65 سال بعد بھی بلوچستان کے سرکاری ہسپتال کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں ۔ ینگ ڈاکٹرز

104

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان کے سرکاری ہسپتال زبوں حالی کا شکار ہے ، 65 سال گزرنے کے بعد بھی صوبے بھر کے سرکاری ہسپتال کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں ،صوبہ بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں میں ادویات نایاب ہوچکی ہیں ، سرکاری ہسپتالوں میں چند روپوں میں ملنے والا کینولا اور سرنج تک میسر نہیں ، آزادی سے پہلے بننے والے سنڈیمن پراونشل ہسپتال کوئٹہ میں 65 سال گزرنے کے بعد بھی ایم آر آئی مشین نہ خریدا جاسکا ،سرکار بنی سرکار گری نگراں حکومت آئی سیکریٹری آئے سیکرٹری گئے ایم ایسیز بدلے سب ہوا لیکن بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے انجیو گرافی مشین اور شیخ زاہد ہسپتال کوئٹہ کے ایم آر آئی مشین کی تین سال بعد بھی مرمت نہ ہوسکی۔

انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں پر حملے ہوئے لواحقین نے سرکاری ہسپتالوں میں ایک دوسرے پر اسلحہ کا استعمال کیا منتخب اور نگراں وزیروں نے ہسپتال کے عملے کا استحصال کیا وعدے ہوئے دعوے کئے گئے مگر سرکاری ہسپتالوں میں سیکیورٹی انتظامات بہتر نہ ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کرونا سے لڑے کانگو میں جان کی بازی ہارے سیلابوں اور وبائی امراض میں بلوچستان کے کونے کونے میں عوام کو علاج دینے پہنچے ہسپتالوں میں موجود محدود وسائل میں کام کرتے رہے لیکن پھر بھی ڈاکٹروں کو 2 سالوں سے اپنے وضائف سے محروم رکھا گیا ، الیکشن کمیشن کی پابندی کا جواز بنا کر ڈاکٹروں کو ایڈہاک نوکریوں سے محروم تو رکھا جارہا ہے مگر محکمہ صحت کے افسران الیکشن کمیشن کی ناک کے نیچے ہسپتالوں میں پیرا میڈیکل اسٹاف کی ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل آسامیوں پر میرٹ کو پس پشت رکھ کر خالی اسامیوں پر بندر بانٹ اور خریدوفروخت کرنے اور ان کو بیک ڈیٹ میں نوٹیفکیشنز کرنے کیلئے خاصے متحرک دکھائی دے رہے ہیں ، نگراں وزیر اعلیٰ اور اس کے وزیر اپنی اپنی وزارتوں کی ادا کردا رقم اور اس پر اپنا منافہ لینے کیلئے دورے کر رہے اور ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں مگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں کے کانگو وائرس وباء کا شکار ہونے والے شہید شکراللہ خان بلوچ کی سمری پر دستخط کرکے ان کے خاندان کو سرکاری مراہات دینے کی منظوری دے دے، بلوچستان کا ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا فرد سراپا احتجاج ہے، صوبے کا نظام مفلوج اور حکمراں غائب ہے، حکومت اور سیکرٹری صحت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں اور مریضوں کو درپیش مسائل پر سنجیدہ اقدامات اٹھائے اور شہید ڈاکٹر شکراللہ خان کی سمری پر دستخط کرکے منظوری دے،دعا ہے کہ آنے والا سال بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کا سال ہو۔

انہوں نے کہاکہ صوبے کے ٹرشری کیئر ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات ناپید ہو چکی ہیں ، کینولا اور سرنج تک میسر نہیں ، بی ایم سی ایچ، شیخ زید ہسپتال میں بنیادی مشینری انجیو گرافی ، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی مشین گزشتہ 3 سالوں سے ناکارہ ہیں ، 65 سال بعد بھی سول ہسپتال کوئٹہ کیلئے ایم آر آئی مشین تاحال نہ خریدا جاسکا، سرکاری ہسپتالوں میں ادویات تک میسر نہیں ہیں مگر حکومت اور محکمہ صحت ہسپتالوں کی بہتری کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھارہے جس کا خمیازہ ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹرز اور غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

بیان میں مزید کہاکہ ٹرشری کیئر ہسپتالوں میں 24/7 سروسز دینے والے پوسٹ گریجویٹ ٹرینیز اور ہاؤس آفیسرز کو گزشتہ 2 سال سے اپنے وضائف سے محروم رکھا گیا ہے ، الیکشن کمیشن کی پابندی کا جواز بنا کر ڈاکٹروں کو بےروزگار رکھا گیا مگر الیکشن کمیشن کی ناک کے نیچے محکمہ صحت کے افسران کی جانب سے ہسپتالوں میں پیرا میڈیکل اسٹاف کی ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل آسامیوں کی بندر بانٹ اور اقربا پروری کی جارہی ہے اور بیک ڈیٹ میں نوٹیفکیشنز کرکے خرید وفروخت کرکے میرٹ کی دھجیاں اڑانے کیلئے سرگرم ، محکمہ صحت کے افسران اس عمل میں براہ راست ملوث ہیں، اس غیر قانونی عمل میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے ، چیف جسٹس اور چیف سیکرٹری بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی ایڈہاک پر تعیناتی کو ممکن بنانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے اور ڈاکٹروں کی خالی اسامیوں پر مستقل بنیادوں پر تعیناتی کیلئے کمیشن بھیجا جائے۔

آخر میں کہاکہ صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں سروسز دینے والے ڈاکٹروں کی جان کو کس قدر خطرات لاحق ہوتے اس کو پوری دنیا 2 ماہ پہلے خود دیکھ لیا اور کانگو وائرس کی وباء کے شکار ہونے والے شہید ڈاکٹر شکراللہ خاں بلوچ کی شہادت اور ان کی مراعات کی سمری کو ابھی تک دستخط نہ کرنا ظلم کی انتہا ہے ، حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سمری پر دستخط کرکے شہید ڈاکٹر شکراللہ خاں بلوچ کے خاندان کو سرکاری مراعات دینے کی منظور ی دے دے۔حکومت وقت اور سیکرٹری صحت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں اور مریضوں کو درپیش مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے.