بلوچستان کا منظرنامہ – ٹی بی پی اداریہ

131

بلوچستان کا منظرنامہ

ٹی بی پی اداریہ

وقت گزر رہاہے لیکن بلوچستان کا سیاسی منظرنامہ نہیں بدل رہا، جبری گمشدگیاں، جعلی پولیس مقابلے اور احتجاج کا طویل سلسلہ جو دو دوہائیوں سے جاری ہے، جس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ اسلام آباد میں جبری گمشدہ افراد کے بازیابی کے لئے احتجاج ہورہا ہے جعلی پولیس مقابلوں کے خلاف تربت سے کوئٹہ لانگ مارچ کئی شہروں میں پڑاؤ ڈالتے ہوئے جاری ہے۔

سائرہ بلوچ جسے لاء کالج کے کلاس روم میں ہونا تھا لیکن وہ اسلام آباد کی سرد راتیں پریس کلب میں احتجاج کرتے گزار رہی ہے۔ جان محمد کا بیٹا چھ سال کا تھا جب والد جبری گمشدہ کردیئے گئے، وہ بڑا ہوکر سمی کی راہ پر گامزن ہے اور ناکو میار کی فریاد جو عرش کو ہلا سکتا ہے لیکن پاکستان کے مقتدر قوتیں اُن کی فریاد سننے سے قاصر ہیں۔ بالاچ کی بہن نجمہ دوسرے نوجوانوں کو بالاچ کی طرح جعلی مقابلوں سے بچانے کے لئے احتجاج کا راستہ اپنائے ہوئے ہے۔

بلوچستان کی کہانیاں جن کا جنم انسداد انسرجنسی پالیسیوں کے کوکھ سے ہورہا ہے اور اِن المناکیوں سے جڑے افراد احتجاج کا ہر وہ راستہ اپنانے کی کوشش کررہے ہیں جِن سے اُن کے پیاروں کی بازیابی ممکن ہوسکے۔

تربت سے شروع احتجاج نے تحریکی شکل اختیار کرلیا ہے اور لانگ مارچ کی صورت مختلف شہروں میں دھرنے دیتے ہوئے کوئٹہ کی جانب گامزن ہے۔ ہزاروں لوگ لانگ مارچ کا ساتھ دے رہے ہیں اور اجتماعی قوت کو توانا کرنے کی کوشش میں ہیں۔

ان تمام معاملات نے بلوچستان کے سیاسی منظر نامے کو ایک ایسے وقت میں بے چینی و احتجاجوں میں تبدیل کردیا ہے، جب پاکستان اپنے اگلے انتخابات کی تیاریوں میں ہے اور بلوچستان سے یہ توقع رکھی جارہی ہے کہ لوگ ماضی کے برعکس ان انتخابات میں حصہ لیں گے۔