدرآباد میں کیمپ لگائی تھی اور جناب جی ایم سید کو طلب کیا تھا۔ جب جناب جی ایم سید ان کے پاس پہنچے تو کمشنر نے ان پر زور دیا کہ وہ تحریکِ خلافت سے الگ ہو جائیں اور انگریز مخالف سرگرمیاں بند کر دیں۔ جس کے جواب میں جناب جی ایم سید نے کہا کہ میں تحریکِ خلافت نہیں چھوڑوں گا اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھوں گا۔ اس جواب پر کمشنر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غلام مرتضیٰ یہ مت بھولنا کہ تم ابھی نابالغ ہو اور ہم تمہاری دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ اگر میں چاہوں تو بحیثیت گارڈین آپ کو تعلیم کے لیے بمبئی بھیج سکتا ہوں۔ جناب جی ایم سید نے کمشنر کی دھمکی کا کوئی اثر نہ لیا اور تلخ لہجے میں کہا کہ جو کرنا ہے وہ کریں لیکن میں تحریکِ خلافت نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی اپنی سرگرمیاں روکوں گا۔

سندھ کے کمشنر سخت طیش میں آئے اور جناب جی ایم سید سے کہا کہ سید صاحب یہ مت بھولنا کہ اگر میں چاہوں تو تمہاری اور تمہارے گھر والوں کی ماہانہ امداد روک سکتا ہوں۔ پھر بھی جناب جی ایم سید نے بے خوف ہوکر انہیں جواب دیا کہ تمہیں جو کرنا ہے کرو لیکن میں تحریکِ خلافت نہیں چھوڑوں گا۔ مسٹر ٹامس بحیثیت کمشنر چاہتے تو مسٹر جی ایم سید کو سندھ بدر کر کے اعلی تعلیم کے لئے بمبئی بھیج سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ کیونکہ اگر ٹامس ایسا کرتا تو جناب جی ایم سید کے گھر کی خواتین سخت احتجاج کرتیں۔ وہ جناب جی ایم سید کو اتنی دور بمبئی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ اگر سید خاندان کی بیبیوں نے احتجاج کیا ہوتا تو جناب جی ایم سید کے مرید برطانوی کمشنر کے ایسے اقدام کے خلاف بغاوت کر دیتے۔ انگریز پہلے ہی مشکل میں تھے اس لیے وہ کوئی نئی مصیبت پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کمشنر خاموش رہے لیکن انہوں نے ایک حکم نامہ کے تحت جناب جی ایم سید کی ماہانہ امداد روک دی۔ کمشنر سندھ کا خیال تھا کہ ماہانہ امداد بند ہونے کی وجہ سے مسٹر جی ایم سید نقل و حرکت نہیں کر پائیں گے اور ان کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہو جائیں گی۔
سامراجی قوتوں کے پاس آخری یہی ہتھیار ہوتا ہے۔ ایک شخص کو مفلوج کرنے کے لیے ، وہ اسکی آمدنی کے ذرائع ختم کر دیتے ہیں۔ وسائل نا ہونے  کی وجہ سے اس کی زندگی مفلوج ہو جاتی ہے اور اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے. اس طرح وہ فرد کی عزت نفس کو بھی مجروح کرتے ہیں۔ سامراجی قوتوں کے اس عمل کو معاشی ناکہ بندی کہا جاتا ہے اور ٹامس نے اپنے حساب سے جناب جی ایم سید کی معاشی ناکہ بندی کی تھی۔ برطانوی کمشنر کا خیال تھا کہ معاشی بندش کی وجہ سے جناب جی ایم سید مفلوج ہو جائیں گے ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ ضرور تھا کہ جناب جی ایم سید کی جائیداد انگریزوں کی تحویل میں تھی لیکن جناب جی ایم سید نہ صرف زمیندار تھے بلکہ گادی نشیں بھی تھے۔ ان کے ہزاروں عقیدت مند کاچھے کے علاقے اور پوری پہاڑی پٹی میں موجود تھے۔ ان کے عقیدت مند اگر ایک ایک روپیہ بھی جمع کرتے تو ہزاروں روپے جمع ہو جاتے۔ اس لیے کمشنر کی طرف سے لگائی گئی معاشی ناکہ بندی کا جناب جی ایم سید پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا اور نہ ہی جناب جی ایم سید نے تحریکِ خلافت چھوڑی ، بلکہ بعد میں تحریکِ خلافت خود ہی بے اثر ہوگئی۔

تحریکِ خلافت اُس وقت تک مضبوط رہی جب تک مہاتما گاندھی اُس کے ساتھ تھے۔ مہاتما گاندھی کی عدم تعاون اور خلافت تحریک ساتھ ساتھ چلی ، لیکن جب 1922ء میں مہاتما گاندھی نے عدم تعاون کی تحریک ختم کی تو تحریکِ خلافت بھی اپنا اثر کھو بیٹھی۔

تحریکِ خلافت کے بعد جناب جی ایم سید کا جھکاؤ اور رجحان انڈین نیشنل کانگریس کی طرف ہوا۔ سائیں جی ایم سید پہلے سے ہی مہاتما گاندھی سے متاثر تھے۔ سال 1921ء میں جب مہاتما گاندھی سندھ کے دورے پر آئے تو سائیں جی ایم سید نے اُن سے سن (دادو) ریلوے اسٹیشن پر ملاقات کی اور مہاتما گاندھی کے مشورے پر انہوں نے کھادی کے کپڑے پہننا شروع کر دیے۔

تحریکِ خلافت ہو یا انڈین نیشنل کانگریس ، دونوں پارٹیاں متحدہ ہندوستان کی سیاست کرنے والی جماعتیں تھیں۔ جناب جی ایم سید کی سیاست کے رجحانات اس وقت تبدیل ہوئے جب سندھ میں بمبئی سے علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک نے جناب جی ایم سید کی سندھ سے محبت کو مزید واضع کیا اور نئی جلا بخشی۔

سائیں جی ایم سید نے بہت کوشش کی اور چاہا کہ انڈین نیشنل کانگریس سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے مطالبے کی حمایت کرے ، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ نہرو رپورٹ جو کانگریس نے شائع کی تھی اس میں صرف یہ کہا گیا تھا کہ اگر سندھ اپنے اخراجات برداشت کر سکتی ہے تو اسے صوبہ بنا دیا جائے۔ جب کہ 1929 میں محمد علی جناح نے جو 14 نقاط پیش کیے تھے ، اُن میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے علیحدہ صوبہ بنانے کا بھی مطالبہ شامل کیا تھا۔ جناح کے اس مطالبے کی وجہ سے جناب جی ایم سید مسلم لیگ اور جناح کی طرف راغب ہوئے۔ اگر کانگریس ایسا مطالبہ کرتی تو سید کبھی جناح کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔

لیکن کانگریس ہندو سرمایہ داروں کے تجارتی مفادات کے دباؤ میں آ گئی تھی۔ اسی لیے جناب جی ایم سید کو یہ الفاظ اپنی کتابوں میں اور 1992ء میں نشتر پارک کراچی میں منعقدہ اُن کی سالگرہ میں کہنے پڑے کہ سندھ کی بمبئی سے آزادی کی جدوجہد کے دوران ہم مسلم لیگ جیسی بنیاد پرست جماعت سے مدد لینے پر مجبور ہوئے ، جس نے ہمارا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ جناب جی ایم سید نے اپنی تقریر میں مزید کہا تھا کہ مسلم لیگ سے مدد مانگتے ہوئے ہمیں ان کی دو بدترین شرائط ماننا پڑیں۔ ایک شرط الگ مسلم قوم کا تصور تھا۔ اس تصور کا مطلب قوموں کے جمہوری حقوق اور ان کی الگ قومی شناخت سے انکار تھا۔ دوسرا شرط الگ الیکشن کا نظام تھا۔ جس نظام کو ماننے کی وجہ سے ہمیں اسلامی قانون کے نفاذ جیسی بدعات کو قبول کرنا پڑا۔

جناب جی ایم سید کا موقف تھا کہ سندھ ہندوستان کا حصہ نہیں رہی ہے اور جب انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت سندھ ایک آزاد اور خود مختار ریاست تھی۔ اس لیے سندھ کا بمبئی پریزیڈنسی سے تعلق غیر فطری اور غیر تاریخی ہے۔ لہٰذا اس غیر فطری تعلق کو ختم کرکے سندھ کا الگ تشخص بحال کیا جائے۔

جناب جی ایم سید آزاد سندھ کے حامی تھے اور مسلم لیگ نے 1940 کی قرارداد میں خودمختار سندھ کا وعدہ کیا تھا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ اور اُس کی قیادت اپنے وعدے سے مُکر گئی۔ صوبائی خودمختاری تو دور کی بات ہے لیکن انہوں نے ون یونٹ بنا کر صوبوں کو ہی ختم کر دیا۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد سندھ کے وسائل کی لوٹ مار کا نہ ٹوٹنے والا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔

1970ء تک جناب جی ایم سید کا خیال تھا کہ وفاقِ پاکستان میں رہتے ہوئے اس ملک کا ڈھانچہ دُرست کیا جا سکتا ہے اور اقوام کو خود مختاری دلائی جا سکتی ہے۔ 1940ء کی قرارداد کے تحت اقوام کو خود مختاری دلانے کے لیے جناب جی ایم سید نے اُس وقت عدم تشدد اور پارلیمانی سیاست کا راستہ چنا تھا۔ صوبائی اسمبلی میں پہنچ کر انہوں نے ون یونٹ کے خاتمے اور صوبوں کو مکمل خودمختار بنانے کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن جب 1970ء کے انتخابات کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور اس نے صوبوں کو خودمختاری دینے کی بات کی تو پنجابی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے شیخ مجیب کو اقتدار سونپنے کے بجائے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا۔ اس آپریشن میں 30 لاکھ سے زائد بنگالی مارے گئے۔ بنگال میں قتلِ عام کے بعد جناب جی ایم سید اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر 30 لاکھ جانوں کا نذرانہ ہی دینا ہے تو پھر صوبائی خودمختاری کی بات کیوں کریں؟ چنانچہ بنگال کے انقلاب کے بعد سائیں جی ایم سید نے کتاب ’’سندھودیش کیوں اور کس لئے‘‘ لکھی اور سندھ کی مکمل آزادی اور پاکستان سے علیحدگی کا نظریہ پیش کیا۔

اس طرح سندھودیش کی مانگ اور اس کی حاصلات کے لئے جدوجھد کے اعلان کے بعد صوبائی خود مختاری کی سیاست کے ساتھ پارلیمانی سیاست کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ جناب جی ایم سید نے پارلیمانی سیاست کے ذریعے تبدیلی کو مسترد کیا اور الیکشن میں حصہ لینے کی سیاست کو بھی مسترد کردیا۔

عدم تشدد پارلیمانی سیاست کا حصہ رہا ہے۔ جب پارلیمانی سیاست ختم ہو جائے تو عدم تشدد بھی ختم ہو جاتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی قوم عدم تشدد سے آزاد نہیں ہوئی۔ عدم تشدد کے ذریعے ہندوستان کی آزادی ایک استثنیٰ تھی اور انقلابی قوتیں اپنی جدوجہد کی بنیاد استثنیٰ پر نہیں بلکہ سائنس پر رکھتی ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی آزادی کے انقلاب برپا ہوئے ہیں، ان کی سائنس مسلح جنگ رہی ہے۔

تاہم بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جناب جی ایم سید نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں پاکستان سے سندھ کی علیحدگی اور سندھو دیش کی پرچار شروع کر دی۔ جناب جی ایم سید نے اپنا واضح موقف رکھا اور کہا کہ سندھ اور پاکستان ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ پاکستان رہے گا تو سندھ تباہ ہو جائے گا۔ اس لیے سندھ کی بقا کے لیے پاکستان کا ٹوٹنا ضروری ہے۔

جناب جی ایم سید کے اس موقف کے بعد ریاست اور اس کے دلالوں کی لائنیں لگ گئیں۔ ریاست کے دلالوں کی طرف سے بہت سے دلائل سامنے آئے۔ ان میں سے پہلی دلیل یہ تھی کہ سندھودیش ایک انتہا پسند نعرہ ہے اور جناب جی ایم سید سندھودیش کا نعرہ لگا کر پوری قوم کو مروا ڈالیں گے۔ ریاستی کارندوں کا دوسرا دلیل یہ تھا کہ اگر پاکستان ہے تو سندھ ہے ، اگر پاکستان ٹوٹ گیا تو ہندو مسلمانوں کا یہاں جینا حرام کر دیں گے اور سندھ بھارت کا غلام ہو جائے گا۔ انہی لوگوں کا کہنا تھا کہ بھارت بنگلہ دیش کو ایک آزاد ریاست کے طور پر نہیں چلنے دے گا اور بنگال پر قبضہ کر لے گا ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔  ان لوگوں کے تمام دلائل رد ہو گئے جب ہندوستان نے بنگلہ دیش سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ بنگلہ دیش میں نہ بنگال کے مسلمانوں پر ہندوؤں کا غلبہ ہوا اور نہ ہی بنگال ہندوستان کا غلام بنا۔ اس کے برعکس بنگال ایک باوقار اور خود مختار ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمایاں طور پر کھڑا ہے۔ ریاست کے کارندوں کی طرف سے دی گئی تیسری دلیل یہ تھی کہ سندھ ایک چھوٹا علاقہ ہے اور بہت کم آبادی والا ملک ہے۔ اس لیے آزادی کے بعد یہ اپنا الگ ریاستی وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ سائیں جی ایم سید نے اپنی کتاب سندھودیش کیوں اور کس لئے میں اس دلیل کو رد کرتے ہوئے ایک مکمل چارٹ دیا ہے۔ چارٹ میں دنیا کے 92 ممالک دکھائے گئے ہیں۔ وہ ممالک آبادی ، رقبہ اور آمدنی کے لحاظ سے سندھ سے کم ہیں۔ جناب جی ایم سید نے دلیل دی ہے کہ اگر یہ ممالک آزاد ریاست کے طور پر رہ سکتے ہیں تو سندھ آزاد ریاست کے طور پر کیوں نہیں رہ سکتی؟

جناب جی ایم سید نے نشتر پارک کراچی میں اپنی سالگرہ کے جلسے میں یہی دلیل دہراتے ہوئے کہا کہ دنیا کے 70% ممالک آبادی ، رقبہ اور آمدنی کے لحاظ سے سندھ سے کم ہیں۔ لیکن یہ ممالک نہ صرف خود مختار ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے رکن بھی ہیں۔ لہٰذا سندھ کو تشدد ، جبر اور مکاری کے ذریعے زیادہ دیر تک غلام نہیں رکھا جا سکتا۔ جناب جی ایم سید نے کہا کہ جب برونائی ، مالدیپ اور بحرین جیسے چھوٹے ممالک آزاد ہو سکتے ہیں تو سندھ کی آزادی کو زیادہ دیر تک کوئی نہیں روک سکتا۔
جناب جی ایم سید نے نشتر پارک کراچی میں اپنے خطاب میں بین الاقوامی نظام پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت دنیا میں سوشلسٹ بلاک ٹوٹ رہا ہے۔ سوشلسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد دنیا کو ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہوگی۔ سوشلسٹ بلاک کے ٹوٹنے سے دنیا میں وسطی ایشیا اور بوسنیا جیسی نئی ریاستیں بن رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوشلسٹ بلاک قومی تحریکوں کے گھیرے میں ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس وقت دنیا پر سرمایہ دار طبقے کا غلبہ ہے لیکن سرمایہ دار ممالک اقوام کو زیادہ دیر تک غلام نہیں رکھ سکیں گے۔ سندھ سمیت دنیا کی تمام اقوام کو آزاد ہونا ہے اور ان اقوام کو نئے عالمی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
نئے بین الاقوامی نظام پر بات کرتے ہوئے جناب جی ایم سید نے مزید کہا تھا کہ اس وقت اقوام متحدہ پانچ بڑی طاقتوں میں گِھری ہوئی ہے جنہیں ویٹو پاور حاصل ہے۔ ان ویٹو پاورز نے اقوام متحدہ کو یرغمال اور مفلوج کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اقوام متحدہ ایک غیر فعال ادارہ بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کو ان طاقتوں کے جبر سے نہ صرف آزاد کروانے بلکہ اقوام متحدہ کی تنظیم نو بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے نئے ڈھانچے پر بات کرتے ہوئے جناب جی ایم سید نے اقوام متحدہ کی تشکیل نو کے متعلق مزید کہا تھا کہ اقوام متحدہ کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ ان میں سے ایک سوشلسٹ ممالک کا گروپ ہوگا اور دوسرا سرمایہ دارانہ ممالک کا گروپ ہوگا ، جس گروپ میں امریکہ اور یورپ کے سرمایہ دار ممالک ہوں گے۔ جناب جی ایم سید نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ میں پانچ طاقتیں امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس اور چین کے پاس ویٹو پاور ہے۔ جبکہ کروڑوں آبادی والے دوسرے بڑے ممالک جیسے بھارت ، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش ویٹو پاور سے محروم ہیں۔ اس لیے عالمی سطح پر تیسرا گروپ سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کا گروپ ہونا چاہیے۔ چوتھا گروپ روحانی پس منظر رکھنے والے ممالک کا گروپ ہونا چاہیے۔ جن میں مصر ، شام ، ترکی ، ایران ، عراق ، افغانستان ، اردن اور دیگر ممالک شامل ہوں۔ پانچواں اور آخری گروپ نئے آزاد اور چھوٹے ممالک کا ہو۔ اس ڈھانچے کے بعد ، پانچ ویٹو پاورز کو دنیا کی قیادت کا اختیار نہیں ہوگا ، لیکن پانچ گروپوں کو حاصل ہوگا۔ جس میں سوشلسٹ ، سرمایہ دارانہ اور روحانی پس منظر کے حامل تمام ممالک شامل ہوں گے۔ سائیں جی ایم سید کا خیال تھا کہ جب مختلف افکار و خیالات کے حامل ممالک برابری کی بنیاد پر مل جل کر بیٹھے گے تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور دنیا ترقی کر سکتی ہے۔ بصورت دیگر یہ طاقتور ممالک چھوٹے اور نئے آزاد ممالک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوں گے۔

جناب جی ایم سید نے یہ بھی کہا کہ دنیا کو پانچ گروپوں میں تقسیم کرنے سے پہلے دنیا کی تمام غلام قوموں کو آزادی دلانی ہوگی۔ کیونکہ ایسا کرنے کے بعد ہی چھوٹے اور نئے آزاد ممالک کا گروپ مکمل ہو سکے گا۔ قوموں کو آزادی دلانے کے لیے ضروری ہے کہ برطانیا کے مفادات کے تحت بننے والے ملک پاکستان کو توڑ کر اس سے سندھ ، بلوچستان اور پختون خواہ آزاد ریاستیں بنائی جائیں۔ جناب جی ایم سید نے کہا کہ آزادی کے بعد یہ سندھ کی صوابدید ہوگی کہ وہ روحانی پس منظر والے ممالک کے گروپ میں شامل ہونا چاہتا ہے یا کم آبادی والے نئے آزاد ممالک کے گروپ میں رہنا چاہتا ہے۔

جناب جی ایم سید کے افکار کی روشنی میں مذکورہ بالا گفتار کے بعد قومی تحریک کی ذمہ داریاں اور بھی مزید بڑھ جاتی ہیں۔

قومی تحریک کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ جناب جی ایم سید کے فکر تحت قومی آزادی کا انقلاب برپا کرے۔ قومی تحریک کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ سندھ کی آزادی کے بعد جناب جی ایم سید کے افکار کی روشنی میں انقلاب کی تعمیر اور تشکیل کرے۔ انقلاب کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ہی سندھ دنیا میں قومی آزادی کے دیگر انقلابات میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے گی۔ دنیا کی غلام قوموں کو آزاد کروانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نئی آزاد قومیں نئے عالمی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں اور اقوام متحدہ کا پانچواں گروپ بنائیں۔ اس لیے سندھ کی قومی تحریک کو دنیا کی قومی آزادی کی تحریکوں سے روابط قائم کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے وسیع اور وشال ہونا ہوگا۔

یاد رہے کہ سندھ کی قومی تحریک کو سندھ کے انقلاب سے لے کر بین الاقوامی نظام کی تعمیر تک بھرپور ، جاندار اور بہادرانہ کردار ادا کرنا ہوگا اور یہ کردار وہی جماعت ادا کرسکتی ہے جو حقیقی قومی انقلابی جماعت ہوگی۔

اس وقت سندھ میں ایک سے زیادہ تنظیمیں (سیاسی اور مزاحمتی) جناب جی ایم سید کے فکر کے تحت کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں میں سے ایک حقیقی انقلابی پارٹی کا انتخاب کرنا ہوگا۔ فکرِ سائیں جی ایم سید کے ماتحت کام کرنے والی زیادہ تر تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ فکرِ سائیں جی ایم سید کی بنیاد عدم تشدد ہے۔ اس لیے یہ تنظیمیں عدم تشدد کو اپنی جدوجہد کے رہنما اصول کے طور پر رکھتی ہیں اور اسے تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ عدم تشدد رہنما اصول نہیں بلکہ استثنیٰ ہے۔ استثناء وہ چیز ہوتی ہے جو کبھی ہوتی ہے تو کبھی نہیں بھی ہوتی۔ مثال کے طور پر ، 50 انقلابات میں سے اگر ایک انقلاب عدم تشدد کے بنیاد پر آ گیا ، تو یہ ایک استثناء ہوگی۔ یعنی ایسی چیز جو اتفاقاً ہو جائے۔ جبکہ سائنس وہ ہے جس کے تحت 49 انقلابات رونما ہوئے ہوں۔ جو لوگ 49 انقلابات کو چھوڑ کر ایک انقلاب کو رہنما اصول بنا لیتے ہیں ، وہ دراصل انقلاب سے فرار چاہتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ انقلاب میں نظریہ اہمیت رکھتا ہے۔ جیسا نظریہ ہوتا ہے ، پالیسیاں اور حکمت عملی بھی اسی کے مطابق بنتی ہیں۔ کیونکہ نظریات ناقابل تغیر اور مستقل ہوتے ہیں۔ جب کہ پالیسیاں اور حکمت عملی تبدیل اور عارضی ہوتی ہیں۔ جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی  ہیں۔ سائیں جی ایم سید نے اپنے پورے فکر میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ عدم تشدد قومی تحریک کا رہنما اصول یا نظریاتی اساس ہے۔ لیکن ہماری قومی تحریک کے دوست عقیدے کی بنیاد پر برسوں سے عدم تشدد کو رہنما اصول کے طور پر پوجتے رہے ہیں۔ اس لیے حقیقی انقلابی پارٹی وہی ہے جو انقلاب کے دوران تمام حکمت عملیوں اور جدوجہد کے تمام طریقوں کو استعمال کرنے کا ہنر رکھتی ہو۔ جدوجہد کے دیگر آپشنز کے ساتھ اس کے پاس مسلح جدوجہد کا آپشن بھی موجود ہو ۔ آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ، آپ کے پاس بلوچ قومی تحریک ہے جو اس وقت پاکستانی ریاست کے ساتھ مسلح تصادم میں ہے۔ اگر آپ بلوچ قومی تحریک کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو آپ کو مسلح جدوجہد کو قبول کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ عالمی برادری سے کٹ جائیں گے۔ لہٰذا ایک قومی تحریک کے طور پر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ جماعتیں جو عدم تشدد کی بنیاد پر مسلح جدوجہد کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہیں ، وہ نہ صرف انقلاب کو دھوکہ اور فریب دے رہی ہیں بلکہ جناب جی ایم سید کو بھی دھوکہ اور فریب دے رہی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔