بنگلہ دیش: 40 فیصد ووٹرز ٹرن آؤٹ، حسینہ واجد پھر وزیراعظم منتخب

98

الیکشن کمیشن کے حکام کے مطابق اتوار کو ہونے والے بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں حسینہ واجد کی حکمراں جماعت عوامی لیگ کو واضح کامیابی ملی ہے۔

حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے عام ہڑتال کا اعلان کیا اور درجنوں دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر ’جعلی انتخابات‘ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔

حزب اختلاف کی جانب سے بائیکاٹ کے بعد ہونے والے الیکشن میں عوامی لیگ کی کامیابی سے شخ حسینہ واجد پانچویں بار وزیراعظم بنیں گی۔

حتمیٰ نتائج اور درست اعداد و شمار کا باضابطہ اعلان پیر کو یعنی آج ایک تقریب میں متوقع ہے، لیکن فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کی پارٹی نے تقریباً تین چوتھائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، جو کل 299 میں سے کم از کم 220 نشستیں بنتی ہیں۔

شیخ حسینہ نے واجد نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ ’بی این پی ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ میں اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہوں کہ اس ملک میں جمہوریت برقرار رہے۔‘

انہوں نے نے شہریوں سے جمہوری عمل پر اعتماد ظاہر کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ جیتنے والوں میں بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شکیب الحسن بھی شامل ہیں جنہوں حسینہ واجد کی پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ جب کہ مشرف بن مرتضیٰ نے بھی اپنے سیٹ کا الیکشن جیت لیا ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق بنگلہ دیش کے اکثر عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔

چیف الیکشن کمشنر قاضی حبیب نے کہا کہ پولنگ بند ہونے پر ٹرن آؤٹ تقریباً 40 فیصد تھا، 2018 میں گذشتہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 80 فیصد سے زیادہ رہا تھا۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمران عوامی لیگ پارٹی نے 227 نشستوں میں سے 167 نشستیں حاصل کیں جبکہ باقی نشستوں کے نتائج کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔

آزاد امیدواروں، جن میں سے بہت سے عوامی لیگ پارٹی کے ارکان ہیں، نے 49 نشستیں حاصل کیں۔

بی این پی نے حکمراں جماعت پر ’ڈمی‘ آزاد امیدواروں کو کھڑا کرنے کا الزام لگایا ہے تاکہ انتخابات کو قابل اعتبار بنایا جائے۔ عوامی لیگ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

ووٹنگ صبح آٹھ بجے 42 ہزار سے زیادہ ووٹنگ مراکز میں دو لاکھ 61 ہزار سے زیادہ پولنگ بوتھوں پر شروع ہوئی اور شام چار بجے تک جاری رہی۔

اس دوران 299 پارلیمانی نشستوں پر انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی تھی۔